مہ کامل


ڈاکٹر جمیل الرحمان صاحب، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کے استاد، محقق، نقاد اور سماجی شخصیت ہیں۔ وہ تحصیل جام پور ضلع راجن پور کی مردم خیز مٹی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کرنے کے بعد بیچلر کی ڈگری ڈیرہ غازی خان میں رہ کر مکمل کی۔ تین مضامیں میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں، ایم۔ اے اردو اور ایم۔ اے پولیٹیکل سائنس بہاؤ الدین زکریا یونی ورسٹی ملتان سے جبکہ ایم۔ اے ایجوکیشن، ایجوکیشن یونی ورسٹی لاہور سے حاصل کی۔

ایم اے کرنے کے بعد انہوں نے اردو میں ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد سے حاصل کی، لاء کی ڈگری ادھوری چھوڑ دی جس پر ہمیشہ افسردہ رہتے ہیں۔ 2002 سے 2008 تک راجن پور کے دور افتادہ ہائی سکول بنگلہ اچھا میں گریڈ سولہ پر ملازمت کا آغاز کیا، 2008 سے 2016 تک گریڈ سترہ پر ہیڈماسٹر کے عہدے پر گورنمنٹ ہائی سکول کوٹ طاہر، اللہ آباد اور طلائی والا بطور سربراہ ادارہ کام کرتے رہے۔ 2016 سے 15 دسمبر 2021 تک پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور میں سینئر ماہر مضمون اور چند عرصہ ڈائریکٹر مسودات کے طور پر کام کیا۔ دسمبر 2021 سے غازی یونی ورسٹی، شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں

ملازمت کے حصول اور اس میں ڈھکی چھپی مشکلات کے بارے ایک دفعہ ان سے دوران گفتگو دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا

”پنجاب پبلک سروس کمیشن سے دو بار سلیکشن ہوئی۔ گریڈ 18 یعنی پی سی ٹی بی کے لیے پنجاب بھر کی ایک اسامی پر منتخب ہوا جو اس بات کی نفی ہے کہ جنوبی پنجاب والوں کو کون منتخب کرتا ہے، اس تصور کو ختم کرنا ہو گا، کام یابی خیرات میں یا رونے دھونے سے نہیں ملتی۔ چار شادیوں تو نہ کر سکا چار ملازمتیں کر چھوڑیں“

متاع سخن، مطالعہ شعر، تشریحی لغت (اردو سائنس بورڈ ) سمیت کئی علمی ادبی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔

پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور میں رہتے ہوئے بطور سینئر ماہر مضمون اردو اور HOD Languages نسل نو کی تعلیم و تربیت، نصاب سازی اور کتابوں کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا، پی سی ٹی بی کی انتظامیہ آج بھی ان کے کام کو یاد کرتی ہے۔ گویا جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ محبت فاتح عالم ہے، ہمیں علم سے زیادہ عمل اور کردار کی ضرورت ہے، طلبہ پر محنت کرنے اور انہیں سنوارنے کو ہزار کتابیں لکھنے سے افضل جانتے ہیں اس لئے بھی پہلے سے بیان شدہ مضامین پر وقت خرچ کرنے سے کتراتے ہیں۔

میں نے یہی بات انہیں کہی کہ اپنے پسماندگان کے لیے اپنا کچھ علمی خزانہ بھی تو چھوڑتے جائیں تو انہوں نے کہا کہ میرا علمی خزانہ آپ جیسے میرے شاگرد ہیں جن سے علم کی بقاء بھی ممکن ہے۔ کتابیں لکھنا فراغت کا کام ہے اور میں یہی وقت دوستوں اور قریبی عزیز و اقارب کو دینا چاہتا ہوں۔ روایتی زندگی گزارنا اور اپنے لئے جیتے چلے جانے کو میں سفاکیت گردانتا ہوں۔

ڈاکٹر صاحب سے میرا پہلا تعارف بلکہ تصادم

نوک جھونک کی صورت ہوا، دراصل وہ صحت تلفظ کا خیال رکھنے کی تلقین کرتے تھے اور میں ان دنوں تازہ تازہ قدامت پسندی کو روگ قرار دے چکا تھا۔ ان کے نزدیک زبان کی اصل برقرار رہنا ناگزیر تھا اور میرے نزدیک زبان کا جاذب ہونا ضروری۔ دو تین دن تو اسی بحث میں گزر گئے اور میں جارحانہ انداز بھی اختیار کر گیا، امید تھی کہ اب بلاک ہوئے سمجھو لیکن دو دن سکون سے گزرے اور تیسرے دن مجھے بقیہ پوسٹس سے ان کے بارے معلوم ہوا، پھر پوسٹس کے ذریعے ہی ایک دوسرے کی شخصیت سے آشنائی ملی پھر مجھے محسوس ہوا کہ یہاں تو وہ مقام ہے کہ ”لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام“

انہیں لگتا تھا کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ عطا کردہ صلاحیتوں کو مکمل طور پر استعمال نہیں کرپائے یا کرنا نہیں چاہتے۔ بہ ہرحال کئی عرصہ تو ایک دوسرے کو جاننے میں لگے اور پھر لاہور کی بخاری مارکیٹ وہ مبارک جگہ تھی جہاں ان سے بالمشافہ ملاقات ہو پائی، انہیں بھی محسوس ہوا ہو گا کہ ایک لڑکا اتنا بے جگری سے ملنے چلا آیا اور میرا بولنے کا انداز اور بحث کرنے کا انداز ایسا ہی رہا کہ گویا کئی برسوں کی شناسائی ہو، پھر تو صبح شام ہی ان کے پاس موجود ہوتا تھا، روز اسکول پڑھا کر لوٹتا تو پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ، گلبرگ، لاہور میں ان کے پاس سے ہو کر ضرور جاتا تھا، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ یہاں میٹرو بدل کر پھر اتنا پیدل سفر کرنے کی کیا ضرورت ہوتی ہے جب کہ ہم شام کو بخاری مارکیٹ میں مل سکتے ہیں۔

اور مزے کی بات یہ تھی کہ میں اپنے لیکچرز چھوڑ کر بھی ان کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا، مجھے کامل یقین ہو چلا تھا کہ میرا فارغ وقت بھی میرے تخلیہ کے لیے مفید رہے گا۔ انہوں نے سب سے پہلے تو مجھے اپنی ذات پر اعتماد کرنے کا جواز دیا تھا، ہر جگہ اور ہر موقعے پر میری صلاحیتوں کو مبالغہ آرائی کی حد تک بیان کیا اور مجھے حوصلہ دیا کہ میں سب کر سکتا ہوں۔ جب میں اپنی ذات کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا اس وقت انہوں نے کہیں سے ایک عدد ساحل ڈھونڈ کر مجھے دیا۔ انہوں نے میرے اندر کچھ کرنے کی جوت لگادی۔ مجھے اعزاز دینے کے کئی ایک واقعات ہیں جن کو میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ میں انہیں ضرور یہاں درج کرنا چاہوں گا کیوں کہ یہ ساری زندگی میری رہنمائی کرتے رہیں گے۔

ایک دفعہ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ریسٹورنٹ (Savor Foods ) پہ گیا ہوا تھا اور کھانا کھا رہے تھے کہ بیرا (ویٹر ) آیا اور اس نے مجھے کہا کہ آپ کرسی آگے کر لیجیے، سر خاموش بیٹھے رہے اور جب ہم نے کھانا کھا لیا اور ویٹر نے بل لیا اور بقایا واپس دینے آیا تو بل کے علاوہ اضافی اجرت (ٹپ ) کا مطالبہ کیا،

سر نے بڑی جان دار اور رعب دار آواز میں کہا کہ آپ نے ہمارے افسر کو کرسی آگے کرنے کو کہا اور ہم آپ کو اضافی معاوضہ دے دیں؟ الٹا ہم تو آپ کی شکایت کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ سر کے انداز سے مجھے لگا کہ جیسے میں ابھی بھی افسر ہوں۔ ایک اور دفعہ ہم باہر گئے ہوئے تھے کہ ایک اور عزیز استاذ صاحب نے شکایتی انداز میں کہا کہ ساحل میاں تو پڑھتے ہی نہیں اور ہم نو دس بجے بھی انہیں بلائیں تو خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ میں اب تاویل پیش کرنے لگا کہ سر میں صبح صبح اٹھتا ہوں اس لئے جلدی سو جاتا ہوں، ڈاکٹر صاحب نے بیچ میں مداخلت کر کے کہا ”رکیں رکیں سر میں آپ کو بتاتا ہوں، اپنا ساحل جس لیول پہ سوچتا ہے اسے کتابیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ بے فکر رہیں اس حوالے سے ”

اسی طرح ڈاکٹر صاحب کی اپنی کتاب ”مطالعۂ شعر“ کی جب پروف ریڈنگ کا وقت آیا تو پہلے ظہیر کاشر بھائی نے پروف ریڈنگ کرلی تو ڈاکٹر صاحب نے ایک نظر خود دیکھ کے کتاب مجھے تھما دی کہ اب فائنل ٹچ ساحل میاں دیں گے اور اگر کوئی غلطی یا کوتاہی ہوئی تو اس کے ذمہ دار بھی یہی ہوں گے۔ میں نے بھرپور اعتماد کے ساتھ پروف ریڈنگ کا کام مکمل کیا باوجودیکہ ایک ڈاکٹر اور دوسرے ایم فل سکالر کی تصنیف شدہ کتاب اور ایک بار پروف ریڈنگ سے گزری ہوئی کتاب کو ایک ماسٹرز ان انگلش کا طالب علم حتمی رائے دینے والا تھا۔

اس کے علاوہ کئی ایک واقعات ایسے تھے جن میں انہوں نے مکمل اپنائیت دی، ایک دفعہ میں ان کے دفتر میں بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا کہ کچھ ہائی پروفائل لوگ آ گئے، ان کے لیے کرسی کم پڑ گئی تو مجھے ایک شخص نے اٹھنے کا اشارہ کیا ہی تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے جلدی سے درشت لہجے میں کہا ”بیٹھو ساحل! یہاں ہی بیٹھو“ اور باہر سے ایک اور کرسی منگوا لی۔ یہ رویہ دیکھ کر ان میں سے ایک شخص پوچھ ہی بیٹھا کہ یہ برخوردار آپ کے صاحبزادے (بیٹے ) ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا ”جی بیٹوں سے بڑھ کر ہیں“ میں کئی عرصے سے گھر نہیں آیا تھا اور دیار غیر میں رہ رہا تھا، ان کا اس طرح کہنا میری آنکھیں نم کر گیا۔

میں تین سال اپنی یونی ورسٹی میں گزار کر بھی کبھی شعبہ اردو میں نہیں گیا لیکن جب میں لاہور میں ہی تھا اور میں نے ایک رات ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ لگتا ہے اب مجھے اپنے شہر کی طرف لوٹ جانا پڑے گا اور شاید میں ڈگری کے اختتام پر لاہور میں تیاری کے لیے آنے پر ہی آپ سے مل پاؤں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا قسمت ساتھ لے چلے گی اور خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ میرے یونی ورسٹی پہنچنے سے پہلے ان کی تقرری اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ہو گئی اور انہوں نے جوائن بھی میرے جانے سے پہلے کر لیا، میں پہلے دن یونی ورسٹی گیا تو شعبہ اردو میں جا دھمکا، وہ اٹھ کر گلے ملے، میں نے پھر اردو ڈیپارٹمنٹ کو ”شعبہ ثانی“ بنا لیا، تمام اساتذہ کو پتا چل گیا کہ اگر یہ اپنے شعبے میں نہیں تو اردو میں ہی ہو گا یا بہت دور چلا گیا تو رجسٹرار آفس میں موجود ہو گا۔

ان کے ساتھ پھر ڈیرہ غازی خان میں ہی شامیں گزرنے لگیں، ہم نے پولیس لائنز والی سڑک کو ڈیرہ غازی خان کی مال روڈ کا نام دیا اور ہر شام اس کے نام کردی، غازی کالونی سے ڈیرہ غازی خان کی فوڈ سٹریٹ اور پھر نیشنل ٹی اسٹال، کبھی کبھی ریلوے پلیٹ فارم ہماری جائے پناہ قرار پائے۔ میں چوں کہ گھر مہینوں بعد آنے کا عادی ہوں جب کہ ڈاکٹر صاحب ہر ہفتے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے حامی ہیں اس لئے جمعہ اور ہفتہ کی شام ملاقات نہیں ہو پاتی اور اتوار کی شام گھر سے لوٹتے ہی ان کی کال آجاتی ہے یا میں ان کا منتظر ہوتا ہوں اور اتوار کی شام دو راتوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ اگر بناء بتائے میں ادھر ادھر نکل جاؤں تو ان کا سرزنش بھرا انداز مجھے لاپرواہی سے بچا لیتا ہے جیسا کہ کل پرسوں میں جلدی میں گھر نکل آیا اور انہیں مطلع نہ کر سکا تو شام کو ان کی کال آ گئی

”میاں! ہمیں بھی ساری دنیا میں شمار کر لیا، اگر سب سے خفا رہو گے تو ہم سے بھی رہو گے؟

اسی طرح مجھے یاد ہے 21 جولائی 2021 کا دن جب عیدالاضحیٰ تھی اور میں اتنا بیزار تھا کہ ان کے اصرار کرنے پر بھی گھر نہ آ سکا، سارے دفاتر اور ساری عمارتیں بند تھیں تو ان کے ہی دوست کے فلیٹ پر رہنے کا بندوبست تو ہو گیا لیکن عید والے دن میں نے افسردہ سی پوسٹ لگا دی، حالاں کہ وہ قربانی کے جانور ذبح کرنے اور مصروفیت کا وقت تھا لیکن ڈاکٹر صاحب کی کال آ گئی اور کہنے لگے

”ساحل میاں! بڑی غلطی کردی جو تمہیں دیار غیر میں اکیلا چھوڑ آیا، اچھا تھا کہ تمہیں اپنے ساتھ اپنے گھر ہی لے آتا لیکن یہ سب کرنے کے لیے تو نہیں چھوڑ آیا تھا، جاؤ گھومو پھرو اور لاہور دیکھو“

وہ لمحہ جب میرے بھائی اور بابا کے بھی شام کو میسج آئے اور میرا پتا کیا گیا، ایسی صورت حال میں ان کا یوں شفقت سے پیش آنا مجھے مدتوں یاد رہے گا۔ اب یہ صورت حال یہ بن چکی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے مکمل حوالہ بن چکے ہیں (چھوٹا منہ بڑی بات، میں تو نہیں لیکن ڈاکٹر صاحب میرا حوالہ ضرور ہیں ) ۔ مجھے اس شناخت پر خوشی ہے کیوں کہ میں نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو مکمل جانچ کر ہی ان کو اپنا آئیڈیل بنایا تھا، سب سے پہلے ان کے عقائد اور ان کا خدا کی ذات پر کامل یقین وہ عنصر تھا جس کی وجہ سے میں نے انہیں ایک قابل پیروی شخصیت مانا، دوسرا ان کا اپنے والد صاحب کے ساتھ گہرا رشتہ جس کو دیکھ کر میں ان کے والد صاحب پر رشک کرتا رہا ہوں اور ڈاکٹر صاحب پر بھی کہ انہیں ایک گمنام مگر عظیم ہستی باپ کے روپ میں ملیں۔

ان کی اپنی امی جان سے نسبت بھی میرے لئے قابل رشک رہی ہے، وہ اپنی والدہ سے عشق کرتے ہیں جس کو ابھی تک ایک بچے کی طرح پوری صداقت سے نبھا رہے ہیں۔ ایک دن غازی یونی ورسٹی میں تقرری کے بعد ان کے دوست سوال کرنے لگے کہ آپ نے زیادہ ٹھاٹھ باٹ والی ملازمت کی بجائے یہاں پسماندہ شہر کو کیوں منتخب کیا تو انہوں نے جواب دیا

”جب میری سیلیکشن غازی میں ہوئی تو منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا اگر ہم آپ کو روک لیں تو؟ میرا جواب تھا : سر میں اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں جو یہاں رہ کر نہیں کر سکتا۔ ایم ڈی کی آنکھوں میں میں نے نمی اور حیرت دیکھی، انہوں نے فوراً کہا جمیل صاحب ہم آپ کو نہیں روکنے لگے۔ دیکھیے غازی میں کتنا عرصہ ٹک پاتا ہوں، کچھ پتا نہیں، جب تک سانسیں ہیں میں نے سفر در سفر کیے چلے جانا ہے۔“

میں بھی اپنی والدہ سے بہت قریب رہا ہوں اس وجہ میں ان کے احساسات کو پوری طرح سمجھ پایا، ان کا اپنے بھائیوں سے ادب و تعظیم کا رشتہ جس کے توسط سے آج تک خلوص و پیار کی عمارت مستحکم ٹھہری ہوئی ہے ان کا اپنی بہنوں سے رشتہ جتنا مضبوط ہے وہ دیدنی ہے، اپنی شریک حیات کو انہوں نے جو توقیر بخشی ہے اور جس طرح عائلی زندگی میں اعتدال برقرار رکھا ہے وہ میرے لئے تو قابل رشک ہی رہا ہے۔ اپنے شاگردوں کو وہ قیمتی موتی گردانتے ہیں جنہیں بس مالا میں پرونے کی ضرورت ہے، میں نے اپنی زندگی میں پہلے انیس گریڈ کے اسسٹنٹ پروفیسر کو دیکھا ہے جو Student Centered Education کے حامی ہیں۔

ان کے انہی نظریات کی وجہ سے ان کے زیر سایہ تمام طلباء و طالبات بھی انہیں اپنا پسندیدہ استاد مانتے ہیں۔ میں ان کے کئی سابقہ طلباء سے ملا جنہیں میرے اور ڈاکٹر صاحب کے تعلق کا علم نہیں تھا لیکن پھر بھی ان کی محبت، عقیدت کی حد تک تھی۔ وہ خود جس انداز سے اپنے استاد محترم ساحر صاحب اور دیگر اساتذہ کی تعریف و توصیف کرتے ہیں اور انہیں اپنی کامیابی کی وجہ قرار دیتے ہیں، اپنے محسنوں کی ہر ہر بات کو یاد کر کے ان پر رشک کرتے رہتے ہیں اور ان سے منسلک چیزوں کی تعظیم کرتے ہیں اس کے بعد ہم بھی رشک سے دیکھتے رہتے ہیں کہ کاش ہم بھی اپنے استاد محترم کی اسی طرح تعظیم کرنے کے اہل ہو پائیں، ہمیں بھی یہ سعادت نصیب ہو۔

ان کی سب سے بڑی خوبی خودداری، توکل اور غناء ہے۔ میں نے ان کے اندر جتنا عملی طور پر خودداری دیکھی ہے شاید اپنی آنکھوں سے کسی میں دیکھی ہو، ایک خوددار انسان کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ جاہ و حشمت سے مرعوب نہیں ہوتا، وہ اگر مرعوب ہوتا بھی ہے تو ایسی خصوصیات سے جو اصل حالت میں کسی کو ودیعت کی گئی ہوں۔ میں نے انہیں کسی امیر یا کسی اتھارٹی کے لیے احتراماً یا رسماً اٹھتے نہیں دیکھا جب کہ وہ اپنے غریب طلباء یا غریب الدیار لوگوں سے ہمیشہ اٹھ کر ہی ملے۔ جب وہ پنجاب ٹیکسٹ بک اینڈ کریکولم بورڈ میں ڈائریکٹر مسودات کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے تھے تب ان کے پاس آسائشیں حاصل کرنے کے اتنے مواقع تھے لیکن ان کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اپنے دفتر میں

اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ”سرائیکی جھوک“ کا بورڈ لگا رکھا تھا جو ان کی اپنے وسیب اور اپنی مٹی سے محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا، اپنے وسیب سے آئے ہوئے ہر شخص کو ہمیشہ عزت سے نوازا اور اس وسیب کا کوئی شخص بھی ان کے اخلاق کا معترف ہوئے بنا نہیں رہا۔ اپنے علاقے کی پسماندگی کا دکھ ان کے اندر کچوکے لگاتا ہے۔ وہ اس پر کڑھنے اور افسردہ رہنے کی بجائے اس پر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ادبی حلقوں میں دفتری مصروفیات کے سبب کم رہی۔

ان کے نزدیک ادبی مناقشت بڑی خطرناک چیز ہے۔ سرمایہ داروں اور استحصالی گروہ کے ہمیشہ خلاف کام کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اعتدال کا دامن بھی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ میں نے انہیں کبھی لغو بولتے ہوئے نہیں دیکھا حالاں کہ بڑے بڑے ادباء لوگ نجی محفلوں میں اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے جانے دیتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ سلجھے ہوئے انداز میں ہی بات کی۔ اس سب سے بڑھ کر وہ علم نفسیات حاصل بھی کر چکے ہیں اور سائیکالوجی کا عملی علم بھی رکھتے ہیں اس لئے ہر شخص کو اس کے مطلوبہ معیار کے مطابق عزت اور وقار دیتے ہیں۔

خود سفید پوش اور باوقار زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ اگرچہ پیسہ بناء حساب کتاب کے خرچ ہو جائے لیکن عزت نفس پر کبھی حرف نہ آئے، انہیں کبھی اپنی عزت نفس پر سمجھوتہ کرتے نہیں دیکھا، نہ صرف اپنی بلکہ ان کے مطابق کسی شخص کی عزت نفس مجروح ہونا دنیا کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ جس طرح انہیں ان کی والدہ صاحبہ کی طرف سے شروع سے شہ خرچ کہا جاتا رہا ہے اس طرح میرے چند قریبی لوگ بھی شہ خرچ ہی کہتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ میرے پاس اگر پیسے ہوں تو منٹوں میں خرچ کرتا ہوں۔

اگرچہ اس کے علاوہ ان کی کئی ایسے کمالات ہیں جن کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے لیکن میں یہ سوچ کر لکھنے سے کترا رہا ہوں کہ کہیں اسے مبالغہ آرائی تصور نہ کیا جانے لگے کیوں کہ ان سے ملاقات نہ رکھنے والے احباب یہ خیال کر سکتے ہیں کہ اتنی خوبیوں کا مرقع کوئی شخصیت کیسے ہو سکتی ہے۔

قصہ مختصر کہ ان کے اپنے مطابق
Man is a style himself

(آدمی بذات خود ایک اسلوب ہے ) تو میں ان کی عملی زندگی سے جتنے تصورات سیکھ سکتا ہوں وہ سیکھتا رہتا ہوں، اگرچہ سب کا اظہار ممکن نہیں لیکن وہ میری شخصیت میں راسخ ہوتے چلے جا رہے ہیں، ابھی جن چیزوں کو میں اپنی کم عمری کی وجہ سے سر انجام نہیں دے پا رہا وہ میری زندگی کے کسی حصے میں کھل کر سامنے آ جائیں گی۔ ہماری دعا ہے کہ ان کا یہ اسلوب بہت سے لوگوں تک پہنچے اور بہت سے لوگ ان سے مستفید ہو سکیں (آمین ثم آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments