پاکستان کی سیاست پر پڑتے پراسرار سائے


اب کچھ سیاسی اور صحافتی حلقوں، جن کی شناخت خود اپنی جگہ مشکوک ہے، کی طرف سے یہ بات پھیلائی جا رہی ہے، کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت، کو روس کے ساتھ سستی توانائی اور گندم خریدنے کی کوشش کی امریکہ کی طرف سے سزا دی گئی ہے، جبکہ یہ بات مکمل طور پر بے بنیاد اور سفید جھوٹ ہے۔ امریکی اپنے اصل خدمت گاروں کی جنہوں نے اس کے ایک اشارے پر مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے ستر سال کے موقف پر بھارتی منشاء کے مطابق امریکی حکم پر مفاہمت کر لی، اور اس کے بعد ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے بھارتی آئین میں دیے گئے ناقابل تنسیخ کہلائے جانے والے سپیشل سٹیٹس کا خاتمہ کر دیا، اور یہاں ہماری پارلیمنٹ میں وزیر اعظم صاحب قوم کو بھارت سے خوفزدہ کرنے کی کوشش میں بار بار فرماتے رہے کہ بھارت پلوامہ جیسا کوئی واقعہ خود ہی پلان کر کے اس بہانے آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پر حملہ کر دے گا، اس کے بعد اس معاملے میں امریکی ضمانت پر اکتفاء کر لیا گیا، دورہ امریکہ کے دوران صدر ٹرمپ کے ساتھ کی گئی مشترکہ پریس کانفرنس کس کو یاد نہیں جس میں امریکی صدر نے ارشاد فرمایا کہ ماضی کی حکومتیں ہمارے ساتھ ہمارے مرضی کے مطابق مکمل تعاون نہیں کرتی تھیں، لیکن موجودہ حکومت ہم سے مکمل تعاون کر رہی ہے، اور ہم اس تعاون سے پوری طرح سے مطمئن ہیں۔

اب بوقت ضرورت امریکی اپنے ساتھ ”مکمل تعاون“ کرنے والے عناصر کی پاکستان کے عوام کی سوچ اور تعصبات کو مدنظر نظر رکھتے ہوئے بالواسطہ یا انورٹڈ طریقے سے مدد کر رہے ہیں، جو بظاہر تو مخالفت یا غیر جانبداری دکھائی دیتی ہے، لیکن یہ بہت سوچی سمجھی پالیسی کے تحت درپردہ قسم کی حمایت ہوتی ہے، اور اب اس سرپرستی کے سائے اور شواہد واضح طور پر دکھائی دینے لگے ہیں۔ جس میں بظاہر اپنے پسندیدہ کردار کی مخالفت کی جاتی ہے، تاکہ عوام کے امریکہ مخالف جذبات کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے، اور رائے عامہ کو گمراہ کیا جا سکے، یہ اقدامات اندرونی طور پر ان کی اس اپنے پسندیدہ اور موافق کردار کے لیے حمایت ہوتی ہے۔

اگر یہ بات سچ ہے کہ روس سے معاہدوں کی پاداش میں یہ حکومت عدم اعتماد کے ذریعے معزول کروائی گئی، تو سامنے لایا جائے کہ یہ کون سا معاہدہ روس سے کر کے آئے تھے؟ درحقیقت کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ پہلے امریکی اشارے پر افغانستان میں عملی مدد کر کے طالبان کو وہاں کا قبضہ دلایا گیا، اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں امریکی کانگریس میں سامنے لائے گئے ایک منی بل کے مطابق قطر میں نہ صرف طالبان دفتر کا کرایہ اور خرچ امریکہ ادا کرتا رہا بلکہ اس کی طرف سے شنید ہے کہ ان کے عہدیداروں کو تنخواہیں تک دی جاتی رہیں، اور اس پر ایک خطیر رقم امریکہ کی طرف سے خرچ کی جاتی رہی جو تین ارب ڈالر سے بھی کچھ زیادہ بتائی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ امریکہ افغانستان سے اپنے انخلاء کے دوران جہاں روز مرہ استعمال کی ہر چیز ٹریفک سائن اور میزیں کرسیاں تک تباہ کر گیا وہیں طالبان کے لیے ستر ارب ڈالر سے زائد کا اسلحہ، ایمونیشن اور، فوجی گاڑیاں چھوڑ کر گیا، جو عرصہ دراز تک اس خطے میں امن تباہ کرنے اور امریکی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال ہوتا رہے گا۔ اسی قبضے کے دوام کو افغان عوام کے سامنے واضح کرنے کے لیے طالبان نے سب سے پہلے افغانستان کا الیکشن کمیشن تحلیل کیا یہ ایک علامتی پیغام تھا، اور خود کو جمہوریت کا سرپرست کہلانے والے امریکہ یا کسی اور مغربی ملک نے اس اقدام پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا، اور نہ ہی ہمارے ملک سے برادر افغان عوام کے اس بنیادی حق کی پامالی پر ان کے اس جمہوری حق کی حمایت میں یا احتجاجاً ایک لفظ بھی کہا گیا۔

اسی سلسلے میں سابق حکومت کی طرف سے امریکی اشارے پر امریکہ ہی کی زیر نگرانی اسلام آباد میں اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس منعقد کروائی گئی، جس میں امریکی حکم پر افغانستان میں مسلط کروائے گئے دہشت گردوں کے لیے اسلامی ممالک سے امداد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کانفرنس میں بھی امریکی نمائندے اور سی آئی اے والے خود موجود تھے۔ تاریخ میں پہلی بار بھارت کو افغانستان کے لیے زمینی راستہ بھی امریکی حکم پر اسی حکومت نے فراہم کیا، جس کو ماضی میں سیکورٹی رسک قرار دے کر اس زمینی رابطے کی اجازت نہیں دی جاتی رہی، اسی بات سے ہی اصل ہدایت کاروں کے اثر و رسوخ کا اندازہ ہوتا ہے۔

ماضی میں دیکھیں تو روس سے سب سے پہلا رابطہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا جب روس کی مدد سے پاکستان کی ترقی کی ضامن بہت بڑی سٹیل مل قائم کی گئی تھی، جس کا کردار پاکستان میں ترقی کرتی ہوئی صنعت اور دفاعی پیداوار میں بنیادی تھا، لیکن بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاء کی امریکہ کی طرف مرکب مراجعت نے پاک روس تعلقات کا دروازہ بند کر دیا، اس کے بعد روس سے باقاعدہ معاہدہ محترم آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں کیا، جب تیل اور گیس کی پائپ لائن بچھانے کا باقاعدہ معاہدہ کیا گیا، ایسا ہی ایک معاہدہ ایران کے ساتھ بھی کیا گیا، جو اس پی ٹی آئی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی ختم کر دیا، اسی طرح نواز شریف کے دور میں تاریخ میں پہلی بار روس اور پاکستان کے درمیان پاک فوج اور روس کی فوج نے بڑے پیمانے پر مشترکہ فوجی مشقیں کیں، اور پاک فوج کے لیے روس سے ہتھیار بھی حاصل کیے گئے۔

ان تعلقات پر بھارت کے اعتراض کو روس نے واضح الفاظ میں مسترد کر دیا۔ پی ٹی آئی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی یہ معاہدہ بھی عملی طور پر ختم کر دیا، سی پیک پر کام روک کر اس پر امریکی شہری کو بٹھا دیا گیا، اور سی پیک کے تمام معاہدوں کو امریکی مطالبے پر چین کے شدید اعتراض کے باوجود عالمی بینک کے سامنے رکھ دیا گیا دیا۔ پاکستان کا مالیاتی نظام عالمی اداروں کے حوالے کر دیا گیا، حتیٰ کہ سٹیٹ بینک پر عالمی ادارے کے ایک تنخواہ دار ملازم کو مقرر کر دیا گیا۔

برآمدات میں اضافے کے بہانے روپے کو ڈی ویلیو کر کے بیرونی قرضوں میں اربوں کا اضافہ اور عوام کو شدید مہنگائی کا شکار بنا دیا گیا۔ اس لیے انھیں کوئی عالمی لیڈر پوز کرنے کے بجائے ان کی جماعت کے کارکنان کو اپنے قائد کی واضح ہدایت پر محترمہ فرح گوگی گجر کی بے گناہی اور اس پر سے کیس اور تحقیقات ختم کروانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے، جو اتنی شدید بے گناہ ہیں، کہ اپنی وکالت پر ایک عالمی سربراہ اور سابق وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان نیازی کو مقرر کر لیا ہے، ان کے کارکنان کو چاہیے اس اہم ترین معاملے کا کچھ سوچیں۔

عوام اتنے بھی بے وقوف نہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں، کہ امریکہ نے ان کی ہی عملی مدد سے روس اور پاکستان کے رابطوں کو روکنے کے لیے افغانستان میں ایک رکاوٹ طالبان کی شکل میں انسٹال کر دی ہے، کہ روس اور پاکستان کا زمینی رابطہ نہ ہو سکے افغانستان پر قابض طالبان کا مختلف معاملات میں پاکستان کے ساتھ رویہ بھی چشم کشاء ہے۔ پاک افغان سرحد پر پاکستان کی طرف سے خطیر سرمائے سے نصب شدہ حفاظتی باڑھ اکھاڑنے، افغانستان کی حدود سے پاکستانی فورسز پر مسلسل خطرناک حملے کرنے، اور پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کی مدد، سرپرستی اور حمایت کا سلسلہ بھی تیز ہو چکا ہے، ایسے میں پی ٹی آئی کی طرف سے اداروں میں خطرناک تقسیم پیدا کرنے، خانہ جنگی برپا کرنے اور انارکی پیدا کرنے کے واضح اعلانات، اور عوام کو کھلے عام ان کے مخالف سیاست دانوں پر حملے کرنے پر اکسانا اسی خانہ جنگی، جس کی دھمکی اس پارٹی کی فاشسٹ قیادت بار بار دیتی ہے، کے آغاز کی کوشش ہے، اور موجودہ حکومت کو تعمیر نو کی اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے معاشرے اور عوام کے درمیان خلیج اور نفرت پیدا کرنے ان کو تقسیم کرنے کی ان مذموم اور خطرناک کوششوں پر نہ صرف کڑی نظر رکھنی چاہیے، بلکہ ان کے موثر اور قانونی طریقے سے سدباب کے لیے بھی فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں، اس کے ساتھ یہ بھی لازمی ضرورت ہے، کہ ہمارے محترم اداروں کو بدنام اور تقسیم کرنے کی کوششیں کرنے والوں کا بھی موثر اور فوری محاسبہ کیا جائے، چاہے وہ ماضی میں ان کے سرپرست اور مددگار ہی کیوں نہ ہوں، ملک کی سلامتی، اس کے عوام اور آئین و قانون سے زیادہ محترم اور کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments