یوم مئی، انسانیت کی سربلندی کا دن


امریکہ کے شہر شکاگو کے مزدوروں نے انیسویں صدی میں اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر 8 گھنٹے یونیورسل شفٹ اور سوشل سیکورٹی کا جو فلسفہ دیا تھا، آج اس سے نہ صرف مزدوروں بلکہ دنیا بھر کے انجنیئر، ڈاکٹر، اساتذہ، سائنس دان، صنعتکاروں سمیت ہر شعبۂ زندگی کے انسان مستفید ہو رہے ہیں۔ مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کے بے لگام استحصال کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی سماج کی۔ دنیا میں روشن خیالی اور انسانیت پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف تحریکوں کی داستانیں بھی اتنی ہی پرانی ہیں، البتہ ان کے خلاف منظم تحریکوں کی بنیاد صنعتی انقلاب کے بعد ہی پڑی، جب ہزاروں کی تعداد میں مزدور ایک ہی چھت کے نیچے کام کرنے لگے۔

صنعتی انقلاب کا محرک انسان تھے، جنہوں نے اپنے علم، سوجھ بوجھ اور تجربے کی بنیاد پر نئی نئی تخلیقات سر انجام دیں، لیکن اس کا ثمر محض سرمایہ داروں نے سمیٹا اور اسی سرمائے کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کر کے اپنے استحصال کو دوام بخشا۔ محنت کش جو دنیا کی ایجادات سے لے کر روز مرہ کی ضروری اشیاء پیدا کرتے تھے، ان سے 16 سے 20 گھنٹے روزانہ کام لیا جاتا تھا، اور معاوضہ بھی محدود ملتا تھا۔

یوم مئی کا آغاز محنت کشوں کے 8 گھنٹے اوقات کار کے مطالبے سے ہوا جب اپریل 1886 ء میں امریکہ بھر کے مزدوروں نے ہڑتال کی کال دے دی اور شکاگو سمیت صنعتی شہروں میں اکٹھے ہو کر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کا آغاز کر دیا۔ ملکی سطح کی اس ہڑتال میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ مزدوروں نے حصہ لیا اور ہائی مارکیٹ سکوائر شکاگو کے پر امن احتجاج میں چالیس ہزار سے زیادہ مزدور شامل تھے۔ جابر حکمران محنت کشوں کے بڑھتے ہوئے اتحاد اور ابھرتی ہوئی قوت سے خوف کھانے لگے، اور انہوں نے دوسرے شہروں سے مسلح پولیس دستے منگوا کر اس پر امن احتجاج کو کچلنے کا فیصلہ کر لیا۔

ظالم سرمایہ داروں اور ان کی پروردہ حکومت نے پر امن مزدوروں پر جدید اسلحہ سے دھاوا بول دیا اور شکاگو کی گلیوں کو ان کے خون سے نہلا دیا۔ شکاگو کے سرکردہ مزدور راہ نماؤں اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر، جارج اینجل، لوئس لنگ، مائیکل شواب، سیموئل فیلڈن اور اسکرنیب کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں سب اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887 ء کو پھانسی دی گئی، جب کہ مائیکل شواب اور سیموئل فلڈن کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔

محنت کشوں کی اس قربانی کے نتیجے میں 1889 ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890 ء سے ہر سال مئی کی پہلی تاریخ کو مزدوروں کا عالمی دن، یوم مئی کے نام سے منانے کا اعلان کیا گیا۔ ہر سال یکم مئی کو منایا جانے والا یہ دن محنت کشوں کا عالمی دن ہے جو امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے قتل عام اور شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے، جسے ہم یوم مئی کے شہداء کہتے ہیں۔ ہم ہر سال یکم مئی کو محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد اور اس کے لئے قربانیاں دینے والوں کے ساتھ یک جہتی کرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ، پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں ان تمام انسانوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہیں جو اجتماعی جدوجہد کر رہے ہیں، جو زیادہ تر انتہائی مشکل حالات میں کرنا پڑتی ہے اور قربانی مانگتی ہے۔

امریکہ میں شکاگو کے مزدوروں کی تحریک اسی عالمگیر تحریک کا حصہ تھی جسے سرمایہ داروں اور ان کی پروردہ حکومت نے بڑے وحشیانہ طریقے سے کچلنے کی کوشش کی۔ یہ وہی دن تھا جب مزدوروں نے اپنا امن کا سفید جھنڈا شکاگو کی سڑکوں پر ان کے بہنے والے خون سے رنگ کر سرخ کر لیا، اور اس دن سے مزدوروں کے جھنڈے کا سرخ رنگ دنیا بھر میں ان کی جدوجہد کی علامت بن گیا۔ انہی شہیدوں کی بدولت آج ہم 136 برس بعد بھی 8 گھنٹے روزانہ کام کی صورت میں اور سوشل سیکورٹی مراعات کے ساتھ فیض یاب ہو رہے ہیں۔

آج عارضی ملازمین یا پھر کنٹریکٹ لیبر نے دنیا بھر کی طرح برطانیہ اور پاکستان میں بھی کام کرنے والوں کے حقوق کو سلب کر رکھا ہے، کیونکہ ان پر ملازمت کے تحفظ اور دیگر مراعات کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ برصغیر پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کو تو سامراج نے بٹوارے کے وقت ہی ایسے مذہبی تعصب، نفرتوں اور قتل و غارت میں ڈال دیا کہ وہ اس روایت کو آج بھی جاری رکھے ہوئے اپنے ہی پستی کے سفر پر رواں دواں ہیں۔ ان ممالک میں مذہب کو عوام کے معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق کو سلب کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، جو آج تک جاری و ساری ہے۔

پاکستان میں تو قائداعظم کے انتقال کے ساتھ ہی بیوروکریسی، جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ نے ملک کو آزادی کی تکمیل اور ایک عوامی فلاحی ریاست کے قیام سے روکے رکھا اور حقیقی جمہوری ناپید کر دیا۔ محنت کش طبقات کے حقوق تو بہت دور کی بات ہے، وہاں تو مڈل کلاس اور پڑھے لکھے طبقے کے بھی نہ تو حقوق ہیں اور نہ ہی کوئی تحفظ۔

اب سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کر چکی ہے اور انسانوں کی جگہ کمپیوٹر اور روبوٹ لے رہے ہیں، جس سے بے روز گاری بڑھ رہی ہے اور عام آدمی کا معیار زندگی بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی تخلیق تو محنت کار انسانوں نے کی ہے، لیکن اس کا ثمر سرمایہ دار سمیٹ رہے ہیں۔ ان کی طاقت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ ہر چیز کو اپنی دولت سے پرکھتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے اسی سے خرید بھی لیتے ہیں۔ حکومتیں بھی انہی کی بنتی ہیں اور انہی کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔

کارپوریٹ میڈیا ایک بہت بڑا مافیا بن چکا ہے اور سامراجی ممالک اس پر عربوں ڈالر لگا کر عام آدمی کا ذہن کنٹرول کر رہے ہیں۔ ہمارے جیسے ممالک میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نوآبادیاتی ڈھانچے تلے قائم حکومتی مشینری، مالی دباؤ اور اسٹیبلشمنٹ کے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ اشتہارات کی بندش، میڈیا مالکان پر دباؤ، صحافیوں کی بے دخلی، میڈیا مالکان سمیت صحافیوں پر مقدمات اور برسوں تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کرنے جیسے ہتھکنڈوں کو اس مہارت سے استعمال کیا جاتا ہے کہ بڑے سے بڑا تیس مار خان بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اس طرح عوام کا ووٹ لے کر اقتدار میں آنے والی رولنگ الیٹ انہی عوام کا بڑی بے دردی سے معاشی، سماجی اور سیاسی استحصال کرتی ہے۔ اگلے الیکشن آتے ہیں تو اشرفیہ کا دوسرا گروپ نعرہ بدل کر آ جاتا ہے اور عوام اس کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ کوئی ان سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اپنی گزشتہ حکومت میں آپ نے کیے گئے وعدوں کو کس قدر نبھایا۔

آج کے دور میں اسلحہ کی پیداوار اور فروخت دنیا کا سب سے منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ سامراجی ممالک اپنی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی لوٹ کو دوام بخشنے کے لیے ترقی پذیر ممالک پر آئے روز جنگیں مسلط کرتی رہتی ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں مذہبی منافرت اور علاقائی تنازعات کو بڑے منظم طریقے سے بڑھاوا دیا جاتا ہے، تا کہ ان ممالک میں عوامی بجٹ کو کم کر کے آتشیں اسلحہ کی خرید کو ملکی سالمیت کے لبادے میں پیش کر سکیں اور ان ممالک کو آتشیں اسلحہ فروخت کر سکیں۔

ان ممالک کی جانب سے نئے خطرناک اسلحہ کی ٹیسٹنگ کے لیے یا تو ترقی پذیر ممالک میں جنگ چھیڑی جاتی ہے یا پھر انہیں ہمارے جیسے ممالک میں اندرونی سیکیورٹی کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے، جس سے وسیع تر جانی و مالی نقصانات کے علاوہ ان ممالک کی اکانومی پستی کی دلدلوں میں چلی جاتی ہے۔ اس سب سے آنے والی نسلیں ذہنی و جسمانی بیماریوں سے تباہ ہو رہی ہیں۔ اس لیے دنیا بھر کے عوام، بالخصوص محنت کش طبقات کو بھرپور آواز اٹھانا ہو گی کیونکہ ان کی زندگی اور استحکام امن سے وابستہ ہے۔ جنگ سرمایہ داروں اور اشرفیہ کے لیے سب سے منافع بخش کاروبار ہے، جبکہ محنت کشوں اور پسے ہوئے طبقات کو بھوک، ننگ، بیکاری، بے روزگاری، بیماریاں، تباہی اور بربادی دیتی ہے۔

پاکستان کی معیشت کا انحصار مجموعی طور پر زراعت پر ہے۔ ملکی آبادی کا 64 فیصد کے قریب حصہ دیہی آبادی پر مشتمل ہے اور براہ راست یا بالواسطہ زراعت کے پیشے سے بندھا ہوا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے حکمران طبقات اور اشرفیہ نے ملک کا حال اس حد تک ابتر کر دیا ہے کہ ملکی آزادی کے 74 برس گزر جانے کے باوجود ہم بنیادی زرعی اجناس بشمول گندم، چینی، دالیں درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے چند اضلاع کو چھوڑ کر سارا ملک جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے، جبکہ محنت کش اور چھوٹا کسان ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کا شکار ہے۔

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف سمیت تمام رولنگ جماعتیں انہی جاگیرداروں اور سرداروں کی اتحادی ہیں اور انہی الیکٹیبلز اور ان کے کارندوں کو ٹکٹ دیتی ہیں۔ پھر وہی جاگیردار اسمبلیوں میں پہنچ کر ایسا کوئی قانون پاس نہیں ہونے دیتے جو ملک میں جاری جاگیردارانہ تسلط کو چیلنج کر سکے۔ اس طرح تبدیلی کے نعرے اور دعوے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ ڈلیور نہیں کر پاتے۔ اقتدار چھن جائے تو ایک نئے وعدے اور دعوے کے ساتھ عوام کی سادہ لوحی کا مذاق اڑانے آ جاتے ہیں۔

اس لیے ہمارے ملک کا حقیقی مسئلہ تو ملکی معاشی ڈھانچے کو توڑ کر وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر ملکی معاشی ڈھانچے کی تشکیل نو کر کے وسائل پر قابض جاگیرداروں کے تسلط کو توڑنا ہے۔ موجودہ جاگیردار اور قبائلی سردار انگریز سامراج کے چاپلوس تھے اور یہ جاگیریں انہوں نے اپنے دیش سے غداری کے بدلے میں انعام و اکرام میں حاصل کیں تھیں، نہ کہ انہوں نے محنت سے بنائی تھیں۔

آج دنیا میں سرمایہ داری نظام زبردست بحرانوں کی زد میں ہے، جبکہ امن و جمہوریت کی سوچ اور ترقی پسند پسند قوتیں ایک نئے عزم کے ساتھ دنیا بھر میں ابھر رہی ہیں۔ وینزویلا اور کیوبا نے عالمی پابندیوں کے باوجود جو پیش رفت کی ہے وہ ایک مثال بن رہی ہے، جبکہ حالیہ چند برسوں میں برطانیہ میں جیریمی کوربن اور امریکہ میں برنی سینڈرز جیسے ترقی پسند سوشلسٹوں نے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہل چل مچا دی ہے، جو اب وقفے وقفے سے ابھرے گی اور سیاسی میچورٹی کی راہ ہموار کرے گی۔

مجھے یقین ہے کہ ایسی تحریکیں مستقبل قریب میں دنیا بھر میں ایک نئی ترقی پسند لہر کو جنم دیں گیں، جو سرمایہ داری و سامراجی تسلط کو کمزور کرنے اور استحصال سے پاک آزاد، ترقی پسند، جمہوری معاشروں کے قیام کا سبب بنیں گی۔ موجودہ حالات میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو ختم کرنا ہو گا۔ ریاستی مشینری کا تسلط کم کرنا ہو گا، معیشت کی بنیادوں کو تبدیل کرنا ہو گا، ثقافتی اور کارپوریٹ میڈیا پر سرمایہ داروں کی اجارہ داری کو توڑنا ہو گا۔ اسی سیاسی آگاہی کے لیے طبقاتی تفریق اور حقیقتوں کو سمجھنا ہو گا اور اس کا ادراک کرنا ہو گا۔

آؤ آج ہم عہد کریں کہ برطانیہ میں رہتے ہوئے ہر قسم کے نسلی اور مذہبی تفریق کے خلاف اپنا شعوری اور عملی کردار ادا کریں گے اور برطانوی معاشرے کو ریس ازم اور فاشزم سے پاک ایک پرامن جمہوری ریاست کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے، تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ایک پرامن، جمہوری اور انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ممکن ہو سکے۔ آؤ آج ہم عہد کریں کہ پاکستان کو ایک ترقی پسند، استحصال سے پاک عوامی جمہوری پاکستان بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے جو ایک حقیقی فلاحی ریاست ہو، جو مذہب، جنس، علاقہ اور رنگ کی بنیاد پر اپنے ملک کے عوام کو تفریق کرنے کی بجائے امن، محبت، بھائی چارے کی علمبردار ریاست ہو، جس میں ملک صرف ایک فیصد اشرفیہ اور بیوروکریسی کا نہ ہو بلکہ 99 فیصد محنت کش کام کرنے والے مزدوروں، کسانوں، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئرز اور پسے ہوئے طبقات کا ہو اور ان کے معاشی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی حقوق کا تحفظ ہو۔ ایسا ملک کے معاشی ڈھانچے کو توڑ کر تشکیل نو کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آؤ سب عہد کریں اور اس پر ثابت قدمی سے کاربند رہیں۔

یوم مئی کے شہیدوں کو سلام۔ انقلاب زندہ باد۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments