پاکستانی پنجابی اور اردو فلموں کے نامور ہدایتکار نسیم حیدر شاہ


 

پاکستان فلمی دنیا کے نامور گیت نگار طفیلؔ ہوشیار پوری صاحب کے صاحب زادے عرفان باری سے میری دوستی ہے۔ جب بھی لاہور آتا ہوں ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ ان کے وساطت سے فلمی موضوعات پر لکھنے والے ظفر اقبال سے شناسائی ہوئی۔ رواں سال کے آغاز میں اتفاق سے لاہور میں تھا جب موصوف کا فون آیا کہ باری اسٹوڈیو میں آ جاؤں جہاں وہ میری تفصیلی ملاقات ہدایت کار نسیم حیدر شاہ سے کرائیں گے۔ نسیم صاحب سے میری کچھ ملاقاتیں ایور نیو اسٹوڈیو میں ہدایت کار جناب داؤد بٹ (م) کے ساتھ ہو چکی تھیں۔ اس طرح یکم جنوری 2022 کو باری فلم اسٹوڈیوز میں نسیم صاحب کے دفتر میں ایک نشست ہوئی۔ اس کی کچھ باتیں آپ کی نذر ہیں :

فلمی دنیا میں آمد:

” فلمی دنیا میں آمد کا کیا پس منظر ہے؟“

” میرے والد سید حیدر شاہ فلم ڈائریکٹر تھے۔ فلمی دنیا میں آنے کی شروعات کچھ یوں ہیں کہ میں اور مجھ سے بڑے بھائی سلیم حیدر کو شوٹنگ دیکھنے کا شوق تھا۔ کبھی گاڑی کھانا لینے آتی تو حیدر چوہدری صاحب بھی گھر آ جاتے اور ہم ضد کر کے ان کے ساتھ اسٹوڈیو چلے جاتے۔ یہ والد صاحب کے معاون تھے۔ سیٹ پر اسلم پرویز، علا الدین، میڈم صبیحہ وغیرہ کو کام کرتے دیکھتے۔ مجھے لگتا کہ فلم ڈائریکٹر ہی سب کچھ ہے۔ ڈائریکٹر خاموش کہتا ہے تو سناٹا چھا جاتا ہے۔

لہٰذا میں نے سوچا کہ میں بھی بڑا ہو کر یہ کام کیوں نہ کروں؟ میرا ایک ہم جماعت نامور فلمساز، ہدایتکار اور گیت نگار سیف الدین سیفؔ صاحب کا بیٹا تھا۔ سیفؔ صاحب کی فلم کی شوٹنگ میں مجھے اسٹوڈیو لے جاتا۔ میرا یہ شوق بڑھتا چلا گیا۔ اسکول میں ڈرامے ہوتے تو مجھے کہا جاتا کہ ڈرامے کی ہدایات دوں۔ میٹرک کے بعد میں نے والد صاحب سے کہا کہ میں یہ کام سیکھنا چاہتا ہوں لیکن سکھانے والا خود اچھا ڈائریکٹر ہو جیسے حیدر چوہدری صاحب ( جو اس وقت کامیاب ڈائریکٹر بن چکے تھے ) ۔ یہ آپ کے لائق شاگرد ہیں اور ان کی فلمیں بھی ہٹ ہو رہی ہیں۔ والد صاحب نے کہا گریجویشن کے بعد تم اس میدان میں جا سکتے ہو۔ میں نے کہا کہ آپ بے فکر رہیں میں وہ بھی کر لوں گا اور ان سے وعدہ کر لیا۔ والد صاحب نے حیدر چوہدری صاحب سے ملوایا اور اس طرح میری شروعات ہوئیں ”۔

” میری پہلی باقاعدہ فلم“ روٹی ” ( 1968 ) ہے جہاں سے مجھے صحیح معنوں میں کام کا پتا چلا۔ مجھے میری ذمہ داری

’ کلیپ‘ سے سونپی گئی۔ پھر ’کنٹی نیوٹی بک‘ ۔ حیدر صاحب نے میری اچھی راہ نمائی کی۔ یہ فلم سپر ہٹ ہوئی۔ میں نے بھی اپنا چھوٹا سا ٹائٹل دیکھا اور خوش ہوا۔ اس کے بعد ”حمیدا وارداتی“ ( 1968 ) شروع ہوئی جس میں حیدر چوہدری صاحب نے مجھے چیف اسسٹنٹ بنا دیا ”۔ واضح ہو کہ سنسر کے اراکین نے بعض وجوہات کی بنا پر اس کے نام میں شامل ’وارداتیا‘ ہٹا کر صرف“ حمیدا ”کے نام سے نمائش کا سرٹیفیکیٹ دیا۔“ اس طرح میں اپنی دوسری فلم میں ہی معاون اعلیٰ ہو گیا۔ پھر میں نے والد سے کیا گیا وعدہ بھی پورا کیا۔ اس کے بعد سات سال حیدر چوہدری صاحب کے ساتھ کام کیا۔ ان کے ساتھ میں نے تقریباً 21 فلمیں کیں ”۔

” مزاج میں حیدر چوہدری صاحب کو آپ نے کیسا پایا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” وہ مزاج کے کچھ سخت تو تھے لیکن میرے ساتھ بہت اچھے تھے۔ ان کو فلم کے تمام شعبوں میں قدرت حاصل تھی“ ۔

” آپ کے دیگر بھائیوں میں کیا یہ شوق نہیں تھا؟“

” ہم چھ بھائی ہیں۔ تھے تو سب آرٹ لائن کے۔ میرے بڑے بھائی کینیڈا میں اٹامک انرجی کے شعبے میں ڈیزائنر ہیں۔ ان سے چھوٹی ہمشیرہ ہیں پھر ایک بھائی کو لکھنے کا شوق ہے جو ایک اچھی جگہ افسر بھی ہیں۔ انہوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ پھر میں ہوں۔ پھر شبیر حیدر شاہ مجھ سے چھوٹا تھا جس کا چند سال پہلے انتقال ہو گیا۔ وہ بڑا اچھا فلم کیمرا مین تھا۔ اس نے 50 کے لگ بھگ پشتو فلمیں کی ہیں۔ ہمارے ہاں کے نامور ہدایت کار الطاف حسین اور اقبال کشمیری صاحبان کے ساتھ فلمیں کی ہیں۔ شبیر نے میرے ساتھ بھی تین چار فلمیں کیں۔ پشتو فلموں کے فلمساز شیر اکرم اور میرا یہ بھائی مری/ کوہالہ سے کام ختم کرنے کے بعد واپس آ رہے تھے کہ گاڑی الٹ گئی اور اس کا انتقال ہو گیا“ ۔

” آپ کے والد صاحب کام، گھر کے معاملات اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں توازن کیسے قائم رکھتے تھے؟“ ۔

” تعلیم کے معاملات ہماری والدہ نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے۔ طبیعت کے لحاظ سے والد صاحب ہمارے ساتھ دوستوں کی طرح سے تھے۔ چھٹی کے دن سب گھر والے اکٹھے ہو کر کھیلتے اور وقت گزارتے تھے۔ گو کہ میں اپنے بہن بھائیوں میں درمیانے نمبر پر ہوں لیکن اس کے باوجود ان کا لاڈلا اور والد صاحب کے بہت قریب تھا“ ۔

” ڈائریکٹر کی حیثیت سے پہلی فلم ملنے کا ماجرا سنائیے! “ ۔

” کہانی اس طرح ہے کہ فلم“ خوشیا ” ( 1973 ) تکمیل کے آخری مراحل میں تھی جب ایک پارٹی آئی اور مجھے اپنے دفتر بلوایا اور فلم کی پیشکش کی۔ انہوں نے اپنی فلم کا نام بھی رکھا ہوا تھا“ بندے دا پتر ”۔ مجھے کہا کہ اداکار منور ظریف کا ٹائٹل رول ہو گا اور کچھ ٹوکن پیسے مجھے دیے۔ میں نے کہا کہ ایسے نہیں۔ آپ رات کو اسٹوڈیو آ جائیں حیدر چوہدری صاحب کی فلمیں سیٹ پر ہیں جو میں کروا رہا ہوں۔ وہ میرے استاد بھی ہیں ان سے پوچھنا ضروری ہے۔

وہ لوگ رات کو اسٹوڈیو آ گئے۔ استاد صاحب نے کہا کہ ایک بات ہے کہ اس ( میرا ) کا یہ پہلا کام ہو گا لہٰذا بتائیں کہ آپ کتنی دیر میں فلم بنا سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہماری طرف سے یہ مہینہ دو مہینوں میں ختم کر لے۔ اس پر حیدر چوہدری صاحب نے مٹھائی منگوا کر سب کو کھلائی اور مجھے ایڈوانس دیا گیا۔ اسی دوران منور ظریف بھی آ گیا، اسے بتایا گیا کہ اس فلم میں اس کا ٹائٹل رول ہے تو وہ بڑا خوش ہوا۔ ایک مہینے میں کاغذی تیاری ہو گئی۔ پھر اگلے مہینے فلم شروع کر دی۔ یوں ڈیڑھ دو مہینے میں فلم مکمل ہو گئی۔ اللہ نے عزت رکھ لی اور میری پہلی فلم ”بندے دا پتر“ ( 1974 ) بہت اچھی گئی ”۔

” جب آپ فلمی دنیا میں آئے تو اپنے استاد حیدر چوہدری صاحب کے ساتھ ’مقابلہ‘ کیسا رہا؟“ ۔

” وہ میرے ڈائریکٹر بننے پر بہت خوش تھے۔ ان کا اپنا اسٹائل تھا۔ وہ ایکشن فلمیں بھی بناتے تھے۔ جب کہ میں نے ٹائٹل کے لئے منور کا انتخاب اس لئے کیا کہ سب اپنے اپنے حساب سے چل رہے ہیں تو میں اپنی پہچان کیوں نہ بناؤں؟ منور سے مفاہمت اچھی ہو گئی تھی اس لئے میں نے کامیڈی میں زیادہ کام کیا“ ۔

” اپنی بنائی ہوئی فلموں میں کون کون سی اچھی لگتی ہیں؟“ ۔

” وہ“ بندے دا پتر ” ( 1974 ) ،“ جانو کپتی ” ( 1976 ) ،“ بابل ویر ” ( 1987 ) ہیں۔ فلم“ جانو کپتی ”جوبلی ہفتے میں چل رہی تھی جب منور ظریف کا انتقال ہو گیا جن کا اس فلم میں ٹائٹل رول تھا“ ۔

منور ظریف:

منور ظریف کے بارے میں نسیم حیدر شاہ نے بتایا: ”اس نے میری کئی ایک فلموں میں کام کیا جیسے :“ بندے دا پتر ” ( 1974 ) ،“ ہیرا پھمن ” ( 1975 ) ،“ رجو ” ( 1975 ) ،“ گڈی ” ( 1975 ) ،“ کل کل میر ا نا ” ( 1976 ) ،“ جانو کپتی ” ( 1976 ) ،“ بابل ویر ” ( 1987 ) وغیرہ۔

” منور ظریف کے انتقال کے بعد آپ کی زیر تکمیل فلموں کا کیا ہوا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” اس وقت میری پانچ فلمیں سیٹ پر تھیں جن میں وہ کام کر رہا تھا۔ ایک فلم“ رونق میلہ ”تو خاصی بن بھی گئی تھی۔ خیر! وہ سب رک گئیں“ ۔

” منور ظریف کو آپ نے کیسا پایا؟“ ۔

” وہ بہت بڑا اور اچھا آرٹسٹ تھا! پاکستان کے ساتھ بھارت میں بھی فلمی کامیڈی میں اس کا بہت بڑا مقام ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے مکالموں کی وجہ سے بچوں، خواتین اور مردوں میں یکساں مقبول تھا۔ اس نے ہمیشہ اپنے کام کے ساتھ انصاف کیا۔ آرٹسٹ تو تھا ہی بہت اچھا لیکن انسان بھی بہت اچھا تھا!“ ۔

” آپ نے اتنی بڑی بات کر دی! کوئی مثال دیجئے“ ۔

” ایک تو وہ کسی سے جھگڑتا نہیں تھا دوسرے یہ کہ وہ طلباء کی ماہانہ بنیاد پر امداد کرتا تھا، خصوصاً کالج کے طلباء! میں نے ایسا ہوتا خود دیکھا ہے۔ اس نے خرچا اٹھا کر کچھ شادیاں بھی کروائیں۔ بیواؤں کی امداد الگ۔ اس میں قطعاً کوئی دکھاوا نہیں تھا۔ یہ سب کام وہ خاموشی اور بغیر تشہیر کے کرتا تھا“ ۔

سب سے کم عمر فلم ڈائریکٹر:

” کیا یہ بات صحیح ہے کہ اپنے ہم عصروں میں آپ سب سے کم عمر فلم ڈائرکٹر تھے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” جی! یہ آپ نے ٹھیک کہا کہ جب میری پہلی فلم“ بندے دا پتر ”لگی تب میری عمر 22 سال تھی اور یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ میں پاکستان میں سب سے چھوٹی عمر میں بننے والا ڈائریکٹر ہوں۔ میرے متعلق اس وقت کے اخبارات میں بھی آیا۔

” کیا کبھی آپ پر یہ سوچ غالب آئی کہ بہت ہو گیا۔ اب اس فلم کی دنیا سے نکلو!“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” جی ہاں! ایسا منور کے انتقال پر ہوا۔ منور کے ساتھ ابھی میرے کچھ بہت اچھے منصوبے ( فلمیں ) تھے۔ وہ زور دار جھٹکا مجھے لگا۔ اور میں جذباتی طور پر پریشان ہو گیا“ ۔

” منور کے بعد اس کا کوئی نعم البدل ملا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” فلموں میں کامیڈین کام تو کر رہے تھے جیسے رنگیلا، علی اعجاز وغیرہ لیکن منور کے پائے کا کوئی بھی نہیں تھا“ ۔

” ماضی قریب میں آپ کی کون سی نئی فلم نمائش کی گئی؟“ ۔

” وہ“ جنون عشق ”ہے جو جون 2018 میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ یہ ایور نیو فلم اسٹوڈیو میں بنی جس کے فلمساز اصغر علی تھے۔ میں نے ان کے ساتھ پہلے بھی دو فلمیں بنائی تھیں۔ فلم“ جندھڑی ” ( سرائیکی) اور“ لفنگا ” ( 2014 ) جس کا ٹائٹل رول افتخار ٹھاکر نے ادا کیا“ ۔

پتر منور ظریف دا:

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا : ”فلم“ پتر منور ظریف دا ” ( 1993 ) میں منور ظریف کا بیٹا فیصل ٹائٹل رول میں تھا۔ عوام میں مذکورہ فلم کی پذیرائی مایوس کن رہی۔ البتہ فلمساز کو ریلیز پر فائدہ ہوا۔ فیصل منور ساری عمر باہر رہا۔ اصل میں فیصل کو اس میدان کی تربیت نہیں تھی۔ میرے حساب سے فلم میں ٹائٹل رول دے کر اس سے جلدبازی میں کام کروایا گیا۔ بہتر ہوتا اگر اسے کچھ اور وقت دیتے۔ وہ باصلاحیت تو تھا لیکن خود کہتا تھا کہ مجھے پنجابی زبان کا مسئلہ ہوتا ہے“ ۔

ہمارے سینماؤں میں بھارتی فلمیں :

” کیا ماضی قریب میں ہمارے سینماؤں میں بھارتی فلموں کی یلغار ہماری فلم انڈسٹری میں بگاڑ کا سبب نہیں؟“

” جی ہے! ماضی میں ایک دو ادارے بھارتی فلمیں نمائش کرتے تھے۔ زیادہ تر سنیما ان ہی کے زیر اثر تھے۔ پھر کچھ سنیما ان کی ملکیت میں بھی تھے۔ وہ فلموں کا کام اپنی مرضی سے کرتے تھے۔ جو فلمیں اچھی ہوتیں وہ چلتی تھیں۔ کراچی کی بنی ہوئی فلمیں بھی یہاں اچھی گئیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ جو فلم اچھی نہیں ہو گی وہ نہیں چلے گی۔ سینماؤں میں بھارتی فلموں کا زور ہوا۔ ہمارے قوانین میں کوئی لچک تھی جس کی وجہ سے بھارتی فلمیں یہاں نمائش کے لئے پیش ہوتی رہیں“ ۔

” جی ہاں! اسلم ڈار صاحب بھی زندگی کے آخری سانس تک اس سلسلے میں عدالتوں میں قانونی جنگ لڑتے رہے“ ۔ میں نے کہا۔

” بے شک! ہم بھی وہاں جاتے رہے ہیں۔ کافی مسائل بھی پیش آئے۔ سینماؤں والے شاید لفٹ ہی نہیں کراتے تھے۔ اس کی وجہ سے لوگ پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے“ ۔

” اب کیا صورت حال ہے؟“ ۔

” اب تو بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر پابندی ہے لیکن ہمارا فلمساز ڈر گیا ہے۔ فلمسازی کے خرچے اور آرٹسٹوں کے ریٹ بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ بہر حال اب بھی ہلکی پھلکی سرگرمی ہوتی رہتی ہے۔ ایک دو فلمساز آ جاتے ہیں“ ۔

” سنیما ٹوٹ کر پلاٹ میں بدل گئے، کہیں پلازے بن گئے کچھ کو تھیٹر بنا دیا گیا۔ جو 35 ایم ایم پروجیکٹر والے سنگل اسکرین سنیما رہ گئے ہیں کیا ان کی تجدید ہو گی؟“ ۔

” وہ نئی ٹیکنالوجی کی جانب جا رہے ہیں۔ مثلاً لاہور میں گلستان سنیما، شبستان، پرنس وغیرہ نے پروجیکشن روم میں جدید مشینری لگوا لی ہے۔ لیکن سنی پلیکس سنیما باقاعدہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ہیں۔ عام فلم وہاں چل بھی نہیں سکتی!“ ۔

کیا واقعی بیڑا غرق ہو گیا:

” ایک عام تاثر ہے کہ جناب بیڑا غرق ہو گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ فاتحہ پڑھ لو! کیا یہ بات صحیح ہے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” دیکھیں! دنیا میں شو بز کا کام کبھی ختم نہیں ہوتا اور نہ ہو گا۔ بیرونی ممالک میں بھی بڑے واقعات ہوئے، بڑا اتار چڑھاؤ آیا۔ ہمارے ملک میں کچھ حالات ایسے ہو گئے کچھ حکومتیں ایسی آئیں پھر آپس کے جھگڑے ختم نہیں ہوتے جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پھر رہی سہی کسر کرونا نے نکال دی۔ ہماری انڈسٹری کو سنبھلنے میں وقت تو لگے گا! میں نا امید بالکل بھی نہیں۔ پہلے فلم والوں میں بہت اتفاق تھا۔ آپس میں میل جول اور موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں۔ میں بھی ایسی محفلوں میں شرکت کرتا رہا ہوں مگر اب نہ وہ سننے والے رہے نہ وہ باہم میل ملاپ!“ ۔

” سینئیر اداکاروں میں نیلو بیگم نے اپنے دوسرے فلمی دور میں میری فلم“ رجو ” ( 1975 ) میں ٹائٹل رول کیا۔ اس میں انہوں نے بڑی محنت کی۔ پھر“ ہیرا پھمن ”اور“ کل کل میرا نا ”میں بھی کام کیا“ ۔

” نئی فلم پالیسی کیا کبھی بنے گی بھی یا ہوائی چرچے ہی رہیں گے؟“

” جو حکومت آئی یہ ہی کہا گیا کہ نئی قومی فلم پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ ابھی تک کسی حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا!“ ۔

حیدر چوہدری:

” آپ حیدر چوہدری کے ساتھ ہر قدم پر ساتھ رہے ہیں کچھ ان کے بارے میں بتائیے“ ۔

” وہ ایک مکمل ڈائریکٹر تھے جو بڑی محنت کر کے اس مقام تک پہنچے۔ انہوں نے مجھے اپنے کچھ واقعات سنائے کہ شروع میں ان کے ساتھ کچھ آرٹسٹ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے۔ جب میں ڈائریکٹر بنا تو وہ سیدھے ہو گئے۔ میری فلمیں اچھی گئیں تو وہ بھی میرے ساتھ کام کرنے کی خواہش کرنے لگے۔ وہ کسی بڑے سے بڑے آرٹسٹ کے پیچھے سائن کروانے نہیں گئے۔ یہ تو میں نے بھی دیکھا کہ یوسف خان، سلطان راہی، انجمن وغیرہ ان کے دفتر میں آ کر معاہدے پر دستخط کرتے تھے۔ ہاں البتہ کوئی مجبوری ہو تو آرٹسٹ کے گھر چلے بھی جاتے تھے۔ کام کے دوران سخت مزاج تھے۔ غلطی برداشت نہیں کرتے تھے۔ ان کے گردے کا آپریشن تھا اور میری فلم“ خونی

شعلے ”کے آخری مناظر ہو رہے تھے۔ سیٹ پر سلطان راہی، ندیم، انجمن، بابر وغیرہ کا کام ہو رہا تھا ورنہ میں ان کے ساتھ اسپتال جاتا۔ آپریشن تو ہو گیا لیکن وہ انتقال کر گئے۔ اپنے آخری ایام میں بھی مجھے بلواتے رہے تھے“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میں نے تقریباً سب ہی دستیاب گیت نگاروں کے ساتھ کام کیا: جیسے حزیں ؔ قادری صاحب، وارثؔ لدھیانوی صاحب، خواجہ پرویز صاحب، سعید گیلانی صاحب، الطاف باجوہ صاحب وغیرہ۔ جہاں تک گانوں کا تعلق ہے تو میں نے زیادہ گانے میڈم کے ساتھ کیے۔ فلم تقسیم کار بھی میڈم کے گانوں کا مطالبہ کر تا تھا۔ پھر مالا بیگم، تصور خانم، ناہید اختر اور نصیبو لال کے ساتھ کافی گانے کیے۔ مردوں میں منیر حسین، احمد رشدی، مسعود رانا، رجب علی وغیرہ ”۔

” ہم عصر فلم ڈائریکٹر آپ کی ابتدائی فلموں کے بارے میں کیا کہتے تھے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” ملے جلے رویے تھے۔ واقف تو سب تھے لیکن دوستی کم ہی سے تھی۔ البتہ سینئر ڈائریکٹر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ وحید ڈار صاحب، ایس اے بخاری صاحب میرے سیٹ پر کسی آرٹسٹ سے ملنے آتے تو شاباش دے کر میری حوصلہ افزائی کرتے تھے“ ۔

” کبھی کسی آرٹسٹ نے شوٹنگ کے دوران تنگ کیا؟ جیسے وقت دے کر نہ آنا وغیرہ“ ۔

” ایسا کبھی کبھار سب ہی کے ساتھ ہو تا ہے۔ آرٹسٹ کے بھی مسائل ہوتے ہیں۔ کسی وجہ سے دوسرے سیٹ پر کام پھنس گیا تو وہ یہاں دیے گئے وقت پر کیسے آئے؟ ایسا ہی ایک معاملہ میری فلم“ ٹھگ بادشاہ ” ( 1985 ) میں رانی بیگم کے ساتھ ہوا۔ کسی اور فلم کے سیٹ پر عکس بندی پھنس گئی جس کی وجہ سے رانی بیگم کا کام اٹک گیا۔ میری فلم میں اس کا ایک گانا اور ایک آدھ سین تھا۔ پھر میری فلم کو سنسر کے سامنے پیش بھی ہونا تھا کیوں کہ ریلیز سر پر کھڑی تھی۔ ایسے میں حیدر چوہدری اور الیاس کشمیری نے مسئلہ حل کرایا۔ ایسی صورت حال میں کسی بھی فریق کو جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی درست ہے کہ اگر فلم اور سین کی کاغذی تیاری درست ہو تو عام طور پر کام وقت پر ختم ہو جاتا ہے“ ۔

” والد صاحب کیا آپ کے کام سے خوش اور مطمئن تھے؟“ ۔

” انہوں نے میری پہلی فلم“ بندے دا پتر ” ( 1974 ) کی ریلیز دیکھ لی تھی جو بہت اچھی گئی۔ میری دوسری فلم“ ہیرا پھمن ” ( 1975 ) کا دوسرا سیٹ ہو رہا تھا تو ان پر بیماری کا حملہ ہوا اور وہ فوت ہو گئے۔ میری کامیابی پر خوش تھے“ ۔

سلطان راہی:

گفتگو میں موجود ظفر ا قبال نے پوچھا : ”آپ نے راہی صاحب کے ساتھ کافی کام کیا۔ ان کے بارے میں بتائیے! “ ۔

” منور ظریف کے بعد جس اداکار کے ساتھ میں نے سب سے زیادہ کام کیا وہ سلطان راہی صاحب ہیں۔ میں نے ایک ایکشن فلم شروع کی“ مچھلے خان ” ( 1979 ) جس کے ہیرو راہی صاحب تھے۔ پھر“ اقبال جرم ” ( 1979 ) ،“ خونی شعلے ” ( 1992 ) کی۔ راہی صاحب بڑے آرٹسٹ اور بہت بڑے انسان تھے۔ پیسے کی وجہ سے انہوں نے کبھی تنگ نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ

ساتھ ہی دیا! وہ کمزور پروڈیوسروں کے ساتھ از حد تعاون کرتے اور کہتے کہ فلم مکمل کرو۔ میرے نصیب میں ہوا تو دے دینا ”۔

” کیا آپ کے کسی شاگرد نے اس میدان میں نام کمایا؟“

” پہلے جو لڑکے کام کرتے تھے وہ باقاعدہ سیکھنا چاہتے تھے اور بڑی محنت کرتے تھے۔ ہمارے دور میں کچھ اچھے گھرانوں کے لڑکے بھی آئے اور چلے گئے۔ البتہ میرے دو شاگردوں نے کام کیا : شہزاد حیدر، جس نے مجھ سے اجازت لے کر میرے نام کا حیدر اپنے نام کے ساتھ جوڑا اور دوسرا ارشد ڈار۔ یہ بڑا لائق لڑکا تھا۔ یہ اس کی بد قسمتی کہ اس کی تین فلمیں بنیں اور تینوں نہ لگ سکیں۔ وہ اب دنیا میں نہیں رہا“ ۔

اداکار ندیم:

” ندیم صاحب نے بھی میرے ساتھ ڈبل ورژن فلم“ خونی شعلے ”میں کام کیا۔ اس میں سلطان راہی، ندیم، انجمن، بابرا شریف، بہار بیگم سمیت بڑی کاسٹ تھی۔ ندیم خوب آرٹسٹ تھے۔ منور میرا دوست تھا اور ندیم منور کے دوست۔ میں ان سے پہلے ہی واقف تھا۔ لہٰذا مجھے کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ بہت با اصول آدمی تھے اور شوق سے کام کرتے تھے“ ۔

موسیقار بھائیوں کی جوڑی سلیم اقبال:

” فلم“ کل کل میرا نا ” ( 1976 ) میں موسیقار بھائیوں کی جوڑی، سلیم اقبال سے گانے بنوانے کا خیال کیوں آیا؟“

میں نے سوال کیا۔

” وہ ایسے کہ فلمساز نے مجھ سے کہا کہ ہمارا کہانی نویس نیا ہے جسے فلم کا تجربہ نہیں، آپ اس سے کہانی سن لیں۔ کہانی نویس پروفیسر صوفی نثار احمد تھے جو صوفی ؔغلام مصطفے ٰ تبسم کے بیٹے تھے۔ ان کا آئڈیا بہت اچھا تھا۔ تب میں نے مذکورہ فلمساز کو موسیقار سلیم اقبال کی ہٹ فلموں کے نام بتائے اور پوچھا کہ کیسا میوزک تھا۔ انہوں نے کہا کہ بہترین! تب میں نے کہا کہ ایک بات آپ میری بھی مان لیں وہ یہ کہ میں اس فلم میں ان سے گانے بنوانا چاہتا ہوں جو کافی عرصے سے منظر سے غائب بھی ہیں۔ فلمساز نے کہا کہ منظور ہے۔ تب میں ان کے گھر گیا۔ جب انہیں علم ہوا کہ میں حیدر شاہ کا بیٹا ہوں تو بڑا پیار کیا۔ اس فلم میں انہوں نے بہت اچھے گانے بنائے۔ کام کرنے والے لوگ تھے! “ ۔

ایک نا قابل فراموش واقعہ:

قصہ یہ ہے کہ میری فلم ”مسٹر افلاطون“ ( 1981 ) میں ممتاز کے دو گانے تھے۔ مجھے پیغام ملا کہ وہ بیمار ہے۔ پروڈیوسر اور میں اس کو دیکھنے گھر گئے۔ وہ شدید گرمیوں کا زمانہ تھا۔ اسے واقعی تکلیف تھی ( پیٹ کا السر ) ۔ کہنے لگی کہ گرمی میں الٹیاں ہو جاتی ہیں تو کام کیسے ممکن ہو گا؟ پھر آپ کا گانا بھی آؤٹ ڈور ہے۔ مری جیسی ٹھنڈی جگہ ہو تو شاید کر لوں۔ پروڈیوسر نے کہا چلیں مری میں کام کر لیں گے۔ ہم نے وہ دونوں گانے مری میں کیے۔ اس فلم کی کہانی سید نور نے لکھی اور اس میں اداکاری بھی کی ”۔

” میڈم کے بارے میں بتائیے! “ ۔

” وہ اپنے مزاج کی اور موڈی تھیں۔ چاہتی تھیں کہ ان سے جھوٹ نہ بولا جائے۔ ویسے خاتون بہت با اصول تھیں۔ ٹپ ٹاپ ان کی شہزادیوں جیسی تھی اور بادشاہوں کی طرح نکلتی تھیں۔ ایک تو اللہ نے حسن دیا تھا اوپر سے پہناوا بھی اعلیٰ“ ۔

” اس زمانے میں لاہور میں یہ فلم اسٹوڈیو تھے :“ شاہ نور اسٹوڈیو ”جو پہلے شوری اسٹوڈیو تھا۔ پھر“ باری اسٹوڈیو ”،

” ایور نیو اسٹوڈیو“ ، ”اے ایم اسٹوڈیو“ ، ”یو بی اسٹوڈیو“ جہاں سی منڈوڈی ساؤنڈ ریکارڈسٹ تھے پھر ”پنچولی“ بھی تھا جو میں نے نہیں دیکھا۔ حالاں کہ میرے چچا نثار علی شاہ اس میں منیجر بھی رہے ہیں ”۔

نسیم حیدر شاہ نے نگار ویکلی کے بارے میں کہا : ”فلمی اخبارات آتے رہے، اب بھی ہیں لیکن کراچی کا نگار واحد اخبار ہے جو فلموں اور فلم انڈسٹری کی حمایت کا وسیلہ ہے۔ یہ اب بھی اپنی ہمت پر شائع ہو رہا ہے۔ اللہ اسے قائم رکھے“ ۔

ظفر اقبال نے کہا : ”نگار تو انڈسٹری کے ساتھ جوان ہوا ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی جتنی خدمت نگار ویکلی نے کی وہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ سرکاری ایوارڈ تو ملتے ہی تھے لیکن ہمارے ملک میں سب سے بڑا اور قابل فخر فلمی ایوارڈ نگار ہی تھا“ ۔

باتیں تو اور بہت سی کرنے کی تھیں مگر بقول شاعر : ’ارماں تو بہت سے ہیں دل میں اظہار تمنا کیسے ہو۔ ‘ دعا گو ہوں کہ پاکستان فلمی صنعت میں پھر سے سرگرمیاں شروع ہوں اور نسیم حیدر شاہ کو ہم پھر سے فعال دیکھیں!

اختتام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).