بیلاروس کا شہر منسک


جون 2010 میں ماسکو جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ماسکو کے پاکستانی سفارتخانے کے ذمہ بیلا روس کے ساتھ سفارت کاری کی اضافی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ یک نہ شد دو شد۔ روس کے ساتھ بیلا روس، ماسکوکے ساتھ منسک۔ سچ پوچھیے تو اس اطلاع سے مسرت کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی ہوئی۔ یوں کہہ لیجیے کہ مسرت ملی پریشانی یا پریشانی ملی مسرت ہوئی۔ مسرت یوں کہ یورپ کا ایک اور پلا پوسا ملک دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا اور پریشانی یوں کہ 1991 کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد بھی دنیا کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک روس کیا کم تھا کہ ساتھ ایک اور اچھے خاصے بڑے اور زرعی اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملک بیلاروس کا بوجھ بھی اسی سفارت خانے پر ڈال دیا گیا مگرسچ پوچھیے تو یہ بوجھ۔ ’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘ کے مصداق تھا۔

سال 2011 میں تو یہ ملحقہ بوجھ ضمیر پر بھی محسوس ہونے لگا کہ منسک کے ساتھ نامہ و پیام کا کوئی سلسلہ ہی دراز نہ تھا۔ دراز تو کیا سرے سے تھا ہی نہیں۔ اپنا بچپن اور لڑکپن یاد آتا تو لگتا کہ پاکستان میں ستر (70) اور اسی (80) کی دہائی میں بیلاروس تو روس سے زیادہ جانا اور پہچانا جاتا تھا اور یہ سب بیلا روس کے ٹریکٹروں اور دوسرے زرعی آلات کی وجہ سے تھا جو پاکستان کے کھیتوں اور کھلیانوں میں نظر آنے والا عام نظارہ تھا۔

بیلا روس جو 1793 سے لے کر سوویت روس کی شکست و ریخت تک روس کا باقاعدہ حصہ تھا۔ پاکستان میں ایک علیحدہ ملک کی طرح محسوس ہوتا تھا۔ اس ملک سے راقم کا سرکاری تعارف ایک اتفاق بلکہ حسن اتفاق کا مرہون منت تھا۔ ہوا یوں کہ افسرتعلقات عامہ کے طور پر وزارت خوراک و زراعت میں کام کرتے ہوئے ایک روز بیلا روس سے آئے ایک بہت بڑے وزارتی وفد کے ہمارے وزیرخوراک و زراعت کے ساتھ مذاکرت کی نشست میں وزیر موصوف دوسری مصروفیات کی وجہ سے تاخیر سے پہنچے۔ یوں سیکریٹری خوراک و زراعت جناب ظفر الطاف صاحب، جن کے پائے کے افسر پاکستان کی بیوروکریسی میں کم کم ہی ہوں گے ، میں نے تو اپنی سروس کے دوران اتنا پڑھا لکھا، غیر روایتی اور با اصول افسر ایک بھی نہیں دیکھا (نوکر شاہی سے معذرت کے ساتھ کہ شاید یہ میری نظر کا قصور ہو) ، نے مہمان وفد سے گنت و شنید کا آغاز کیا۔ بقول غالب

پھر دیکھنا اندازگل افشانیٔ گفتار

بات خوراک و زراعت سے کہیں دور باہر نکل گئی۔ معلوم ہوا کہ وفد کے 27 اراکین میں سے 17 کے پاس ڈاکٹریٹ کی اسناد تھیں۔ ایک وزیر تو سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے ممبر رہے تھے اور اسٹالن اور ٹراٹسکی کے دور کو قریب سے دیکھا تھا۔ یہ سال 1998 کی بات ہے۔ گفتگو تو پوری کی پوری یادداشت میں اب بھی ترو تازہ ہے۔ ادب، سیاست، معیشت، معاشیات، سائنس، آرٹس، کرافٹس کون سا موضوع ہو گا کہ جس پر حکمت اور دانائی کے گنج ہائے گراں مایہ ارزاں نہ کیے گئے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے ذہانت اور حکمت سے مزین سوالات نے مہمان وفد کو حیران کر دیا۔ وزیر موصوف کی آمد سے پہلے پیش از مذاکرات یہ گفتگو میرے ذہن پر تب سے ثبت تھی۔

ابھی دونوں جانب مکمل سکوت کا عالم تھا سوچا کہ کیوں نہ خاموشی کی جھیل میں کوئی کنکر پھینکا جائے کہ ارتعاش پیدا ہو! سلسلہ جانبانی تو شروع کیا جائے۔ وہاں کے میڈیا پر نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ وہاں تو اچھا خاصا ترقی یافتہ میڈیا موجود ہے اور بیلاروس کی فلم انڈسٹری تو بہت ترقی یافتہ ہے اور وہاں کی کئی ایک فلمیں تو آسکر ایوارڈ تک جیت چکی ہیں۔ چنانچہ بیلا روس سے رابطہ کرنے کی سوجھی۔ خط و خطابت سے معلوم ہوا کہ وہاں تو ’چشم ماروشن دل ماشاد‘ والی کیفیت تھی۔ چنانچہ یوں پہلے سفر منسک کی صورت بنی۔

ہم بیلا روس کی سب سیبڑی نیوز ایجنسی بیلٹا کی دعوت پر منسک گئے تھے۔ اس خبر رساں ادارے کے ارباب بست و کشاد نے ہمیں وہاں موجود اخبار رساں اداروں، اخبارات، ٹی وی چینلوں، فلم کمپنیوں اور اشتہاربنانے والی کمپنیو ں اور مینسک میں وہاں کی بڑی بڑی بڑی نیوز ایجنسیوں کے اہم اراکین سے ملوایا۔ پاکستان کے ساتھ ان شعبوں میں قریبی تعاون کے فروغ کی ضرورت کا احساس ہر کسی کو تھا۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments