نہیں نکمی کوئی چیز توشہ خانے میں


14فروری 2022ء کو جب ساری دنیا محبت کا عالمی دن منا رہی تھی اور محبت کرنے والے ایک دوسرے کو قیمتی تحائف دے رہے تھے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پنجاب بار کونسل کی تقریب میں کسی چاہنے والے کی طرف سے ملنے والے ایک قیمتی تحفے کو سرکار کے خزانے میں جمع کرنے کی بابت سوچ رہے تھے۔

دوسرے کئی چھوٹے موٹے تحائف کے ساتھ انھیں یہ تحفہ ملے آج تین ہفتے گزر چکے تھے لیکن انھیں اس کے اس قدر قیمتی ہونے کا اندازہ گزشتہ شام ہی ہوا تھا۔ انھوں نے اپنے سینیئر پرائیویٹ سیکریٹری کو بلایا اور ہدایات دیں۔ سیکریٹری نے حکم بجا لاتے ہوئے کیبنٹ سیکریٹری کو لکھا:

”جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب 22 جنوری 2022 کو پنجاب بار کونسل کی دعوت پر بار سے خطاب کرنے گئے۔ وہاں انھیں ایک صراحی بطور تحفہ پیش کی گئی۔ مارکیٹ ویلیو سے پتہ چلا ہے کہ اس کی مالیت اڑھائی لاکھ روپے ہے۔ جسٹس صاحب کے خیال میں وہ اتنا قیمتی تحفہ اپنے پاس رکھنے کے مجاز نہیں۔ اس لیے وہ اسے سپریم کورٹ کے میوزیم میں رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ لہٰذا اس صراحی کو اس میوزیم میں رکھنے کی اجازت درکار ہے۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر براہ کرم اس بارے رہنمائی فرمائی جائے کہ اسے کس عوامی جگہ رکھا جا سکتا ہے۔ صراحی خط کے ہمراہ آپ کے ملاحظے کے لیے پیش ہے۔ “

اس نوع کی خبریں چوں کہ اپنے خمیر میں سنسنی خیزی کا عنصر نہیں رکھتیں اور انھیں رپورٹ کرنے سے چینل کی ریٹنگ نہیں بڑھتی اس لیے اس ”معمولی“ خبر کو کسی بھی چینل یا اخبار نے رپورٹ نہیں کیا۔ ممکن ہے بہت سے رپورٹروں تک یہ خبر پہنچی بھی ہو لیکن انھوں نے سوچا ہو گا کہ اس میں ”خبریت“ والی کون سی بات ہے۔ اس میں تو خیریت ہی خیریت ہے اور خیریت کا مادہ چوں کہ ”خیر“ ہے اس لیے خیر میں خبر کی تلاش ایک لغو بات ہے۔ سو آپ کی خیریت مطلوب چاہتے ہیں۔

میرے علم کے مطابق اس ’معمولی‘ خبر کو صرف عمران شفقت صاحب (جو سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر تعلیم دونوں کے جزوی طور پر ہم نام ہیں ) نے اس قابل سمجھا تھا کہ اسے موضوع گفتگو بنایا جائے۔ آج یہ سطور لکھتے ہوئے میں نے اس وی لاگ کو دوبارہ تلاش کر کے سنا، جسے اس دورانیے میں صرف تیس ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے دیکھا۔

دوسری طرف اسی معزز جج کی ایمان داری کا اعتراف کرنے والے ہمارے سابق وزیر اعظم ہیں، جو ’میرا تحفہ میری مرضی‘ کا نعرہ ء مستانہ بلند کرتے ہیں تو لاکھوں لوگ ان کے ہمنوا بن جاتے ہیں۔ اب تو خیر وہ ٹویٹر سپیس کا ریکارڈ بھی قائم کر چکے ہیں سو انھیں ایک سو بارہ تحفے تو کیا ایک سو بارہ خون بھی معاف ہیں۔

حال ہی میں جاری دستاویزات کے مطابق عمران خان صاحب اگست 2018ءمیں حکومت سنبھالنے کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر (دسمبر2022ءتک) دس کروڑ سے زائد مالیت کے تحائف بیس فیصد ادائیگی پر خرید چکے تھے۔ پھر انھیں اچانک خیال آیا کہ مہنگائی کے اس دور میں اتنے سستے تحفے خریدنا تحریک انصاف کے منشور سے روگردانی ہے سو انھوں نے قوم پر احسان عظیم فرماتے ہوئے قانون میں تبدیلی کروائی جس کے تحت توشہ خانے کے تحائف پچاس فی صد سے کم قیمت پر خریدنا خلاف ”انصاف“ قرار پایا۔

اس نئے قانون کے بعد ہمارے غریب وزیراعظم نے صرف چار کروڑ کے تحائف خریدے۔ شاید ان کی جیب اس سے زائد کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ نئے پاکستان کے پرانے قانون کے مطابق تیس ہزار سے کم مالیت کے تحفے چوں کہ وہ بغیر کسی معاوضے کے اپنے پاس رکھنے کے ’مجاز‘ تھے اس لیے انھوں نے اپنے پیش روؤں جناب آصف علی زرداری اور جناب میاں محمد نواز شریف کی ’اتباع‘ میں انھیں چھوڑنا خلاف ’حقیقت‘ سمجھا۔

بقول متشاعر:
نہیں نکمی کوئی چیز توشہ خانے میں
سبھی بجا ہے حکومت کے کارخانے میں

گزشتہ برس جب ایک صحافی ابرار خالد نے بذریعہ عدالت توشہ خانے کی تلاشی لینے کی کوشش کی تھی تو خود کو صادق اور امین سمجھنے اور اپنے سیاسی حریفوں کو چور اور ڈاکو کہنے والے خان صاحب نے ان تحائف کو ’کلاسیفائیڈ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سربراہان مملکت کے درمیان تحائف کا تبادلہ بین الریاستی تعلقات کا عکاس ہوتا ہے۔ ایسے تحائف کی تفصیلات کے اجرا سے بے بنیاد خبریں پھیلیں گی اور تحائف دینے والے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے۔ (امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر کا لکھا ہوا خفیہ خط چوں کہ ”تحفے“ میں شمار نہیں ہوتا اس لیے اس کی تفصیلات کے اجرا سے بین الریاستی تعلقات متاثر نہیں ہوتے۔ )

اب ان دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد انھوں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔

’میرے تحائف میری مرضی۔ میں ان کے ساتھ جو بھی کروں‘

انھوں نے اس کی تشریح کرتے ہوئے ریٹائرڈ فوجی افسران کو ڈی ایچ اے میں ملنے والے پلاٹس کی مثال دی کہ پلاٹ ملنے کے بعد وہ انھیں رکھیں یا بیچ دیں یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔

پلاٹس کی اس مثال سے ہمیں ایک مرتبہ پھر جسٹس قاضی عیسیٰ ہی یاد آتے ہیں جنھیں حکومت کی جانب سے دو مرتبہ پلاٹ دینے کی پیش کش ہوئی۔ پہلے بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ اور دوسری مرتبہ بطور جج سپریم کورٹ، جسے انہوں نے ٹھکرا دیا تھا۔ یہی نہیں انھوں نے اپنے ایک فیصلے میں واضح طور پر لکھا۔

’بری، بحری اور فضائی افواج یا ان کے ماتحت کوئی بھی فورس رہائشی، زرعی یا کمرشل زمین لینے کا حق نہیں رکھتی۔‘

14 فروری 2022 ءکو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پرائیویٹ سیکریٹری کی جانب سے لکھے گئے اس خط کی اطلاع یقیناً خان صاحب کو بھی دی گئی ہو گی۔ ہمارا گمان غالب ہے کہ انھیں فاضل جج کی ایمان داری کا ’یقین‘ اسی دن ہو گیا ہو گا۔ لیکن جب تک وہ حکومت میں رہے انھوں نے یہ ٹرمپ کارڈ بھی سینے سے لگائے رکھا تاکہ سند رہے اور حکومت سے بے دخلی کے بعد کام آئے۔

حد تو یہ ہے کہ اس ”اقبال جرم“ کے بعد بھی وہ عوام سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ انھوں نے ایسا کون سا جرم کیا تھا کہ رات کے بارہ بجے عدالتیں کھل گئیں۔

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments