شاری بلوچ کے اہلخانہ کو اب بھی لگتا ہے ’جیسے یہ کوئی بُرا خواب ہے‘

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، تربت


پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تربت کے مرکزی شہر سے چند کلومیٹر دور اور تربت یونیورسٹی کے سامنے واقع کلاتک وہ قصبہ ہے جہاں کراچی میں خودکش حملہ کرنے والی شاری بلوچ اپنی شادی کے بعد 10 برس قبل منتقل ہوئیں تھیں۔

اسی قصبے کے پرائمری سکول میں شاری نے اپنی پہلی ملازمت کی تھی اور آج بھی مرکزی سڑک کے کنارے واقع سکول کی عمارت کے اطراف سُرخ رنگ میں تحریر ’آزادی کا ایک ہی ڈھنگ، گوریلا جنگ‘ جیسے نعرے دیکھے جا سکتے ہیں۔

شاری بلوچ کی بطور خودکش حملہ آور شناخت اُن کی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کی جانب سے اس وقت کی گئی تھی جب پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے نشاندہی کی تھی کہ دھماکہ کی جگہ پر ایک خاتون بھی موجود تھیں۔

شاری بلوچ کے کراچی میں ٹھکانے کی نشاندہی کے حوالے سے تو سندھ پولیس کی کارروائیاں جاری ہیں لیکن بی بی سی اُردو کی ٹیم نے ان کے آبائی علاقے کلاتک کا دورہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ وہاں اس کارروائی کے بعد کیا صورتحال ہے۔

تربت شہر سے کلاتک پہنچنے کے بعد جب ایک راہگیر سے سکول کا پتا پوچھا تو اس نے جواب دیا ’کون سا گرلز سکول‘۔ ہم نے کہا کہ جس میں شاری پڑھاتی تھیں تو اس نے اشارے سے ایک عمارت کی جانب ہماری رہنمائی کی۔

کراچی

چھ کمروں پر مشتمل سکول کو دیکھ کر لگا کہ حال ہی میں اس کی مرمت اور رنگ و روغن کیا گیا ہے۔ اس کے باہر یورپی یونین اور حکومتِ بلوچستان کا مشترکہ بورڈ آویزاں تھا۔

ہمیں سکول کی تلاش اس لیے تھی کہ شاری بلوچ کی ایک دوست نے سکول کی عمارت کے باہر بی بی سی سے ملاقات کرنے اور بات کرنے کی غرض سے بلا رکھا تھا۔ ہم عمارت کے باہر رُک کر شاری کی دوست کا انتظار کرنے لگے لیکن جلد ہی اُس خاتون نے مطلع کیا کہ اُن کے بھائی نے انھیں وہاں آنے کی اجازت نہیں دی، چنانچہ انھوں نے معذرت کر لی۔

یہ جواب ملنے کے بعد ہم واپس تربت روانہ ہوئے اور شاری کے گھر کی تلاش میں نکل پڑے۔ ہمیں بتایا گیا کہ شاری بلوچ کے والد حیات بلوچ کا مکان تربت شہر کی اوورسیز کالونی میں واقع ہے اور حیات بلوچ تربت یونیورسٹی کے ریٹائرڈ رجسٹرار ہیں اور اس سے قبل پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے محکمے میں بھی تعینات رہ چکے ہیں۔

ڈھونڈتے ڈھونڈتے جب ہم اس مکان تک پہنچے تو گلی میں سرکاری نمبر پلیٹوں والی کچھ گاڑیاں پہلے سے موجود نظر آئیں۔

بنگلہ نما مکان کے صحن میں ایک درجن کے قریب لوگ موجود تھے جبکہ اندر کمرے میں اس سے بھی زیادہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے لیکن عجیب بات یہ تھی کہ وہاں اُس واقعے کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہو رہی تھی، جو اُن افراد کی وہاں آمد کا موجب تھی۔

یہ لوگ حیات بلوچ سے اظہارِ افسوس کے لیے آئے تھے۔ چونکہ ابھی تدفین نہیں ہوئی تھی اس لیے فاتحہ خوانی نہیں ہو رہی تھی۔ یہیں ہمیں معلوم ہوا کہ شاری کی میت لینے کے لیے کچھ رشتہ دار کراچی گئے ہوئے ہیں۔

شاری کے والد حیات بلوچ سے میں نے پوچھا کہ انھیں اس واقعے کا عِلم کب ہوا تو انھوں نے بتایا کہ منگل کو چار، ساڑھے چار بجے کے قریب ٹی وی اور سوشل میڈیا پر یہ خبر آنے کے بعد انھیں پتا چلا۔ وہ اس وقت سے صدمے کی کیفیت میں ہیں۔

اسی دوران ان کی آواز تھوڑی بھرائی لیکن جلد ہی انھوں نے جذبات پر قابو پا لیا۔

حیات بلوچ کا کہنا تھا کہ شاری ڈیڑھ ماہ قبل ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے تربت آئی تھیں۔ اُن کی اپنی بیٹی سے آخری ملاقات چند ہفتے قبل کراچی میں ہوئی تھی جس میں ’شاری نے کہا تھا کہ وہ جلد تربت آئے گی۔ وہ تو نہیں آئی لیکن یہ خبر آ گئی۔‘

حیات بلوچ کے 10 بچے ہیں اور 31 سالہ شاری اُن میں چھٹے نمبر پر تھیں۔ ان کے مطابق شاری نے کوئٹہ یونیورسٹی سے ایم ایس سی زوالوجی کیا تھا جس کے بعد وہ پرائمری اور سیکنڈری سکول ٹیچر رہیں اور اسی عرصے میں انھوں نے علامہ اقبال یونیورسٹی سے بی ایڈ اور ایم ایڈ بھی کیا تھا۔

پاکستان
آج بھی مرکزی سڑک کے کنارے واقع سکول کی عمارت کے اطراف سُرخ رنگ میں عسکریت پسندوں کے معروف نعرے تحریر ہیں

شاری کی طرح حیات بلوچ کے دیگر بچے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اُن میں سے اکثر سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ خود شاری کے شوہر ہیبتان بشیر ڈاکٹر جبکہ اُن کا ایک دیور جج، ایک اسسٹنٹ ٹریزری افسر اور دو یونیورسٹی میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

حیات بلوچ نے بتایا کہ شاری کے شوہر ان کے پڑوس میں ہی رہتے تھے جن سے شادی کے بعد وہ کلاتک چلی گئی تھیں اور وہاں سے ڈیڑھ سال قبل کراچی منتقل ہو گئیں۔

حیات بلوچ کے مطابق شاری کے شوہر کراچی میں امریکی ترقیاتی ادارے میں کام کرتے ہیں، شاری کراچی یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن ابھی تک داخلہ لیا نہیں تھا۔

شاری کے والد کے گھر پر اُن کے رشتے دار اس واقعے کے بعد شاری کے بچوں کے حوالے سے فکرمند دکھائی دیے کیونکہ ان کا دونوں بچوں اور شاری کے شوہر ڈاکٹر ہیبتان بشیر سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔

حملے کے تقریباً 10 گھنٹے کے بعد شاری کے شوہر ہیبتان نے شاری اور بچوں کے ہمراہ اپنی ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ فتح کا نشان بنا رہے ہیں۔ اس تصویر کے ساتھ اپنے پیغام میں انھوں نے اپنی اہلیہ کے اس اقدام کی تعریف بھی کی تھی۔

تربت

بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے بھی بی بی سی کو بھیجے گئے پیغام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شاری بلوچ نے اس حملے کا فیصلہ مکمل ہوش و حواس میں اپنے خاوند سے مشاورت کے بعد کیا تھا تاہم تاحال نہ تو سرکاری سطح پر اس واقعے کے حوالے سے ہیبتان کو شاملِ تفتیش کرنے کی بات سامنے آئی ہے اور نہ ہی اس بارے میں شاری بلوچ کے اہلخانہ کی جانب سے کسی قسم کی تصدیق کی گئی ہے۔

شاری کے والد سے ملاقات سے قبل ہم ان کے بڑے چچا غنی پرواز کے گھر بھی گئے جو بلوچی زبان کے مصنف، انسانی حقوق کمیشن سے منسلک ایک سینیئر کارکن ہیں اور جوانی میں وہ سیاسی طور پر بھی متحرک رہ چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شاری کے بارے میں ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا بلکہ ہم تو حیرت زدہ رہ گئے۔ اس روز رات کو جب میں کمرے میں بچوں سے بیٹھ کر بات چیت کر رہا تھا تو اچانک کسی بچے نے بتایا کہ یہ واقعہ ہوا۔ بار بار وہ تصویریں دیکھی گئیں، نام دیکھا گیا، میں نے کہا کہ دیکھوں واقعی یہ ہماری شاری ہے، پھر ان کے گھر گئے رات کو۔ ان کے والد و دیگر اہلخانہ بھی یقین نہیں کر رہے تھے، لیکن یقین کرنا پڑا کہ واقعی یہ واقعہ ہوا ہے۔ اس وقت بھی لگتا ہے جیسے یہ کوئی بُرا خواب ہے۔‘

غنی پرواز کے بقول انھوں نے اس واقعے کے بعد شاری کے بہن بھائیوں سے جاننے کی کوشش کی تھی کہ کیا انھیں شاری کے انتہاپسندی کی طرف راغب ہونے کے بارے میں علم تھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’قوم پرستانہ سیاست میں اس کی دلچسپی تھی اور وہ سیاسی باتیں کرتی رہتی تھیں۔‘

تاہم خود غنی پرواز کا کہنا ہے کہ اپنی بھتیجی سے جب بھی ان کی بات ہوئی تو موضوع فلسفہ ہوتا تھا، سیاست نہیں اور شاری ان سے فلسفیانہ سوالات کرتیں بلکہ فلسفے کے بارے میں ان سے کتابیں بھی لے جاتی تھیں۔

غنی پرواز
غنی پرواز: ’قوم پرستانہ سیاست میں اس کی دلچسپی تھی اور وہ سیاسی باتیں کرتی رہتی تھیں‘

بھائی کے اس دعوے کے برعکس شاری کے والد کا کہنا ہے کہ جب وہ بلوچستان یونیورسٹی میں تھیں تو اس وقت انھوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔ ’شاری نے سنہ 2012 میں ماسٹرز کیا تھا، تقریباً چار سال سیاست کی، تربت سے ہی وہ بی ایس او کے ساتھ منسلک ہو گئی تھیں۔ وہ بی ایس او کے میگزین ’آزاد‘ میں بھی لکھتی تھیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سرگرم بی ایس او کی مرکزی کمیٹی کے سابق رکن پردھان بلوچ کا کہنا ہے کہ جب سنہ 2013 میں بی ایس او آزاد اور عسکریت پسند تنظیموں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا تو شاری نے ان دنوں کوئٹہ میں اس سلسلے میں نکالی گئی ریلی میں بھی شرکت کی تھی۔

پردھان بلوچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ہائی سکول کے زمانے سے سیاسی لٹریچر پڑھنے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔

شاری کا تعلق بلوچستان کے مکران ریجن سے تھا اور پسنی، اوڑماڑہ، جیوانی، گوادر، تربت، پنجگور، تمپ اور مند پر مشتمل یہ علاقہ سرداری اثر و رسوخ سے آزاد علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں مرد و خواتین میں شرح خواندگی دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور سرکاری نجی شعبے میں بھی یہاں کے نوجوانوں کی موجودگی واضح ہے۔ یہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی یہ خطہ قوم پرستانہ اور طبقاتی جدوجہد میں آگے رہا ہے۔

شاری بلوچ کے اس انتہا پسندانہ اقدام نے جہاں ان کے اہلخانہ کو بے یقینی اور پریشانی کا شکار کر دیا ہے وہیں یہ بحث بھی جنم لے رہی ہے کہ اس دہشت گردی کے واقعے کے بلوچستان سے باہر جامعات میں زیرِ تعلیم بلوچ طلبا کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

پاکستان
کلاتک بازار کا ایک منظر

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی بعض بلوچ طلبہ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس بارے میں بات کی۔ کلثوم بلوچ نے شاری کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’آپ نے عام طلبا کی افزائش گاہ کو تباہ کر دیا! آپ نے اس سپیس کو بھی برباد کر دیا جس کے لیے سالوں کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔‘

’بےگناہوں کے قتل میں کوئی شان نہیں۔ آپ میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں بلوچوں پر زمین تنگ کرتے ہیں۔ امید ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں عام بلوچ طلبا کو نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ انھیں ہراسانی یا مزید امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا‘۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم کارکن گلزار دوست کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں یونیورسٹیوں میں اگر سختی آئے گی تو اس کا ردعمل بھی زیادہ ہو گا۔

’جو لوگ لاپتہ ہیں ان کے ردعمل میں بھی شدت آئی ہے۔ جب ایسی پڑھی لکھی مڈل کلاس کی لڑکیاں اس تحریک میں شامل ہو گئی ہیں تو ان کی سوچ ہے کہ ہمارے بہن بھائی جو جبری لاپتہ کر دیے جاتے ہیں، ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور اس طرح کے ردعمل کی وجہ یہی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments