تحریک انصاف کی خوش قسمتی

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


حمزہ شہباز صاحب کو کئی دن لٹکا کے آخر ان کی تقریب حلف برداری کی گئی تو معلوم ہوا کہ عثمان بزدار صاحب جن کا استعفٰی بہت روز پہلے سامنے آیا تھا اب بھی وزیر اعلٰی ہیں کیونکہ استعفٰی خام تھا۔

تحریک انصاف کی حکومت مرکز میں بھی ختم ہوئی تو آخری وقت تک کرسی سے چپکے رہنے کی کوشش کی گئی۔ وہ کام کیسے مکمل کیا گیا، صدر علوی کیوں یکایک بیمار اور کیسے صحتیاب ہو کے حلف لینے سے منکر اور پھر کچھ وزرا سے حلف لینے پر آمادہ ہوئے، یہ کہانی اقتدار کی غلام گردشوں میں تو سرگوشیوں میں دہرائی جاتی رہے گی مگر عوام کے سامنے کبھی نہیں آئے گی۔

پنجاب میں بھی یہ روایت دہرائی جا رہی ہے۔ حالانکہ اب کھیل ختم ہو چکا ہے لیکن کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جن سے بیدار ہونے پر آنکھیں موند کے پڑے رہنے کو جی چاہتا ہے۔

اقتدار بھی ایک ایسا سہانا سپنا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت جا چکی ہے مگر وہ ابھی نفی کی کیفیت میں ہیں۔

یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ یہ بتانے کو اس وقت پورا پاکستان تجزیہ کار بنا ہوا ہے۔ ہر شخص کے پاس اندر کی خبر ہے اور ہر شخص کی خبر مصدقہ ہے۔ یہ اور بات کہ راوی ان کا ایک ہی ہے اور یہ وہی کٹنا راوی ہے، جس کی گردن پر پہلے بھی دروغ گوئی کے بہت سے الزام ہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے اور ایک مضبوط اپوزیشن کی طرح اپنا کردار نبھائے۔ لیکن جانے کس نے انھیں ایک انارکسٹ جماعت کا روپ دھارنے کا مشورہ دیا ہے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاسی بلوغت سے پہلے ہی اہم ذمہ داری سونپی گئی اور کسی بگڑے بچے کی طرح ان سے یہ کام نہ ہو پایا۔

جمہوریت چاہے ہائبرڈ ہو چاہے ہمارے ملک جیسی لنگڑی لولی، ایک وقت کے بعد دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مدد کرتی ہے، گود میں لے کر نہیں پھرتی، سو یہ کمپنی بھی نہیں چلی۔

دیہات میں اکثر مائیں لوٹھا کے لوٹھا بچوں کو گود میں اٹھائے پھرتی ہیں۔ ان لاڈلوں کو گود سے اتار دیا جائے تو زمین پہ لوٹ جاتے ہیں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کے ماں کو ہی مادر و خواہر کی گالیاں دیتے ہیں۔

ماں کھسیاتی بھی ہے، گھورتی بھی ہے لیکن ماں تو آخر ماں ہوتی ہے دل بچے میں ہی اٹکا رہتا ہے۔ چاہتی بھی ہے کہ سمجھائے تو لاڈلے کے مزید پسرنے سے ڈر کے خاموش ہو جاتی ہے۔

خان صاحب اور ان کے حامی ناراض ہیں، غصے میں ہیں۔ رلانے آئے تھے، یہی ان کا مینی فیسٹو تھا اور یہی ان کا نعرہ۔ رونے اور رلانے سے اگر زندگی چلتی تو ہم سب روتے ہی رہتے۔ مگر حکمرانوں کو ملک کا نظم ونسق بھی چلانا ہوتا ہے۔

اس وقت ان کو کوئی نہیں سمجھا سکتا نہ وہ سمجھنا چاہتے ہیں۔ جلسے کر کے مخالفین کو گالیاں دے کے، غدار کہہ کے، جہاز پھٹنے کی بد دعائیں دے کے، سوشل میڈیا پر کوس کوس کے انھوں نے نئی حکومت کو وہ وقت دے دیا جو بطور اپوزیشن انھیں بالکل نہیں دینا چاہیے تھا۔

پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی اضافے سے یہ حکومت کیسے نمٹتی اور دیگر اہداف کیسے پورے کرتی یہ ایک بڑا چیلنج تھا۔ مگر یہاں ضد میں اس قدر گرد اڑائی گئی کہ حکومت کو بڑے آرام سے ٹک جانے اور صورت حال کو سمجھنے کا وقت مل گیا۔

خان صاحب کو خدا نے بے مثال عوامی مقبولیت سے نوازا ہے ۔ لیکن پاکستان جیسے معاشرے کی تربیت کے لیے صرف عوامی مقبولیت ہی ضروری نہیں۔ اصل شے فہم و فراست اور تحمل ہے۔

ہر سیاسی جماعت کا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے جو اس کے لیڈر کی سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پچھلے کئی برس اور اب بھی دکھ کے ساتھ سنا کہ جب بھی کوئی عورت چاہے وہ کسی حیثیت میں ہو، کوئی رائے دے جو کہ گراں گزرے تو اسے فورا ‘رنڈی ‘ کہہ دیا جاتا ہے۔

مئی کے آخر میں خان صاحب نے لانگ مارچ کی کال دی ہے ۔ ان کا حق ہے لیکن اگر اس احتجاج کے دوران وہ انیس سو نوے میں ختم ہو جانے والی بائی پولر دنیا کی کہانی میں سے روس اور امریکہ کا باب سنا سنا کے تھک جائیں تو ایک بھلے کا کام بھی کرتے جائیں۔

اپنے حامیوں کو خواتین کا احترام ہی سکھا دیں۔ انتخابات کب ہوں گے؟ شیخ رشید صاحب کہتے ہیں بقرعید کے قریب ہوں گے لیکن انتخابات تک اگر تحریک انصاف کے لیڈر اسی طرح دیوار سے سر ٹکراتے رہے تو ان کی جماعت کے لیے کچھ خاص امید نظر نہیں آتی۔

موجودہ حکومت کے لیے مسائل بے شمار اور وقت بہت کم ہے۔ تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ اسے سنبھلنے کا، اپنی جماعت کو منظم کرنے کا، اپنی نظریاتی بنیادوں کو درست کرنے کا دوسرا موقع ملا ہے۔

اگر پارٹی کے قائد ستر اور اسی کی دہائی کے ناسٹلجیا سے نکل کے آج کے دور میں آئیں اور اقتدار حاصل کرنے اور اس کے بعد کچھ نہ کرنے کے یک نکاتی ایجنڈے سے بلند ہو کر سوچیں تو یہ جماعت کل کو واقعی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

مگر فی الحال عوام کا جوش، جذبہ اور حب الوطنی گالم گلوچ، کردار کشی اور بد زبانی کے گندے نالے میں غرق ہو رہے ہیں۔

پاکستان کا سیاسی درجہ حرارت دیکھیں تو پارہ کہیں کا کہیں پہنچا ہوا ہے۔ جذبات کا سمندر بے قابو اور زبانوں کو وہ سان لگی ہے کہ ان کی کاٹ سے دل آزاری کا بازار گرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments