سورج ٹوٹ سکتا ہے


نہ ہی تو وہ فرانز کافکا کی کہانی کے پشت کے بل پڑے ٹانگیں کلبلاتے ہوئے لال بیگ میں تبدیل ہوا تھا نہ ہی ند دنوں میں اس کے کمر پہ کوہان سا کب نکلا تھا۔ وہ یہ سب جانتا تھا مگر کرتا تو کیا کرتا، اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ انسان کی شکل میں امربیل ہے۔ کیونکہ وہ اپنی ضرورتوں کی فہرست کو خاصا پھیلا لیا کرتا، ان کی تکمیل کی غرض سے جس کا طفیلی ہوتا وہ اپنے گہرے انسانی جذبات اور احساسات کے باوجود اسے خود سے جھٹک کے گرا دینے کی کوشش کرنے سے گریزاں رہتا۔

امربیل لامحالہ عدم سے تو وجود میں آئی نہیں ہوگی۔ پھر اس کے سالموں کو شاید یہ بات معلوم ہی نہ ہو کہ وہ مجتمع ہو کر امربیل بننے جا رہے ہیں بالکل ویسے ہی لاعلم جیسے ماں کے پیٹ میں پلتے بچے کے لیے یہ جاننا ناممکن ہے کہ وہ جلد ہی انسان بننے والا ہے۔

لیکن اس میں جو یہ انسانی نباتاتی پیوند کاری ہو چکی تھی وہ اس کا اب کسی سے تذکرہ ہی نہ کرتا تھا کیونکہ ایک واقف حال سے کہا تو اس نے پورا سنے بغیر کہا:

” تمہارا دماغ، زیادہ کتابیں پڑھنے کی وجہ سے خراب ہو گیا ہے“

اس کا کہا یہ فقرہ اسے اس شخص کی جھلاہٹ تو نہیں لگا تھا البتہ یوں ضرور لگا تھا جیسے اس کا کہنا بذات خود ایک سند کی حیثیت حاصل کر گیا ہو۔ وہ اس کی بات سن کر بس خاموش رہا تھا۔

دوسرے نے بات تو پوری کی پوری دھیان دے کر سن لی تھی مگر کہا تھا:

” تم تو ویسے بھی عجیب باتیں کیا کرتے تھے لیکن اب اتنی عجیب باتیں تو نہ کرو کہ دوستوں کو تمہاری دماغی صحت پہ شبہ ہونے لگ جائے“

اسے یہ سن کر لگا تھا کہ دوست نے شبہ تو بہر طور ظاہر کر دیا ہے مگر کہیں یہ بات پھیل ہی نہ جائے۔

بظاہر وہ شرمیلا مگر علم پر مبنی نپی تلی باتیں کرنے والا انسان تھا، ہاں ایسا ضرور ہو جایا کرتا کہ اس کے گفتگو کرنے کے دوران چند لوگ ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھنے لگ جایا کرتے۔ ایسا کرتے دیکھ کر اسے اپنے آپ پر بہت غصہ آتا، اس کی یہی خواہش ہوتی کہ اے کاش وہ سچ مچ کی امربیل ہوتا اور یہ لوگ انجان درخت جن پر وہ تب تک تسلط جاری رکھتا جب تک وہ ہمیشہ کے لیے نہ سوکھ جاتے۔

ایک اور قلق جو وہ پالے ہوئے تھا وہ یہ کہ حالات و حوادث کی آندھیاں، اس یعنی امربیل کی اس کے اصل انسانی درخت سے علیحدگی پانے میں نہ ہونے کے برابر ممد تھیں۔ دوستوں بیچ تو وہ ظاہر ہے کہ ہر عام شخص کی طرح تن کر کے بیٹھا ہوتا تھا لیکن گھر میں لیٹے ہوئے کبھی معا ”اس کے ہاتھ کو جھٹکا لگتا تو کبھی ٹانگ کو یا پھر گردن کو۔ اگر کوئی ملازم سامنے بیٹھا ہوتا تو وہ پوچھتا:

” کیا ہوا جی؟“
وہ ”کچھ نہیں۔ “ کہہ کر ٹالنا چاہتا مگر بڑبڑاتا:

” یہ تو بہت ہی پھیلتی جا رہی ہے، کہیں میرا، وجود ہی اس سے نہ ڈھانپا جائے“ اس کی بڑبڑاہٹ سننے والا ملازم اسے عجیب نظروں سے دیکھتا ہوا چلا جاتا۔ اسے اس سب سے شدید الجھن ہوتی۔

اس کا ایک ہی بیٹا تھا عدنان۔ تھا تو وہ کم عمر لیکن تھا فتنہ یا کہہ لیں بے حد ذہین۔ ایک روز جب وہ سکول سے لوٹا تو آتے ہی بولا:

” پاپا آپ کو معلوم ہے نا کہ آپ امربیل ہیں“ ۔
اس نے ہڑبڑا کر کہا تھا، ”تمہیں کس نے بتایا عدنان؟“
پہلے تو بچہ اپنے باپ کے ہڑبڑا جانے پر کھسیانا سا ہوا اور خود پہ نازاں بھی، پھر بولا:

” پاپا میں حیران ہوں کہ آپ کو اپنے امربیل ہونے کا یقین ہے کیونکہ امربیل کو اس بات کا پتہ ہی نہیں ہوتا لیکن کیا کیا جائے آپ انسان بھی تو ہیں یا پھر کہیں آپ خلائی مخلوق تو نہیں ہیں؟“

” کیا مطلب ہے بھئی؟“
”پاپا انکل علی نے کہا کہ عدنان کا باپ امربیل ہے پر چاٹتا کسی کو نہیں“ ۔
” عدنان میں امربیل ہوں مگر میں نے کسی کو اس بارے میں بتایا تو نہیں تھا“ ۔
” اچھا پاپا یہ بتائیں امربیل سے کیا پیدا ہو سکتا ہے؟“
” بھئی عدنان سیدھی سی بات ہے، امربیل ہی پیدا ہوگی“ ۔

” تو آپ کیوں بھول گئے کہ انکل علی سوشیالوجسٹ ہیں اور میں ان کا رضاکار معمول۔ میرا مطالعہ کرنے سے ہی انہوں نے نتیجہ اخذ کیا ہو گا۔“

اسے ایسے لگا جیسے اس پر سورج ٹوٹ پڑا ہو جبکہ تمازت اسے اور پھیلا رہی ہو۔

اس نے بے طرح ہاتھ، پاؤں، سر، کندھے جھٹکنے شروع کر دیے تھے۔ سب پریشان ہو گئے تھے۔ آخر اسے ہسپتال لے جایا گیا۔ اب وہ دماغی امراض کے شفاخانے میں کے ایک مخصوص کمرے میں طبی لیبارٹری کا مضمون بن چکا ہے۔

وہ چیختا بھی رہے کہ میں امربیل نہیں ہوں لیکن اب تو خود ماہرین امراض دماغی، اپنے آپ کو امربیل سمجھنے کا دھوکا کھانے لگ گئے ہیں۔ تحقیق میں ایک پہلو یہ بھی شامل کر لیا گیا ہے آیا یہ امربیل سمجھنا کہیں نئی نوع کا متعدی مرض تو نہیں ہے؟

اب تو اس کا دل کرتا ہے اتنا کرتا ہے کہ یا تو اسے خود کے امربیل ہونے کا یقین نہ ہوتا یا اسے عدنان ایسے ذہین بیٹے کے باپ ہونے کا دکھ نہ ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments