حضرت علی (رض) کی آخری وصیت معاشرے کے قیام نو کی نوید ہے


حضرت علی رضی اللہ عنہ تاریخ کی انتہائی دلچسپ شخصیت ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ دور نبی ﷺ کی سب سے بہادر ترین شخصیت بھی تھے۔ خاندان عبدالمطلب کو اسلام کی دعوت دی تو کم سنی کے باوجود اپنے بلند پایہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نبی کریم کا دست و بازو بننے کا اعلان کیا۔ ہجرت کی رات نبی کریم ﷺ کے بستر پہ سوئے جس پہ کفار حملے کی غرض سے گھات لگائے ہوئے تھے۔ غزوات النبیﷺ میں اسلام کو سب سے زیادہ فائدہ آپ کی تلوار ذوالفقار نے ہی پہنچایا۔ ہر جنگ میں نبی کریم ﷺ مبارزت کے لیے آپ کو بھیجتے اور آپ نے ہمیشہ اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔

غزوہ الاحزاب میں عرب کے مشہور سورما عمروبن عبدوود کی پیدا کردہ سخت ترین صورت حال میں جب وہ خندق عبور کرنے کے بعد خیمہ نبی ﷺ کے سامنے نیزہ گاڑ کر مبارزت طلب کرنے لگا۔ اس کی دہشت سے لوگ کانپتے تھے۔ اس نے سپاہ اسلام کا للکار کر جنت کا مذاق بناتے ہوئے کہا کہ

’‘ اے جنت کے دعویدارو کہاں ہو؟ کیا کوئی ہے جسے میں جنت کو روانہ کر دوں یا وہ مجھے دوزخ میں بھیج دے ”اور اپنی بات کی تکرار کرتا رہا۔

حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’‘ کوئی ہے جو اس کے شر کو ہمارے سروں سے دور کرے؟ ”۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم نے آمادگی ظاہر کی۔ اس وقت حضور اقدس ﷺ نے ان کو اجازت نہ دی اور دوسری اور پھر تیسری دفعہ پوچھا۔ تینوں دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم ہی تیار ہوئے۔

حضور اکرم ﷺ نے انہیں اپنا عمامہ اور تلوار عطا کی اور فرمایا کہ ”کل ایمان کل کفر کے مقابلے پر جا رہا ہے ’‘ ۔

ایک سخت جنگ جس کے دوران گرد و غبار چھا گیا تھا نعرہ تکبیر کی آواز آئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ”خدا کی قسم علی نے اسے قتل کر دیا ہے“ ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’روز خندق علی کی ضرب تمام جن و انس کی عبادت سے افضل ہے‘ ۔

بدر و حنین ہو یا احد کی جنگ یا پھر کئی روز سے خیبر کا ناقابل تسخیر مرہب آپ نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی کو یقینی بنایا۔ آپ 21 رمضان المبارک سن 40 ہجری کو مسجد کوفہ میں عبدالرحمن ابن ملجم نامی ایک خارجی کے دوران نماز حملے میں زخمی ہونے کے بعد شہید ہو گئے۔ آپ کو وفات سے پہلے کچھ وقت مل گیا جسے آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرنے میں صرف کیا۔ جان کنی کے اس عالم میں بھی آپ نے جو باتیں ارشاد فرمائیں، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ یہاں ہم طبری سے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں :

آپ نے حسن اور حسین رضی اللہ ع کو بلوایا اور ان سے فرمایا: ”میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ دنیا کے پیچھے ہرگز نہ لگنا خواہ دنیا تم سے بغاوت ہی کیوں نہ کر دے۔ جو چیز تمہیں نہ ملے، اس پر رونا نہیں۔ ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں سے شفقت کرنا، پریشان کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا اور کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت گھبرانا۔

(تیسرے بیٹے ) محمد بن حنفیہ سے فرمایا: ”میں نے تمہارے بھائیوں کو جو نصیحت کی، تم نے بھی سن کر محفوظ کر لی؟ میں تمہیں بھی وہی نصیحت کرتا ہوں جو تمہارے بھائیوں کو کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وصیت کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں (حسن و حسین) کی عزت و توقیر کرنا اور ان دونوں کے اس اہم حق کو ملحوظ رکھنا جو تمہارے ذمہ ہے۔ ان کی بات ماننا اور ان کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرنا۔“

پھر حسن و حسین سے فرمایا: ”میں تم دونوں کو بھی محمد کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارا بھائی اور تمہارے باپ کا بیٹا ہے۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہارا باپ اس سے محبت کرتا ہے۔“

پھر خاص طور پر حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”میرے بیٹے! تمہارے لیے میری وصیت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، نماز وقت پر ادا کرنا، زکٰوۃ کو اس کے مصرف میں خرچ کرنا، وضو کو اچھی طرح کرنا کہ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی او ر زکٰوۃ نہ دینے والے کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ ہر وقت گناہوں کی مغفرت طلب کرنا، غصہ پینا، صلہ رحمی کرنا، جاہلوں سے بردباری سے کام لینا، دین میں تفقہ حاصل کرنا، ہر کام میں ثابت قدمی دکھانا، قرآن پر لازمی عمل کرتے رہنا، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا، نیکی کی تلقین اور برائیوں سے اجتناب کی دعوت دیتے رہنا اور خود بھی برائیوں سے بچتے رہنا۔“

جب وفات کا وقت آیا تو پھر یہ (قرآنی آیات پر مشتمل) وصیت فرمائی: ”بسم اللہ الرحمن الرحیم! یہ وہ وصیت ہے جو علی بن ابی طالب نے کی ہے۔ وہ اس بات کی وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب فرما دیں، خواہ یہ بات مشرکین کو ناگوار گزرے۔ یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبردار لوگوں میں سے ہوں۔

حسن بیٹا! میں تمہیں اور اپنی تمام اولاد اور اپنے تمام گھر والوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارا رب ہے۔ اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ صرف اسلام ہی کی حالت میں جان دینا۔ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ میں نے ابو القاسم ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ایک دوسرے باہمی تعلق رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے۔ اپنے رشتے داروں سے اچھا سلوک کرنا، اس سے اللہ تم پر حساب نرم فرما دے گا۔ یتیموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنا، ان پر یہ نوبت نہ آنے دینا کہ وہ اپنی زبان سے تم سے مانگیں اور نہ ہی تمہاری موجودگی میں پریشانی میں مبتلا ہوں۔ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اللہ سے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بھی ڈرنا کیونکہ تمہارے نبی ﷺ کی نصیحت ہے۔

اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور بھی بہت سی نصیحتیں فرمائیں جن میں خاص کر نماز، زکوۃ، جہاد، امر بالمعروف کی نصیحت تھی۔ معاشرے کے کمزور طبقات یعنی غرباء و مساکین اور غلاموں کے بارے میں خاص وصیت فرمائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا:

تمہارے موجود ہوتے ہوئے کسی پر ظلم نہ کیا جائے۔ اپنے نبی کے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ پشت دکھانے، رشتوں کو توڑنے اور تفرقہ سے بچتے رہنا۔ نیکی اور تقوی کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور نافرمانی اور سرکشی میں کسی کی مدد نہ کرنا۔ اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ اللہ تعالی تمہاری، تمہارے اہل خاندان کی حفاظت کرے جیسے اس نے تمہارے نبی کریم ﷺ کی حفاظت فرمائی تھی۔ میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتا ہوں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیتیں ایسی ہیں کہ پڑھنے والے کا دل بھر آتا ہے۔ ان الفاظ پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں آپ کی رائے کیا تھی؟ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خاص کر اس بات کی تلقین فرمائی کہ صحابہ کرام کو ساتھ ملایا جائے، ان سے تفرقہ نہ پیدا کیا جائے اور انہی کے ساتھ رہا جائے خواہ اس کے لیے انہیں کسی بھی قسم کی قربانی دینا پڑے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت حسن نے یہی کیا اور قربانی کی ایک ایسی تاریخ رقم کی، جس پر ملت اسلامیہ قیامت تک فخر کرتی رہے گی۔

اپنے قاتل کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا وصیت فرمائی، اسے بھی پڑھتے چلیے :

بنو عبدالمطلب! کہیں تم میری وجہ سے مسلمانوں کے خون نہ بہا دینا، اور یہ کہتے نہ پھرنا کہ امیر المومنین قتل کیے گئے ہیں (تو ہم ان کا انتقام لے رہے ہیں۔ ) سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا۔ حسن! اگر میں اس کے وار سے مر جاؤں تو قاتل کو بھی ایک ہی وار میں ختم کرنا کیونکہ ایک وار کے بدلے میں ایک وار ہی ہونا چاہیے۔ اس کی لاش کو بگاڑنا نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ تم لوگ مثلہ سے بچو خواہ وہ باؤلے کتے ہی کا کیوں نہ ہو۔

نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم امت کی مشترکہ مقدس ہستی ہیں جن کے شرف اور مقام و مرتبہ پہ کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ آپ کی شہادت کے دن امت آپ کی اپنے بیٹوں کو کی گئی وصیت پہ عمل کرنے کا عہد کرے تو یقیناً معاشرہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments