ترک خواتین کی ویڈیوز اور ہراسانی کے معاملے نے ترکی میں پاکستانی شہریوں کی زندگی کیسے متاثر کی؟

رباب بتول - صحافی


ترکی میں مقیم مبشر کو گذشتہ ہفتے یہ جان کر تعجب ہوا کہ وہاں پاکستانیوں کے خلاف کوئی ٹرینڈ چل رہا ہے۔ 'انٹرنیٹ پر کچھ لوگوں نے ترک خواتین کی ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کیں تو یہ تاثر ضرور بنا کہ بھلا ترکی میں موجود پاکستانی مرد ایسا کیوں کر رہے ہیں؟'

اپریل کے اوائل میں بعض پاکستانی صارفین نے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کیں جن میں وہ استنبول کی گلیوں میں ترک خواتین کا پیچھا کر رہے ہیں، بغیر اجازت انھیں فلم بند کر رہے ہیں اور خود کو کسی سلیبرٹی کی طرح پیش کر رہے ہیں۔ ایک ویڈیو میں تو ایک شخص نے ترک خواتین کی طرف کیمرا گھماتے ہوئے کہا ’انھیں دیکھ کر میری بھوک بڑھ جاتی ہے۔‘

مبشر بطور ٹیلی کام انجینیئر چھ سال سے ترکی میں کام کر رہے ہیں اور انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ‘اگر آپ ایک ملک میں رہ رہے ہیں تو آپ وہاں اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں، کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ آیا اس سے ہمارے ملک کا نام بدنام تو نہیں ہوگا؟’

جب یہ خبر مقامی لوگوں کو ملی تو ترک سوشل میڈیا پر ’پاکستانی پرورٹس‘ اور ’پاکستانی گیٹ آؤٹ‘ جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگے اور بعد ازاں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ جن ترکیوں نے پاکستان مخالف ٹرینڈز میں اظہار خیال نہیں کیا انھوں نے اپنے اردگرد پاکستانیوں سے اتنا ضرور پوچھا کہ ’یہ کون لوگ ہیں؟‘

اس کے بعد وہاں چند پاکستانیوں، بالخصوص پاکستانی مردوں، کے لیے حالات اتنے خوشگوار نہیں رہ سکے۔ یہ بدنامی کا وہ داغ تھا جس سے نام تو ہرگز نہ ہوا بلکہ چند افراد کی غلطی نے باقیوں کو بھی بُری طرح شرمندہ کیا۔

بات اگر صرف اس واقعے میں ملوث افراد پر تنقید و بدنامی تک رہتی تو شاید اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ مگر اس سے وہ باعزت پاکستانی بھی متاثر ہوئے جو مہذب اور ذمہ دار غیر ملکیوں کی طرح ترکی میں رہ رہے ہیں۔

یہاں تک کہ اس واقعے کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ پر ایسی خبریں چلیں کہ ترکی نے پاکستانیوں کے لیے اپنی ویزا پالیسی میں سختی کر دی ہے جس پر ترکی میں پاکستانی سفارتخانے نے وضاحت دی کہ ’ترکی نے پاکستانی شہریوں کے لیے مخصوص ویزے اور رہائشی اجازت نامے جاری کرنے کی اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں اس کا کہنا تھا کہ ’سفارت خانہ تمام معاملات پر ترک حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔‘

ترک خواتین

ترک خاتون دلان اوزدیمیر (دائیں) کہتی ہیں کہ ایسی صورتحال میں خواتین کو اپنے ہی ملک میں ڈر لگنے لگتا ہے جبکہ بہار اوزترک (بائیں) کے مطابق ہراساں کیے جانا اس دنیا کی تمام عورتوں کا مشترکہ مسئلہ ہے

اگرچہ سوشل میڈیا پر مردوں اور خواتین دونوں نے ان ویڈیوز کی مذمت کی ہے تاہم یہاں ترک خواتین کے خیالات کافی اہم ہیں کیونکہ بالآخر وہ اس ہراسانی کا شکار بنی ہیں۔

‘کیا مجھے اب پاکستانی مردوں کی ہراسانی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا؟’

ان ویڈیوز کے منظرعام پر آنے کے بعد بی بی سی نے ترکی کی خواتین سے پوچھا کہ کیا وہ اس پر تمام پاکستانی مردوں کو مجرم سمجھتی ہیں۔ اس پر اکثر کا جواب تھا کہ ہراسانی کا تعلق کسی قوم یا نسل سے نہیں بلکہ عورتیں کے خلاف ایسے رویے کئی معاشروں میں پائے جاتے ہیں اور ہراساں کرنے والا کوئی بھی ہوسکتا ہے۔

ترک خاتون بہار اوزترک کا کہنا ہے کہ ہراساں کیے جانا اس دنیا کی تمام عورتوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ انھیں اب تک اس ویڈیو جیسی ہراسانی کا سامنا کرنا نہیں پڑا ہے لیکن انھیں لگتا ہے کہ کسی دن ان کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ ایسے مردوں کے لیے محض قید یا جرمانے کی سزا کافی نہیں بلکہ انھیں نفسیاتی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ مسئلے کا حل کیا جاسکے۔

ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کی خواتین کو ہراسانی کا سامنا کرنا پرتا ہے مگر اس کا تعلق کسی قومیت، مذہب یا نسل سے نہیں۔ ‘اگر کوئی افریقی یا پاکستانی ایسا کرتا ہے تو انھیں اس حرکت کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے۔ نہ کہ ان کی قومیت یا نسل کی بنیاد پر۔ اور انھیں ڈیپورٹ (ملک بدر) کیا جانا چاہیے۔’

دلان اوزدیمیر کہتی ہیں کہ ’میں نے ماضی میں ترک مردوں کے پُرتشدد رویوں کا سامنا کیا ہے اور اب ہمیں غیر ملکیوں کی جانب سے بھی ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ‘ایسی صورتحال میں اپنے ہی ملک میں ڈر لگنے لگتا ہے۔’

انھیں لگتا ہے کہ ‘ان حالات کو رونما ہونے سے پہلے روکنا ہراسانی کے بعد سزا کو نافذ کرنے سے زیادہ مؤثر ہوگا۔’

اویا کِلج کہتی ہیں کہ انھیں اپنی پوری زندگی زبانی حملے سہنے پڑے ہیں چاہے وہ سڑک پار کر رہی ہوں یا تفریحی مقامات پر جا رہی ہوں۔ ‘ایسے میں مجھے مایوسی ہوتی ہے اور اکثر سوچتی ہوں کہ اب کیا کیا جائے۔’

انھی ویڈیوز کے بارے میں جب ایلیف دلارا اکیجی سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ ‘ہم اس طرح کے واقعات کے بارے میں خبروں میں سنتے رہے ہیں کہ یہ حرکت کسی پناہ گزین یا غیر ملکی نے کی۔ ہم اکثر یہ بھی سنتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں ان غیر ملکیوں کے بارے میں تعصب (سٹیریو ٹائپ) پیدا ہو رہے ہیں۔’

پاکستانی حکام پناہ گزینوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے متحرک

پاکستان اور ترکی کے درمیان سفارتی سطح پر تعلقات اچھے رہے ہیں جنھیں انقرہ میں پاکستانی سفارتخانہ ‘دو ملک، ایک قوم’ قرار دیتے ہے۔

ترکی میں پاکستانی سفارتی حکام نے بی بی سی کو بذریعہ ای میل بتایا ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی شہری سیاحت، تعلیم یا ملازمت کے حصول کی خاطر ترکی کا رُخ کرتے ہیں۔ گذشتہ سال پاکستان سے قریب دو لاکھ سیاح، تقریباً دو ہزار طلبہ اور 18 ہزار ملازمین ترکی آئے۔

انقرہ میں پاکستانی سفارتی عملے نے بتایا کہ حال ہی میں کچھ ناخوشگوار واقعات ہوئے ہیں جن کے بعد دو افراد کو گرفتار کرنے کے بعد ڈیپورٹ کیا گیا۔ ان کا اشارہ گذشتہ دنوں تکسیم سکوائر کے قریب پیش آنے والے اغوا کے اس واقعے کی طرف بھی تھا جس میں چار نیپالیوں پر تشدد کیا گیا اور اس کے بعد ایک پولیس آپریشن میں چھ پاکستانی گرفتار ہوئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال کو روکنے کے لیے ترکی آنے والے پاکستانی شہریوں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہ ضروری قانونی دستاویزات کے علاوہ مقامی روایات اور تہذیب کی بھی پیروی کر سکیں۔

انھوں نے کہا کہ ’چند گمراہ لوگوں کے عمل کو پوری (پاکستانی) کمیونٹی یا ملک کے لیے دقیانوسی تصورات کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔’

تاہم انھوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستانی اور ترک حکام کی یہ متفقہ رائے ہے کہ ’ہم اس خاص رشتے کو برقرار رکھیں گے اور اسے کسی قسم کی شرانگیزی سے نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان اور ترکی ایک دوسرے سے کیا چاہتے ہیں

ارطغرل کی اداکارہ پر ’برا‘ کا اشتہار کرنے پر تنقید: ’پیارے پاکستانیوں، یہ پاکستان نہیں، ترکی ہے‘

کیا ترکی کے ڈراموں سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو کوئی خطرہ ہے؟

’اب ترک ہمیں بتائیں گے کہ کون ہمارا دوست ہے اور کون دشمن؟‘

ترکی، سیاحت

گذشتہ سال قریب دو لاکھ پاکستانی سیاحوں نے ترکی کا رُخ کیا

’اب ترک لوگ پاکستانیوں کا اتنا خوشی سے استقبال نہیں کرتے‘

ترکی میں دستاویزی فلم اور ویڈیوز بنانے والے پاکستانی شہری احسن علی نے بتایا کہ وہ ایک ترک دوست کے ساتھ فلیٹ شیئر کرتے ہیں اور انھوں نے خود اس حوالے سے کچھ نہیں دیکھا تھا۔ ‘مجھے بہت بُرا لگا کہ ایک، دو پاکستانیوں کی وجہ سے باقی لوگ بھی بدنام ہو رہے ہیں۔’

انھیں لگتا ہے کہ یہ ’کلچرل شاک‘ کا نتیجہ ہے کیونکہ دونوں ملکوں کی ثقافت میں کافی فرق ہے۔ ’جو پاکستانی ادھر آتے ہیں، ان کی استنبول سے ایسی توقعات نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے واقعات مزید بھی ہوسکتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ایسی چند ویڈیوز منظر عام پر آئیں ورنہ انھوں نے ترکی کے سیاحتی مقامات پر ایسی حرکتیں دیکھی ہیں جو شاید اس سے بھی زیادہ قابل اعتراض ہوسکتی تھیں۔ ‘ہمارا یہ مسئلہ حل ہونے کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے (پاکستان اور ترکی کے) کلچر میں بڑا فرق ہے جس کی وجہ سے ایسی واقعات ہوتے ہیں۔’

انھیں استنبول میں قریب دو سال ہوگئے ہیں اور انھوں نے ماضی میں دیکھا ہے کہ پولیس اور شہریوں کا رویہ پاکستانیوں کے لیے کافی مختلف ہوا کرتا تھا۔ ‘جب پولیس روک کر پاسپورٹ چیک کرتی تھی تو اگر میں بتاتا تھا کہ پاکستانی ہوں تو وہ بڑے کھلے دل سے بھائی کہہ کر استقبال کرتے تھے اور جانے دیتے تھے۔’

ترک خواتین

دلارا (بائیں) کا خیال ہے کہ ایسی ویڈیوز اور ٹرینڈز سے پاکستان سمیت دیگر غیر ملکیوں کے بارے میں تعصب پیدا ہوسکتے ہیں، اویا (دائیں) نے بتایا کہ انھوں نے ماضی میں بھی ترکی میں ہراسانی کے واقعات کا سامنا کیا ہے

کام کے سلسلے میں احسن کا ترکی کے کئی شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا اور انھیں یہ دیکھ کر کافی خوشی ہوتی تھی کہ ترک حکام ایک پاکستانی شہری سے کافی پیار سے بات کر رہے ہیں اور عزت دے رہے ہیں۔ لیکن اب یہ بالکل بدل گیا ہے۔ اب ترک لوگ پاکستانیوں کا اتنا خوشی سے استقبال نہیں کرتے۔‘

مبشر کے تجربے میں ترک شہریوں کے ماضی میں پاکستانیوں سے کافی اچھے تعلقات رہے ہیں اور وہ عزت دینے والے لوگ ہیں۔ مگر ان کے لیے بھی یہ ندامت کا باعث بنا جب ان کے دفتر کے ساتھیوں نے انھیں ویڈیوز دیکھا کر پوچھا کہ ‘یہ کون لوگ ہیں؟’

’ہمارے لیے اس کا جواب دینا کچھ مشکل ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور ایسا کیوں ہو رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کچھ پاکستانی نوجوانوں کو لگتا ہے کہ وہ ٹک ٹاک پر ایسی ویڈیوز بنا کر شہرت حاصل کر لیں مگر حقیقت میں بغیر اجازت کسی کی ویڈیو بنانا جرم ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ترک حکام نے اس پر کارروائی کرتے ہوئے کچھ لوگوں میں حراست میں بھی لیا ہے۔ ‘ہم اب تک اس مسئلے کو اپنے طور پر سنبھال پائے ہیں مگر ایسا چلتا رہا تو (پاکستانیوں) کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔’

احسن کو لگتا ہے کہ اس میں ان چند پاکستانیوں کی ہی غلطی ہے کیونکہ جو انھوں نے کیا اس کی وجہ سے تمام پاکستانی بدنام ہو رہے ہیں۔ ’ترکی کی معیشت کو بھی اب مشکلات کا سامنا ہے اور وہ کچھ حد تک پناہ گزینوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اب ایسے واقعات زیادہ نمایاں ہوں گے تو ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ پہلے ایسے واقعات کو نظر انداز کیا جاسکتا تھا جب ملک میں زیادہ حوشحالی تھی مگر اب ایسا مشکل لگتا ہے ‘کیونکہ اب استنبول میں پناہ گزینوں کے لیے راستے تنگ ہو رہے ہیں۔’

مبشر بتاتے ہیں کہ ان واقعات سے ترک نوجوانوں میں پاکستانیوں کے لیے نفرت پیدا ہوئی ہے۔ ’وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی نوجوان ایسا ہی کرتے ہیں اور آگے بھی مزید کرتے رہیں گے۔‘

’لیکن ہمارے ساتھ کام کرنے والا پڑھا لکھا طبقہ یہ جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ان کے ذہن میں پاکستانیوں کے بارے میں مثبت خیالات ہی ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments