نیفرولوجی یتیم ہوگئی


نیفرولوجی کسی کا نام نہیں، یہ امراض گردہ کی ان بیماریوں کی اسپیشیئلٹی ہے جسے امراض گردہ کے ماہر دواؤں سے بہتر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امراض گردہ کا وہ ماہر جو چاقو چھریاں چلاتا ہے اسے یورالوجسٹ کہتے ہیں۔ یہ وضاحت میں نے اس لئے کی ہے کہ پڑھنے والے جان سکیں نیفرولوجی کون ہے؟ کیا کرتی ہے؟ کہاں پائی جاتی ہے؟ اور کیوں یتیم ہو گئی ہے؟

اس ملک میں اب سے تقریباً پانچ دہائی قبل کوئی نیفرولوجی کا نام تک نہیں جانتا تھا۔ مختلف امراض کے ذیلی اثرات سے متاثرہ افراد کے گردوں کا علاج ایک عام فزیشن ہی کرتا تھا اور کیوں کہ علاج کی سہولیات بہت ہی محدود تھیں لہذا مکمل خرابی گردہ کے مریضوں کو آخر میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔

ستر کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں ایک ڈاکٹر نے پاکستان میں قدم رنجہ فرمایا کہ انھیں ان کے والد بزرگوار نے جناح ہسپتال میں ڈاکٹروں کی ضرورت کا اشتہار بھیجا تھا۔ جس کے جواب میں انھوں نے شکاگو کے ایک بڑے ہسپتال کی نوکری کو خیر باد کہا اور رخت سفر باندھنا شروع کر دیا تو ان کے پروفیسر نے انھیں احساس دلایا کہ وہ ”بہت بڑی غلطی کرنے جا رہے ہیں“ ۔ یہ بات انھیں بہت بری لگی جواب میں انھوں نے گرین کارڈ کے دو ٹکڑے کیے اور پروفیسر کو واپس کر دیے۔

گرین کارڈ کے دو ٹکڑے کرنے والی اس شخصیت کو دنیا ڈاکٹر پروفیسر سید علی جعفر نقوی کے نام سے جانتی ہے۔ اپنی تنک مزاجی کا یہ قصہ وہ سب کو ہنس ہنس کے سناتے اور خاص طور پر ان سب کو جو پاکستان سے بیزار اور دیار غیر میں رہنے کے خواب دیکھتے۔

اپنی زندگی کے مد و جزر کی کہانی سناتے ہوئے وہ بہت فخر سے بتاتے کہ قیام پاکستان کے بعد ابا کو جمشید کوارٹرز میں گھر ملا تھا اور وہیں رہتے ہوئے انھوں نے اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کی ہاؤس جاب کے بعد پہلی ملازمت کا آغاز بھی وہیں سے کیا۔ ان کی ابتدائی ملازمت ڈرگ روڈ میں واقع ایک سرکاری ڈسپنسری میں تھی ان کا کہنا تھا۔ ابا جس اسکول میں تدریس کا فرض انجام دیتے تھے وہ بھی وہیں تھا لہذا صبح سویرے ہم دونوں باپ بیٹے ٹہلتے ہوئے لسبیلہ سے بس پکڑتے، ڈرگ روڈ اترتے، ریلوے لائن کراس کرتے اور اپنی، اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے، اس بہانے ہم دونوں کی بہت اچھی واک بھی ہو جاتی تھی۔

یہ ہی نوکری کرتے، کرتے وہ مزید تعلیم کے لئے انگلینڈ چلے گئے۔ ابتدا میں انھوں نے نفسیات داں بننے کی کوشش کی کہ چند بہت اچھے دوست اسی شعبے میں زیر تربیت تھے۔ پھر اچانک ذہن بدلا اور نیفرولوجی کی طرف رخ کر لیا۔ شعبہ طب میں اس وقت نیفرولوجی کا نام خال، خال ہی سننے کو ملتا تھا۔ ڈاکٹر جعفر نقوی نے اپنا ایم ڈی نیفرولوجی مکمل کرنے کے بعد چند سال کام کیا اور پھر امریکہ چلے گئے۔ اس دوران ان کی خانہ آبادی ہوئی اور وہ باپ کے عہدے پر بھی فائز ہو چکے تھے۔

امریکہ میں اپنے قیام کے تذکرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کہتے سب کچھ بہت اچھا تھا لیکن پھر بھی ایک ادھورے پن کا احساس ہوتا تھا اسی لئے ابا نے جب مجھے جناح ہسپتال کی وکینسی کا بتایا تو مجھے کچھ سوچنا نہیں پڑا، میں نے ایک دم فیصلہ کیا اور اپنے پروفیسر کو مطلع کر دیا۔ مسکراتے ہوئے کہتے گرین کارڈ کے ٹکڑے اسی لئے کیے کہ کبھی پلٹنے کا خیال نہ آئے۔ بوقت واپسی ان کے پروفیسر نے انھیں دو عدد ڈائلیسز مشینوں کا تحفہ بھی دیا۔ اس وقت کی وہ مشین آج کے دور کی سلم سمارٹ کم از کم چھ مشینوں کے برابر کا احاطہ گھیرتی تھی۔

وطن واپسی پر ان کو ملازمت تو مل گئی لیکن اتنے بڑے جناح ہسپتال میں نہ تو ان کے بیٹھنے کا ٹھکانہ تھا نہ ہی مریضوں کے لئے کوئی جگہ مختص تھی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ستر کی دہائی تک جناح ہسپتال کے بیشتر وارڈ انگریزوں کی بنائی ہوئی بیر کس میں ہوتے تھے۔ ان بیرکس میں سے ایک خالی بیرک جو کہ انتہائی بوسیدگی کا شکار تھی اور جس کو زمین بوس کرنے کے پروگرام بن رہے تھے۔ ڈاکٹر نقوی نے اس وقت کے ڈائریکٹر جناح ہسپتال سے اس کو اپنی ذمہ داری پر لے لیا۔

جب بھی اس کا نقشہ بیان کرتے تو یہ ضرور کہتے کہ ”بھوت بنگلہ“ تھا۔ بیرک کے برآمدے کی صفائی ستھرائی کے بعد مستعار لی ہوئی میز کرسی پر بیٹھ کے مریضوں کی تشخیص کا کام شروع کر دیا۔ وہ بتاتے تھے ابتدائی چند ماہ بہت مشکل تھے لیکن پھر ان کے جوش، جذبے اور یقین کے آگے راہیں کھلتی چلی گئیں۔ مشہور زمانہ محکمہ پی ڈبلیو ڈی سے انھوں نے کس کس طرح بیرک کو انسانی استعمال کے قابل بنوایا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ بتانے کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ جناح ہسپتال کے نیفرولوجی وارڈ میں آج بھی اس گرائی جانے والی بیرک کی سیڑھیاں اور چھت قائم دائم ہیں۔

کہانی اصل یہ ہے کہ ڈاکٹر جعفر نقوی کا ایمان اس ایک بات پر بہت پختہ تھا کہ کمیونٹی یعنی لوگوں کو ساتھ ملا کر آگے بڑھنے کی صورت میں بڑے سے بڑا کام کیا جا سکتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، لوگ ملتے گئے، اچھے، برے، معصوم، کینہ پرور، جان دینے والے، مطلب پرست، محبت میں سرشار یوں ان کے ساتھ لوگوں کا قافلہ بنتا گیا۔ جس کا ثبوت ان کا 22 نمبر کا وہ نیفرولوجی وارڈ ہے جو جناح ہسپتال کا واحد وارڈ ہے جس میں آج سے 35 سال پہلے بھی ایکسرے مشین، الٹرا ساؤنڈ، آپریشن تھیٹر، آئی سی یو تھا اور آج بھی ہے۔

سرکاری ہسپتالوں کے عام رواج کے مطابق 22 نمبر وارڈ میں آنے والا مریض کبھی بھی ہسپتال کی مرکزی لیب، ایکسرے یا کسی اور ضرورت کے لئے ادھر ادھر نہیں پھرتا تھا۔ ان کے وارڈ میں کبھی زنگ آلود ٹوٹے پلنگ، بنا چادر کا بستر یا باتھ روم میں غلاظت نظر نہیں آتی تھی۔ صبح ساڑھے سات بجے وارڈ میں پہنچتے تو سب سے پہلے باتھ روم چیک کرتے پھر مریضوں کی فائلوں پر سرسری نظر ڈالتے کہ گزری رات کے اندراج مکمل ہیں یا نہیں۔ نیچے آتے تو اسٹاف کی حاضری دیکھتے اور فوراً ہی پوسٹ گریجویٹ کی کلاس شروع ہوجاتی کہ او پی ڈی کو بھی تو وقت پر شروع ہونا ہوتا تھا۔

جب تبدیلی گردہ کا پروگرام بنایا تو ٹشو ٹائپنگ سے لے کر، اسٹاف کی تربیت، ضروری آلات دوائیں غرض کہ ہر چیز کو کمیونٹی کی مدد سے پائے تکمیل کو پہنچایا۔ یہ ان ہی کا وضع کردہ اصول تھا کہ گردہ دینے والا خاندان کا فرد ہو گا کوئی مول تول نہیں ہو گا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ آج بھی کراچی واحد شہر ہے جہاں کاروبار گردہ نہیں ہوتا۔

ان کا قافلہ چلتا رہا، لوگوں کی محبتیں اور تعاون ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ تو انھوں نے ایک اور خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ ایک مکمل گردہ ہسپتال کا خواب، ایک ایسا ہسپتال جہاں امراض گردہ کے علاج کی تمام تر سہولیات ایک چھت کے نیچے مہیا ہوں۔ under the one roof ان ہی کا بنایا ہوا سلو گن تھا۔

ابتدا میں دوست احباب، جاننے والوں، ہم پیشہ، فارما انڈسٹری سے اس بارے میں تبادلہ خیال شروع کیا تو کچھ نے پذیرائی کی اور کچھ نے حوصلہ شکنی، لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے ساتھ ان کی گفت و شنید چلتی رہی۔ 80 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں وہ لوگوں کا ایک ایسا گروپ تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے جو دامے، درمے، سخنے ان کا ساتھ دینے کو تیار تھا۔

ابتدا میں جب وہ مختلف اداروں اور افراد کے گروپس میں اپنے brain child کو لے جاتے تھے تو شہر کے لوگ ہنستے تھے اور کہتے تھے آپ ساڑھے آٹھ کروڑ روپے جمع کرنے کی بات ایسے کرتے ہیں جیسے ساڑھے آٹھ سو روپے۔

پھر دیکھتی آنکھوں نے دیکھا اور سنتے کانوں نے سنا کہ اس شہر میں شروع ہونے والا یہ پروجیکٹ نہ صرف شہر کراچی کا بلکہ پورے پاکستان کا پہلا پروجیکٹ تھا جس کی بنیاد عوامی عطیات کے حصول پر رکھی گئی تھی۔ اور عطیات کے لئے اس شہر نے کیا نہ کیا عید کارڈ، سیزن کارڈ، فیشن شو، گانا بجانا، میراتھن، واک اے کاز غرض کہ ہر وہ کام کیا گیا جس میں کمیونٹی بھرپور انداز میں حصہ لے سکے اور عطیات جمع ہو سکیں۔

ایک وقت ایسا تھا کہ امراض گردہ کے لئے بننے والا ہسپتال talk of the town تھا۔ شہر کے لوگ اس کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار فخریہ کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں لاہور سے کینسر ہسپتال کے لئے کام کرنے افراد کا ایک گروپ ڈاکٹر جعفر نقوی سے ملاقات کے لئے آیا تھا اور بار بار ایک ہی بات پوچھتا تھا کہ آپ نے اتنے پیسے کیسے جمع کر لئے؟ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا ”اگر آپ لوگ لاہور شہر سے سو ڈیڑھ سو پاگل جمع کر سکتے ہیں جیسے میں نے کراچی میں جمع کیے ہیں تو سب کچھ کر سکتے ہیں۔ پھر مسکراتے ہوئے میری طرف اشارہ کیا دیکھیں ایک پاگل یہ بیٹھی ہے۔ ہر سال کئی لاکھ تو یہ اکیلی جمع کر لیتی ہی۔

ان دنوں اس ملک کے بہت سارے اداروں اور لوگوں کو یہ جاننے کا شوق تھا کہ ڈاکٹر جعفر نقوی کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے جسے سنگھا کر وہ لوگوں کو رام کر لیتے ہیں۔ گیدڑ سنگھی کا تو پتہ نہیں لیکن اپنے کام سے جنونی محبت، کمٹمنٹ اور پیسے پیسے کا حساب یقیناً وہ کرشمہ تھا جس نے اس خواب کو نہ صرف شرمندۂ تعبیر کیا اس ملک کے لوگوں کے لئے ایک مثال بنا کے کھڑا کر دیا۔ ہسپتال کی تعمیر میں دو روپے سے لے کر لاکھوں روپے کے عطیات جمع ہوئے۔

لوگوں کے لئے یہ بات تعجب خیز ہوگی کہ ہسپتال کی تعمیر میں ایدھی مرحوم اور ان کی مرحومہ بیگم نے بھی تین لاکھ کا عطیہ دیا تھا

آج پیچھے مڑ کر دیکھوں تو یادوں کی ایک بارات ہے۔ جھلمل، جھلمل کرتی سینکڑوں شکلیں میرے ذہن کی اسکرین پر ابھر رہی ہیں ڈوب رہی ہیں۔ ان سے وابستہ ہزاروں قصے اور واقعات ہیں۔ سبق آموز، آنکھیں کھولنے والے، دل بڑھانے اور گھٹانے والے، ہسپتال بنا اور خوب بنا، دور دور سے لوگ دیکھنے آتے۔

اور تو اور نواز شریف بھی اپنے دوسرے وزارتی دور میں اس بات کا کامل یقین کر لینے کے بعد یہاں کوئی وی آئی پی کلچر نہیں، نہ یہاں حکومتی رعب دبدبہ چلتا ہے، نہ ہی یہ کسی کو بلاتے ہیں، جس کو آنا ہے آ جائے ایک شام خاموشی سے چلے آئے اور بولتی بند کے مصداق واپس چلے گئے۔ بے نظیر کو بھی ایک شام ایسی ہی خاموشی کے ساتھ جسٹس دراب پٹیل کی مزاج پرسی کے لیے آنا جانا کرنا پڑا تھا۔

ڈاکٹر جعفر نقوی کو کام کرنے کا جنون تھا۔ اس سر اٹھا کر ابھرتے ہوئے ہسپتال کے ساتھ ساتھ انھوں نے نہ صرف جناح ہسپتال کے 22 نمبر وارڈ کی مرمت کروائی۔ ایک پورا یورولوجی وارڈ بمع تھیٹر بھی بنوایا، اس سب کے بعد پورے ملک میں ایسی بھیڑ چال چلی کہ درجنوں امراض گردہ کے ہسپتال بن گئے، پہلے سے قائم ہسپتالوں میں گردہ وارڈ کھل گئے، سینکڑوں ڈائلیسز یونٹ کھل گئے اور کئی سو نیفرولوجسٹ تیار ہو گئے۔ پاکستان میں تبدیلی گردہ کا پہلا آپریشن جناح ہسپتال میں ڈاکٹر نقوی کی نگرانی میں ہوا پھر سینکڑوں آپریشن ملک کے مختلف ہسپتالوں میں ہو گئے۔ قطع نظر اس کے کہاں صحیح ہوا کہاں غلط ہوا۔ گردے کی تبدیلی کا آپریشن اور اس سے جڑے لا تعداد مسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے مخدوم شہاب الدین کے ذریعے اسمبلی میں بل پیش کروایا جو مختلف حکومتی ادوار میں رگ مرول بننے کے بعد بلا آخر کسی نہ کسی طور منظور ہو ہی گیا۔

نیفرولوجی کے بارے میں اتنا کچھ ہوا کہ آخر کار اس اسپیشلٹی کو اس کی شناخت دینی پڑی یوں نیفرولوجی میں ایم ڈی اور ایف سی پی ایس ہونے لگا۔

ڈاکٹر جعفر نقوی کو ریسرچ اور اکیڈمک کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس ایک کام کے لئے وہ ہر ادارے اور شخص کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہو جاتے۔ امریکہ سے واپسی کے بعد انھوں نے سوسائٹی آف نیفرولوجی اور یورو لوجی بنائی بعد ازاں پاکستان سوسائٹی آف نیفرولوجی کا قیام عمل میں لائے۔ پاکستان کڈنی فاؤنڈیشن یہ سب ان کے ہی برین چائلڈ ہیں۔

انٹر نیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی کی ایگزیکٹو کمیٹی میں گئے تو پاکستان کے چھوٹے بڑے ہر نیفرولوجی یونٹ کے ڈاکٹر کو اس کا ممبر بنایا۔ اس کی ساؤتھ ایشیا کمیٹی کو سنبھالا تو خطے کے ڈاکٹروں کی بہتری کے لئے ہر ملک سے دو، دو ڈاکٹروں کی ترقی یافتہ مما لک میں تعلیم تربیت کا پروگرام شروع کیا۔ یہ ہی نہیں انٹر نیشنل سوسائٹی سے منظور کروایا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں ہونے والی کانفرنسوں میں وہ ترقی یافتہ ملکوں سے دو ڈاکٹروں کو اسپانسر کر کے بھیجے گی۔ ساؤتھ ایشیا کے ممالک کی بھی ایک سوسائٹی بنوائی اور اس کے صدر بھی بنے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ ایک سوسائٹی ایران اور گلف کے ممالک کے ساتھ مل کر بھی بنے اس سلسلے میں بہت ساری کاغذی کاروائیاں ہوئیں لیکن کچھ قانونی اور دیگر مسائل کی وجہ سے کام آگے نہ بڑھ سکا۔

پاکستان میں ایشیا پیسفک سوسائٹی اور دیگر کئی سوسائٹیوں کے ساتھ مل کے متعدد بار کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔

پاکستان کڈنی فاؤنڈیشن کے زیر انتظام انھوں نے صوبہ سندھ کی ہر ڈسٹر کٹ میں نہ صرف کیمپ کیے ، لیکچر اور تربیتی پروگراموں کا انعقاد بھی کیا۔

ان کی سر پرستی میں پہلی دفعہ پاکستان میں ڈائلیسس رجسٹری کے کام کا آغاز ہوا اور بنا تعطل کے چودہ سال تک اس کے شمارے چھپتے رہے۔

بیسویں صدی کے آغاز پر ڈاکٹر عطا الرحمن کی کاوشوں سے کراچی یونیورسٹی نے بھی ایک قطعہ اراضی امراض گردہ پر تحقیق و تالیف کے لئے دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کی شمولیت اور عطیات سے عمارت تو کھڑی کرلی لیکن پیرانہ سالی اور صحت کے متعدد مسائل کے سبب اسے اس کے مقام تک نہ لا سکے۔

پاکستان سوسائٹی آف نیفرولوجی کے مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد اب گزشتہ کئی سالوں سے سوسائٹی کے پیٹرن تھے۔ اور سوسائٹی کے پروگراموں میں انھیں فادر آف نیفرولوجی کہہ کے بلایا جانے لگا تھا۔ جب، جب جونئیر ڈاکٹرز کے کسی فعل پر دل برداشتہ ہوتے تو میں انھیں یہ کہہ کے آپ فادر آف نیفرولوجی ہیں اور اولاد تو کیسی بھی ہو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ماحول کا تناؤ کم کر دیتی، میرے جواب پر مسکراتے ہوئے کہتے اولادیں نا خلف ہوتی جا رہی ہیں۔

اولادوں کے نا خلف ہونے پر مجھے وہ ان گنت چہرے ایک دم سے یاد آ گئے جو کبھی ان کے گرد مکھیوں کی طرح بھن بھناتے رہتے تھے اور ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ قدموں کی خاک آنکھوں میں لگا لیں۔ وقت کی دھول نے ان کے چہرے چھپا تو لئے ہیں لیکن خیال تو آتا ہے نا، اس شہر کے کتنے لوگ صرف اس لئے آگے پیچھے پھرتے تھے کہ ڈاکٹر نقوی انھیں دو لائن کی سند لکھ دیں۔ وقت بڑا ظالم ہے۔

اکتوبر 2019 میں صحت کے متعدد مسائل کے باوجود سوسائٹی آف نیفرولوجی کی سالانہ کانفرنس میں لاہور گئے اور ہر پروگرام میں پوری دل جمعی کے ساتھ شریک ہوئے، بہت خوش واپس آئے اور بار بار کہتے ”وقار اور اس کی ٹیم نے بہت محنت کی، میں یہ ہی چاہتا ہوں کہ یہ لوگ سوسائٹی کو own کریں اور آگے کی طرف بڑھیں“ ۔ ہمیشہ کی طرح الیکشن ہوئے، اگلی میٹنگ کے لئے کوئٹہ کا انتخاب ہوا۔ یہ بھی ڈاکٹر نقوی ہی کا فلسفہ تھا کہ سب کو موقعہ ملنا چاہیے۔ اس سال مارچ میں میٹنگ کا انعقاد ہوا تو کوئٹہ جانے سے پہلے اور واپسی میں متعدد ڈاکٹرز کے فون آئے یہ کہنے کے لئے ”جب سے سوسائٹی بنی ہے یہ پہلا موقع تھا کہ ڈاکٹر نقوی اور تم میٹنگ میں نہیں تھے“ ۔

زندگی کے سفر میں گو کہ یہ ایک معمول کا حصہ کہ اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں۔

میں سوچ رہی ہوں کہ کیا اب ایسا ہو گا کہ اصولی طور پر کوئی ڈاکٹر اساتذہ اور صحافیوں سے فیس نہیں لے گا، سرکاری ہسپتال میں آئے مریض کو پرائیویٹ کلینک میں نہیں دیکھے گا، وفات پا جانے والے مریض کی فیس واپس کردے گا، اپنے نام کے آگے اس ”تمغہ امتیاز“ کا اندراج نہیں کرے گا جو طب کے شعبے میں ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے دیا تھا۔

ان کا فلسفہ تھا کہ وہ مجھے ملا ہے، دنیا کو بتانے کے لئے نہیں۔

ڈاکٹر صاحب! آپ نے مادی دنیا سے تو آنکھیں موند لی ہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے، آپ کا شمار تو ہمیشہ ان لوگوں میں ہو گا جو سمندر گہرے ہوتے ہیں، ڈوبنے والی جانوں کو تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں، چٹانوں کا سینہ، مثال ابر رواں، اونچے درختوں کا سایہ، دل خرچ کیا لوگوں پر، چراغوں کی صورت راہوں میں اجالا کرتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ اب کوئی آپ جیسا نہ آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments