بلوچ آج اس نہج تک کیسے پہنچے؟


بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کا آغاز تو قیام پاکستان کے وقت بانی پاکستان محمد علی جناح صاحب کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا جب بلوچستان کی سب سے معتبر اور مقتدر شخصیت خان آف قلات کے بھائی آغا عبدالکریم اپنے سیکڑوں ساتھیوں کے ساتھ جھالاوان کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے تھے۔ مگر اسلحہ اور وسائل کی کمی کے سبب یہ مزاحمتی بلکہ علیحدگی کی تحریک چند ماہ میں ہی دم توڑ گئی۔ ایک دہائی کے بعد یعنی 1958 میں بلوچ ایک بار پھر بغاوت کے لیے آمادہ ہوئے، اور تب خان آف قلات کے تاریخی قلعے پر چڑھائی بھی کی گئی۔ خان آف قلات کے قلعے پر چڑھائی اور ان کی گرفتاری کو بلوچ مزاحمتی تحریک کے قائدین نے تسلیم نہیں کیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں ہی بلوچستان کی سیاست کے 4 بڑے نام ابھر کر سامنے آئے ؛ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر خان بگٹی جن کی کرشمہ ساز شخصیات بذات خود اس وقت ایک تحریک کا روپ دھار چکی تھیں

1962 میں ایک بار پھر جنرل ایوب خان کے دور میں ہی بلوچستان کے جنگجو سرداروں کا ایوبی آمریت سے ٹکراؤ ہوا مگر یہ دور ذرا مختصر تھا۔ 1970 میں ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بلوچستان کو پہلی بار صوبے کا درجہ ملنے سے اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کو یہ موقع ملا تھا کہ وہ مزاحمت کار بلوچ جنگجوؤں کو اعتماد میں لے کر ایک ایسی فضا بحال کرتے جس سے علیحدگی پسندوں اور آزادی کا نعرہ لگانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی مگر ’عوام کی آواز کو نوشتہ دیوار‘ کہنے والے ذوالفقار علی بھٹو بھی اس معاملہ ایک آمر ہی ثابت ہوئے

آزادی کے 23 سال بعد یعنی 1970 میں بلوچستان کو صوبہ کا درجہ ملنے کے بعد عوام کی پہلی منتخب اسمبلی کو اس وقت برسراقتدار نام نہاد ”جمہوریت کے چیمپیئن“ ذوالفقار علی بھٹو نے محض 8 ماہ بعد ہی فارغ کر دیا۔ بات یہیں تک نہ رہی بلکہ بلوچوں کی اس حق تلفی پر مزاحمت کو فوج کشی کر کے جبر کی انتہا کردی گئی جس کے بعد بلوچستان میں کم و بیش 4 سال تک طویل عرصہ آگ اور خون کا بازار گرم رہا۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق بلوچ مزاحمت کاروں اور پاکستان کے مسلح سیکیورٹی اداروں کے درمیان ان 4 برسوں کی مسلح کارروائیوں میں ساڑھے 4 ہزار بلوچ مزاحمت کار مارے گئے وہیں کم و بیش اتنے ہی سیکیورٹی فورسز کے جوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے

بھٹو دور کے خاتمہ کے بعد ان بلوچ سرداروں کو آنے والی ضیاء انتظامیہ نے مراعات اور عہدے دے کر بہت حد تک راضی کر لیا جس کے کے دو دہائی سے زائد طویل عرصہ تک بلوچستان آگ اور خون کی ہولی سے محفوظ رہا تاوقتیکہ 2 اور 3 جنوری 2005 کی درمیانی شب سوئی گیس فیلڈ میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی ملازم ڈاکٹر شازیہ خالد کے ریپ کا سانحہ پیش آیا جس کی آزادانہ انکوائری اور مجرموں کو سزا دینے کا پرزور مطالبہ بلوچ قیادت کی طرف سے سامنے آیا جس کے سرخیل نواب اکبر بگٹی تھے

اس وقت برسراقتدار مشرف انتظامیہ نے اس معاملہ اور مطالبہ کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جو بالآخر شدت اختیار کرتے ہوئے ایک مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر گیا جسے ایک بار پھر ریاستی جبر اور اور بربریت سے کچلنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ یہ تحریک اعلان علیحدگی کی تحریک میں ڈھل گئی اور آج نوبت ایں جا رسید کہ بلوچ مزاحمت کاروں کا میدان کارزار وسیع ہوتے ہوئے اب بلوچستان سے باہر دوسرے شہروں تک پہنچ گیا ہے جس کی ایک جھلک 26 اپریل 2022 کو جامعہ کراچی میں ایک ایم فل کی طالبہ اور بلوچ مزاحمت کار خاتون کی ہولناک خودکش کارروائی ہے

اگر اب بھی اس معاملہ کو تدبر اور افہام تفہیم سے حل نہ کیا گیا تو خاکم بہ دہن ملک ایک اور بڑے سانحہ سے گزر سکتا ہے جس کے ذمہ دار تمام سیاسی و غیر سیاسی ارباب حل و عقد ہوں گے اور قوم کے پاس حسب روایت ”وجوہات کے تعین“ کی لکیر پیٹتے کے سوا کچھ نہ ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments