سرمایہ داروں کا شکنجہ


ہم دیسی ارب پتیوں سے جلتے ہیں ملک ریاض کی بیٹی کے جھگڑے والا معاملہ ہو نور مقدم قتل کیس والی آدم جی فیملی ہو ہم ساڑ نکالتے پائے گئے جبکہ بدیسی ارب پتیوں کی راہ میں بچھ جاتے ہیں ایلون مسک کی مثال لے لیں۔ ٹویٹر اس نے خریدا بھنگڑے ہم ڈال رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ کل ملا کر دس امریکی ارب پتیوں کی دولت باقی دنیا کی آدھی آبادی کی مشترکہ دولت سے زیادہ ہے۔

سرمایہ درانہ نظام ایسا ہی ہے آپ پیسہ لگاؤ اپنے بندے عدلیہ سیاست بیوروکریسی میں بٹھاؤ اور قانون کو جیب میں ڈال کر گھومو۔

بھارت میں امبانی بی جے پی کو فنڈنگ کرتا ہے اور مودی کو کٹھ پتلی کی طرح انگلیوں پہ نچاتا ہے۔ امریکہ میں بڑی بڑی فرمز ملین ڈالرز پارٹی فنڈز کے نام پہ دیتی ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔

پاکستان میں میاں منشا، ملک ریاض سیٹھ داؤد سیٹھ عابد سمیت کئی نام ہیں جن کی ڈائریکٹ رسائی سربراہان مملکت تک ہوتی ہے۔ سرمایہ داری نظام میں خوامخواہ خرچوں کو بڑھایا جاتا ہے تا کہ عوام سے زیادہ سے زیادہ پیسے لوٹے جائیں۔ جاگیرداری دور میں الیکشن ہوتے اک مزارع جا کر رعایا کو گودے کا انتخابی نشان بتا آتا۔ دربار ریاست میں بدلا رعایا کو باشندوں کا درجہ ملا۔ اب الیکشن کمپین اک انڈسٹری بن چکی ہے۔ میڈیا منیجمنٹ کمپنیاں آپ کی ریپوٹیشن بناتی ہے۔

ایس ایم ایس سروسز پرووائیڈر ووٹرز کے موبائل نمبرز پہ پیغامات بھیجتے ہیں امیدوار کی ریکارڈڈ آڈیو کالز کی جاتی ہیں۔ امیدوار کے نام کا نغمہ تو انتہائی ضروری ہے۔ جلسوں کے بغیر کیسی کمپین اور ڈی جے کے بغیر کیسا جلسہ۔ موٹر سائیکل ریلیاں کارنر میٹنگ وال چاکنگ پینا فلیکس سٹیکر بیجز پمفلٹ بینرز پوسٹرز قیمے والے نان بریانی بھی لازمی ہے۔ اب امیدوار خود یہ خرچہ کرے تو منتخب ہو کر اس انویسٹمنٹ کو پورا کرنا حق سمجھتا ہے اور اگر فنڈنگ لے کر خرچہ کرے تو انویسٹرز من پسند ٹھیکے تقرریاں تبادلے وغیرہ کرانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

سرمایہ داری نظام نامحسوس انداز میں ہمیں اپنے شکنجے میں جکڑتا ہے۔ آج سے چند سال قبل سالگرہ منانے کا رواج نہیں تھا زیادہ سے زیادہ گھر میں من پسند کھانا بنا لیا جاتا۔ آج یا تو فوڈ پوائنٹس پہ بکنگ کی جاتی ہے گھر پہ بھی منانی ہو تو لائٹنگ غبارے کیک ٹوپیاں سنو سپرے اور سالگرہ کے نمبر والی موم بتی کے ساتھ چنگاری والی موم بتی لینا جیسے روایت بن چکی ہو۔

سکولوں کو دیکھ لیں سرکاری سکول میں تین چار روپے سے لے کر 20 روپے ماہانہ فیس میں بچے میٹرک بورڈ ٹاپ کر لیتے۔ آج سرمایہ داروں نے گلی گلی سکول کھول لیے ہیں سکولوں کالجوں کی فرنچائز بن چکی ہیں۔ ایسا نہیں کہ تب پرائیویٹ سکول کالج نہیں ہوتے تھے لیکن تب ان کے مالک سکول کالج میں بیس بیس سال پڑھانے کا تجربہ رکھنے والے ریٹائرڈ استاد یا پروفیسر اکیڈمیاں بنایا کرتے تھے۔ آج مڈل پاس سود خور ہو یا میٹرک پاس تاجر سرمایہ لگا کر فرنچائز کالجوں سکولوں کے مالک بنے ہوئے ہیں تعلیم کاروبار بن چکا ہے۔

زیادہ نہیں دس پندرہ سال پہلے تک نیلی شرٹ اور کالی پینٹ میں پرائمری سے مڈل میٹرک تک کر لیا جاتا تھا۔ آج طلبا کا باقاعدہ اک ڈریس کوڈ ہوتا ہے پہلے ہم کتابوں کو اک بیلٹ سے باندھ کر سکول لے جاتے تھے آج پہیوں والے سکول بیگز کارٹون کیریکٹر والا لنچ بکس تھرمو کول والی واٹر بوتل نہایت ضروری ہے ورنہ بچہ احساس کمتری کا شکار ہو سکتا ہے۔ سال میں یوم آزادی یا پاکستان ڈے منایا جاتا لے دے کے تقریریں کر کے بات ختم۔

آج ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ڈے منایا جا رہا ہوتا ہے کبھی اورنج ڈے کبھی مینگو ڈے کبھی ایپل ڈے کبھی ٹری ڈے اور والدین بے چارے جیسے تیسے یہ فروٹس پورے کر لیتے ہیں لیکن جب جانوروں کے ڈیز منائے جاتے ہیں تو بچے کے لیے اسی جانور کی طرح کا لباس بنوانا پڑتا ہے۔ جس دن رزلٹ اناؤنس ہوتا اول دوم سوم کے نام لیے جاتے ہیڈ ماسٹر / پرنسپل کندھا تھپتھپاتا دل کیا تو سو پچاس روپے انعام دے دیا۔ آج نتیجے کا دن اک تہوار بن چکا ہے ویڈیو بنانے والا آتا ہے ڈی جے ہوتا ہے ملی نغموں کا ایسا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے والدین سٹیج پہ مارچ کرتے بیس بچوں میں اپنے اپنے بچے کو ڈھونڈ کر خوشی سے تالیاں پیٹ پیٹ کر گھر آ جاتے ہیں۔ پہلے اول دوم سوم تین پوزیشن ہوتیں تو تین ہی پوزیشن ہولڈر ہوتے آج بیس کی کلاس میں سے بارہ بچے فرسٹ پانچ سیکنڈ اور باقی تھرڈ پوزیشن ہولڈ کیے ہوتے ہیں۔ پاس ہونا کیا ہوتا ہے یہ آج کی نسل کو معلوم نہیں۔ پلاسٹک کی درجنوں ٹرافیاں ٹافیاں سمجھ کر بانٹتے ہیں۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں کہ اس نیو لبرل سرمایہ داری نے کس طرح کروڑوں اربوں انسانوں کی قسمت کے فیصلے چند مخصوص لوگوں کو تفویض کر دیے ہیں۔ ابھی یہ سرمایہ دار فری مارکیٹ کے مطالبے بھی کرتے ہیں۔ یہ مناپلی کرتے ہیں جب چاہے پروڈکٹ کی قلت پیدا کر دیں قیمتیں بڑھا دیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کوکا کولا کو آر سی کولا نے ٹکر دی کوکا کولا نے ڈبل سے زائد قیمت سے کر اسے خرید کر ضم کر لیا۔ پاکستان میں کاروں کی مارکیٹ پہ تین کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ گھٹیا ترین کوالٹی اور ہر سال لاکھوں روپوں میں بڑھتی قیمتیں۔ جو مقابلے میں آیا بھگا دیا گیا۔ شوگر کا اپنا مافیا رئیل سٹیٹ کا اپنا مافیا ہے پولٹری انڈسٹری فلور انڈسٹری کون سا ایسا شعبہ ہے جہاں سرمایہ داروں نے اپنا راج قائم نہ کر لیا ہو

اگر آپ حالات بدلنا چاہتے ہیں تو سوال اٹھائیں پوچھیں سیاستدان سے کہ یہ جو پیسہ لگا رہے ہو کہاں سے پورا کرو گے؟ پیرنٹ ٹیچر میٹنگ میں نجی سکولوں کے ناجائز ڈرامے بازیوں کے خلاف بولیں۔ رائیٹ تو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلوم لیں منصوبوں کی نگرانی کریں ٹھیکیداروں پہ نظر رکھیں سرکاری املاک کی حفاظت کریں اور سب سے اہم اپنے حق کے لیے باہر نکلنا سیکھیں۔ اگر کوئی آپ سے رشوت طلب کرے تو رشوت دینے کی بجائے عوام کو بتائیں احتجاج کریں میڈیا بلائیں رولا ڈالیں جب تک آپ خود کو نہیں بدلیں گے کچھ نہیں بدلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments