محسن نقوی اور سید فخرالدین بلے فیملی: داستانِ رفاقت (1)


پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب صاحب اور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب جیسے عظیم المرتبت اسکالرز اور ادبیات کے اساتذہ سے فیض پانے والے سید محسن نقوی کا پچھترواں یوم ولادت۔ 2022۔ کے کیلینڈر کے پانچویں مہینے کی پانچ تاریخ کو منایا جا رہا ہے۔ گویا کہ پروفیسر ڈاکٹر اجمل نیازی اور پروفیسر خالد سعید کی طرح اپنے آپ کو فخریہ طور پر پاکستان کا ہم عمر بتانے والوں میں سیدی محسن نقوی کا بھی شمار ہوتا ہے۔ ہمیں ان تمام تر عظیم المرتبت ہستیوں کی تعلق داری۔ محبت اور انسیت وراثت میں ملی ہے۔ ہمارے پیارے اور محترم پروفیسر ڈاکٹر اصغر ندیم سید۔ پروفیسر انعام الہی فاروقی صاحب سیدی محسن نقوی کے ہم مکتب۔ ہم جماعت اور ہم کمرہ تھے۔ ان کے بہت سے قصے ہم نے سیدی محسن نقوی۔ پروفیسر انعام فاروقی اور ڈاکٹر اصغر ندیم سید سے سن رکھے ہیں۔

سیدی محسن نقوی شاہ جی سراپا محبت تھے نہیں ہیں ان کی محبت بھی زندہ ہے اور وہ بھی۔ سوچتا ہوں کہ کبھی لکھوں ”محسن نقوی اور بلؔے فیملی داستان رفاقت لیکن برسوں کی رفاقت کو چند سو صفحات میں بھی کیسے سمیٹ پاوٴں گا۔ دس برس سے زائد عرصہ تو ایسا گزرا کہ سیدی جناب محسن نقوی صاحب والد گرامی کی اقامت گاہ پر تقریباً رات بارہ ساڑھے بارہ بجے آیا کرتے تھے اور اذان فجر پر رخصت ہو جاتے تھے رات بھر دھواں دھار شاعری کا دور چلتا۔

چائے۔ سگریٹ۔ پان۔ کافی اور قہقہوں کے ساتھ شاعری اکثر تو ہماری فرمائش پر اپنی شاعری سناتے ہی تھے اور مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ صرف مکمل“ فرات فکر” ہم نے اپنے ہی غریب خانے پر کم از کم چھ سات مرتبہ سنی ہو گی اور ویسے بھی شاید ہی سیدی محسن نقوی شاہ کا کوئی ایسا کلام ہو جو ہم نے ان سے اپنے غریب خانے پر یا“ ہاٹ پاٹ ”پر (فورٹریس اسٹیڈیم پر واقع ایک ریسٹورنٹ میں ) نہ سنا ہو۔ لیکن ایسا بھی اکثر ہوتا کہ فرماتے سید جانی (یا) سیدی کہہ کر مخاطب کرتے ) اور مخاطب کرتے ہی فرماتے آج میں آپ کو انس معین کا کلام سناتا ہوں اور پھر نان سٹاپ ایک کے بعد ایک انس معین کی غزل اور نظم سناتے اور سناتے ہی چلے جاتے اور ساتھ ساتھ فرماتے کہ آنکھوں کی بصارت، کانوں کی سماعت اور دلوں کی دھڑکن کا وجود جب تک قائم ہے انس معین کا کلام پڑھا اور سنا جاتا رہے گا اور انس معین اہل ادب کے دلوں کی دھڑکن بنا رہے گا۔ سیدی محسن نقوی کو انس معین کا بیشتر کلام حفظ تھا مجھ سے تو نہیں لیکن ہاں ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلؔے شاہ صاحب سے فرمائش کر کے سیدی محسن نقوی نے انس معین کا کلام حاصل کیا تھا گو کہ مجھ سے ان کی حد درجہ بے تکلفی تھی دوستانہ اور برادرانہ مراسم تھے لیکن مجھ سے انہوں نے انس معین کا کلام کبھی نہیں مانگا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ سیدی محسن نقوی ہمارے والد گرامی کا حد درجہ احترام کیا کرتے تھے اور جناب امیر علی ع کی سیرت پاک کے حوالے سے تحقیقی تصنیف کا جو ایک نسخہ جو ڈرائنگ روم کے شوکیس میں رکھا ہوا تھا اسے ہمیشہ آتے وقت اور بوقت رخصت لازما ”چومتے اور آنکھوں سے لگاتے اور کہتے یا سید فخرالدین بلؔے شاہ مولا آپ کو سلامت رکھیں۔ ان کے اس عمل کے جواب میں اکثر ان سے کہتا کہ والد گرامی ساتھ والے کمرے میں ہیں یا برج کھیل کر لوٹ رہے ہوں گے انہی کے سامنے ان کا قصیدہ پڑھیے گا اور سیدی محسن نقوی شاہ جی آپ نے تو ابو جانی سے“ ولایت پناہ” کا ایک نسخہ لے لیا تھا تو آپ آتے ہوئے اپنے اسی نسخے کو کیوں نہیں چوم کر آتے وہ مسکراتے ہوئے کہتے سیدی ظفر جانی قسم ہے مولا حسین کی کہ جب جب یہ نسخہ میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے میں اسے چومتا ہوں اور میں قبلہ سید فخرالدین بلؔے شاہ صاحب کا اپنے باپ دادا جیسا احترام کرتا ہوں ان کے سامنے کبھی سگریٹ پینا تو بڑی بات منہ میں پان بھی ہوتا ہے تو تھوک دیتا ہوں۔

بعض اوقات تو ان کی گفتگو کا مرکز و محور ہی بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلؔے شاہ ہو جاتے۔ عرفان حیدر عابدی بھی محسن نقوی کے جگر جانی اور بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ جب کبھی عرفان حیدر عابدی کراچی سے لاہور تشریف لایا کرتے تو ہمیشہ ہی وہ نجف ریزہ محسن نقوی کے دولت کدہ پر قیام فرماتے۔ محسن نقوی متعدد بار اپنے مہمان عرفان حیدر عابدی کے ہمراہ بھی والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدی محسن نقوی جب پہلی مرتبہ عرفان حیدر عابدی کو اپنے ہمراہ ہمارے ہاں تشریف لائے تو انہوں نے والد گرامی سے گزارش کی بلے بھائی صاحب آج ہم جناب علامہ عباس حیدر عابدی صاحب کے فرزند عرفان حیدر عابدی کی خواہش پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔

عرفان صاحب کی نظر ہمارے گھر میں رکھے ہوئے آپ کے عطا کردہ ولایت پناہ کے نسخے پر تھی تو ہم نے عرض کیا کہ معذرت چاہتا ہوں یہ آپ لے جا نہیں سکتے البتہ یہاں رہتے ہوئے اس کا مطالعہ فرما سکتے ہیں۔ تب عرفان صاحب نے کہا کہ ہمیں سید سرکار فخرالدین بلے شاہ صاحب کے ہاں لے چلیں۔ ہماری سفارش پر ولایت پناہ کا ایک نسخہ ان کو بھی عطا فرما دیں۔ قول ترانہ۔ من کنت مولا، فھذا علی مولا۔ کی چار دھنوں والا آڈیو کیسٹ میں نے خود کاپی کروا کر جانی جگر عرفان عابدی کو دے دیا۔

محسن نقوی ادبی محفلوں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ سید فخرالدین بلے نے مولائے کائنات حضرت علی المرتضی علیہ السلام کی سیرت و شخصیت کے حوالے سے جو تحقیقی کتاب“ ولایت پناہ ”لکھی ہے، اس کا مسودہ دیکھنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ حضرت امیر خسرو کے سات صدیوں کے بعد سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے جو قول ترانہ تخلیق کیا وہ ایک تخلیقی معجزہ ہے اور اس قول ترانے میں محترم بھائی فخرالدین بلے شاہ صاحب نے فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ اس کتاب (ولایت پناہ) کا نچوڑ پیش کر دیا ہے، اسی لئے یہ قول ترانہ سننے والوں کو اپنے دلوں میں اترتا اور دعوت فکر دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

سید فخرالدین بلے
منقبت علی المرتضیٰ
مرا سفینۂ ایماں ہے، ناخدا بھی علی
مری نماز علی ؑ ہے، مری دعاء بھی علی
وجود و واجد و موجود و ماجرا بھی علیؑ
شہود و شاہد و مشہود و اشتہا بھی علیؑ
ہے قصد و قاصد و مقصود و اقتضا بھی علی
رضا و راضی، رضی اور مرتضیٰ ؑ بھی علیؑ
مرے لئے ہیں سبھی اجنبی علی ؑ کے سوا
مرے لئے تو ہے تمہید اقرباء بھی علیؑ
ہے اس کی ذات میں مرکوز عصمت تخلیق
ابو لائمہ بھی ہے، زوج فاطمہؓ بھی علیؑ
ابو ترابؑ و شرف یاب آیہ تطہیر
ہے راز دار حرا و مباہلہ بھی علیؑ
وہی مسیحؑ کا ایلی ہے، خضرؑ کا رہبر
وہی ہے شیر خدا، موسویؑ عصا بھی علیؑ
وہی ہے نقطۂ باء اور معلم جبریلؑ
ہے باب علم بھی اور حجت خدا بھی علیؑ
حنین و بدر و احد ہوں کہ خندق و خیبر
ہے کار ساز و ید اللہ ولا فتی بھی علی
خدا کے گھر میں ولادت ہوئی شہادت بھی
خدا کے گھر میں ہے بردوش مصطفی بھی علی
نماز عصر کی خاطر پلٹ گیا سورج
ہے قید عصر سے والعصر ماورا بھی علی
وہ ذوالعشیر کا داعی، ”خلیفتی فیکم
شریک عقد مواخات مجتبیٰ بھی علی
ملیک امر، ولایت پناہ، ظل اللہ
عطا وجود و سخا، فقر کی ردا بھی علی
ہے راز کن فیا کوں، مظہر العجائب ہے
کہ انتہا ہے علی ؑ اور منتہیٰ بھی علی ؑ

لاہور ہی میں سید فخرالدین بلے کی زبان حق بیان سے یہ منقبت علی المرتضی علیہ السلام سن کر محسن نقوی نے منظوم داد دی اور فی البدیہہ چند اشعار سپرد قرطاس کر دیے۔

ہوں لب کشا میرے بھائی بلے تو ان کا عرفان بولتا ہے
علی کی یہ منقبت سنو، عشق کل ایمان بولتا ہے
علی علی کی صدائیں بھی سن رہا ہوں میں ان کی دھڑکنوں میں
فضاوٴں پر ہے یوں وجد طاری کہ ان کا وجدان بولتا ہے
کلام میں فخر دین کے بے شک خمار خم غدیر کا ہے
لنڈھائے ہیں ساغر ولایت نبی کا فرمان بولتا ہے

انس معین کا کلام کیونکہ سیدی محسن نقوی نے ”نجف ریزہ“ میں رکھا تھا تو برادر عزیز سیدی عقیل محسن نقوی صاحب نے بالکل بجا یاد دلایا کہ وہ خود ان کی نظر سے بھی گزرا ہے۔ اور اگر وہ نظر سے گزرا ہے تو پھر یقیناً ”ولایت پناہ“ کا نسخہ بھی ان کی نظر سے گزرا ہو

کبھی موڈ ہوتا تو کہتے سیدی جانی آپ جون ایلیا کے پڑھنے کے انداز کی زبردست کاپی کرلیتے ہیں آج آپ جون ایلیا کا کلام سنائیں جو بھی یاد ہے پھر میں بھی جون کا کلام سناؤں گا۔ کبھی حضرت جوش کا اور کبھی منیر نیازی کا تو کبھی مجید امجد یا بھائی جان خالد احمد صاحب کلام کا الغرض جو بھی شاعر اس دن ان کے اعصاب پر سوار ہوتا اس کا کلام سناتے بھی اور ہمیں بھی سنانے کی آزمائش میں ڈالتے۔

اگر سہ پہر میں ان کو فراغت ہوتی تو ہم لارنس گارڈن کی سیر کو نکل جاتے اور وہاں جاکر گول گپے یا دہی بھلے اور اس کے بعد لازمی طور چائے یا کافی انجوائے کرتے۔ عموماً شام ہماری ہاٹ پاٹ پر گزرتی۔ اور رات بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے کی کٹیا میں۔ سیدی محسن نقوی مجھے بے شمار مرتبہ مجلس پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے ساتھ لے جاتے۔ کربلا گامے شاہ مجھے ان کے ساتھ کتنی مرتبہ جانے اور شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا مجھے خود یاد نہیں لیکن ہاں لاہور سے باہر میں ان کے ساتھ صرف تین چار مرتبہ ہی گیا ہوں گا۔

اللہ اکبر اللہ اکبر واللہ اکبر
نعتیہ کلام :۔ محسن نقوی
انتخاب کلام : ظفر معین بلے جعفری
چہرہ ہے کہ انوار دو عالم کا صحیفہ
آنکھیں ہیں کہ بحرین تقدس کے نگیں ہیں
ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہے
عارض ہیں کہ ”والفجر“ کی آیت کے امیں ہیں
گیسو ہیں کہ ”والیل“ کے بکھرے ہوئے سائے
ابرو ہیں کہ قوسین شب قدر کھلے ہیں
گردن ہے کہ بر فرق زمیں اوج ثریا
لب، صورت یاقوت شعاعوں میں دھلے ہیں
قد ہے کہ نبوت کے خد و خال کا معیار
بازو ہیں کہ توحید کی عظمت کے علم ہیں
سینہ ہے کہ رمز دل ہستی کا خزینہ
پلکیں ہیں کہ الفاظ رخ لوح و قلم ہیں
باتیں ہیں کہ طوبیٰ کی چٹکتی ہوئی کلیاں
لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں بول رہی ہے
خطبے ہیں کہ ساون کے امنڈتے ہوئے دریا
قرات ہے کہ اسرار جہاں کھول رہی ہے
یہ دانت، یہ شیرازۂ شبنم کے تراشے
یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے
شرمندۂ تاب لب و دندان پیمبرﷺ
حرفے بہ ثنا خوانی و خامہ بہ صریرے
یہ موج تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے
یہ عکس متانت ہے کہ ٹھہرا ہوا موسم
یہ شکر کے سجدے ہیں کہ آیات کی تنزیل
یہ آنکھ میں آنسو ہیں کہ الہام کی رم جھم
یہ ہاتھ، یہ کونین کی تقدیر کے اوراق
یہ خط، یہ خد و خال رخ مصحف و انجیل
یہ پاؤں، یہ مہتاب کی کرنوں کے معابد
یہ نقش قدم، بوسہ گہ رف رف و جبریل
یہ رفعت دستار ہے یا اوج تخیل!
یہ بند قبا ہے کہ شگفت گل ناہید
یہ سایۂ داماں ہے کہ پھیلا ہوا بادل
یہ صبح گریباں ہے کہ خمیازۂ خورشید
یہ دوش پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
یہ مہر نبوت ہے کہ نقش دل مہتاب
رخسار کی ضو ہے کہ نمو صبح ازل کی
آنکھوں کی ملاحت ہے کہ روئے شب کم خواب
ہر نقش بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے
تزئین شب و روز کہ تمثیل مہ و سال
ملبوس کہن یوں شکن آلود ہے جیسے
ترتیب سے پہلے رخ ہستی کے خد و خال
رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور
کردار میں شامل بنی ہاشم کی انا ہے
گفتار میں قرآں کی صداقت کا تیقن
معیار میں گردوں کی بلندی کف پا ہے
وہ فکر کہ خود عقل بشر سر بگریباں
وہ فقر کہ ٹھوکر میں ہے دنیا کی بلندی
وہ شکر کہ خالق بھی ترے شکر کا ممنون
وہ حسن کہ یوسفؑ بھی کرے آئینہ بندی
وہ علم کہ قرآں تری عترت کا قصیدہ
وہ حلم کہ دشمن کو بھی امید کرم ہے
وہ صبر کہ شبیرؑ تری شاخ ثمردار
وہ ضبط کہ جس ضبط میں عرفان امم ہے
نعتیہ کلام :۔ محسن نقوی
الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگر ہے کہ مدینے کی فضا ہے
سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ ترا نام لکھا ہے
آیات کی جھرمٹ میں ترے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے
اب کون حد حسن طلب سوچ سکے گا
کونین کی وسعت تو تہ دست دعا ہے
ہے تیری کسک میں بھی دمک حشر کے دن کی
وہ یوں کہ مرا قریہ جاں گونج اٹھا ہے
خورشید تری راہ میں بھٹکتا ہوا جگنو
مہتاب ترا ریزہ نقش کف پا ہے
والیل ترے سایہ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے
لمحوں میں سمٹ کر بھی ترا درد ہے تازہ
صدیوں میں بکھر کر بھی ترا عشق نیا ہے
یا تیرے خد و خال سے خیرہ مہ و انجم
یا دھوپ نے سایہ ترا خود اوڑھ لیا ہے
یا رات نے پہنی ہے ملاحت تری تن پر
یا دن ترے انداز صباحت پہ گیا ہے
رگ رگ نے سمیٹی ہے ترے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشان مجھے دنیا نے کیا ہے
خالق نے قسم کھائی ہے اس شہر اماں کی
جس شہر کی گلیوں نے تجھے ورد کیا ہے
اک بار ترا نقش قدم چوم لیا تھا
اب تک یہ فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے
دل میں ہو تری یاد تو طوفاں بھی کنارہ
حاصل ہو ترا لطف تو صرصر بھی صبا ہے
غیروں پہ بھی الطاف ترے سب سے الگ تھے
اپنوں پہ نوازش کا بھی انداز جدا ہے
ہر سمت ترے لطف و عنایات کی بارش
ہر سو ترا دامان کرم پھیل گیا ہے
ہے موج صبا یا ترے سانسوں کی بھکارن
ہے موسم گل یا تری خیرات قبا ہے
سورج کو ابھرنے نہیں دیتا ترا حبشی
بے زر کو ابوذر تیری بخشش نے کیا ہے
ثقلین کی قسمت تری دہلیز کا صدقہ
عالم کا مقدر ترے ہاتھوں پہ لکھا ہے
اترے گا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
قرآن تری خاطر ابھی مصروف ثنا ہے
اب اور بیاں کیا ہو کسی سے تیری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوب خدا ہے
اے گنبد خضرا کے مکین میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون میرا تیرے سوا ہے
بخشش تری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محسؔن ترے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے
نعت رسول مقبول ص۔ ۔ محسن نقوی شہید اہل بیت اطہار ع
کبھی جو اس میں رسول4کانقش پا ملا ھے
ہمارے دل کو مقام غار حرا ملا ہے
عجیب سر ہے کہ عرش تک سرفراز ٹھہرا
عجیب در ہے کہ اس پہ آ کر خدا ملا ہے
میں تیری مدحت کو کس بلندی پہ حرف سوچوں
تو انبیا4ء کے ہجوم میں بھی جدا ملا ہے
نہ پوچھ تجھ پر سلام کہنے میں کیا کشش تھی
کبھی خدائی، کبھی خدا ہم نوا ملا ہے
اسے تو محشر کی دھوپ بھی چاندنی کا ”چولا“
وہ دل جسے تیرے شوق کا آسرا ملا ہے
عطا ہو بخشش وگرنہ دنیا یہ پوچھتی ہے
کہ بول پیاسے تجھے سمندر سے کیا ملا ہے؟
مری نگاہوں میں منصب و تاج و تخت کیا ہیں؟
کہ فقر تیرے کرم سے بے انتہا ملا ہے
یہ ناز ہے امتی ہوں میں اس نبی4 کا محسن
جسے نواسہ حسین4 سا لاڈلا ملا ہے
.
شبیرؑ کربلا کی حکومت کا تاجدار
وحدت مزاج، دوش نبوت کا شہسوار
ہے جس کی ٹھوکروں میں خدائی کا اقتدار
جس کے گداگروں سے ہراساں ہے روزگار
جس نے زمیں کو عرش کا مقدر بنا دیا
ذروں کو آفتاب کا محور بنا دیا
وہ جس کی بندگی میں سمٹتی ہے داوری
کھولے دلوں پہ جس نے رموز دلاوری
لٹ کر بھی کی ہے جس نے شریعت کی یاوری
جس نے سمندروں کو سکھائی شناوری
وہ جس کا غم ہے ابر کی صورت تنا ہوا
صحرا ہے رشک موجہ کوثر بنا ہوا
جس کی خزاں بہار گلستان سے کم نہیں
جس کی جبیں لطافت قرآن سے کم نہیں
جس کا اصول حکمت یزداں سے کم نہیں
جس کی زمیں خلد کے ایواں سے کم نہیں
وہ جس کی پیاس منزل آب حیات ہے
وہ جس کا ذکر آج بھی وجہ نجات ہے
وہ کہکشاں جبیں وہ ذبیح فلک مقام
جس نے جبین عرش پہ لکھا بشر کا نام
جس نے کیا ضمیر بقا میں سدا قیام
جس کی عنایتوں کو سخاوت کرے سلام
نوک سناں کو رتبہ معراج بخش دے
ذروں کو جو فلک کا حسیں تاج بخش دے
کنکر کو در بنائے کہاں کوئی جوہر
ایجاد کی حسینؑ نے یہ کیمیا گری
بخشی ہے یوں بشر کو ملائک پہ برتری
بچوں کو ایک پل میں بناتا گیا جری
وہ جس نے شک کو حق کا قرینہ سکھا دیا
جس نے بشر کو مر کے بھی جینا سکھا دیا
جو میر کاروان مودت ہے وہ حسینؑ
جو رازدار کنز حقیقت ہے وہ حسینؑ
جو مرکز نگاہ مشیت ہے وہ حسینؑ
جو تاجدار ملک شریعت ہے وہ حسینؑ
وہ جس کا عزم آپ ہی اپنی مثال ہے
جس کی ”نہیں“ کو ہاں میں بدلنا محال ہے
مولا، تو جی رہا ہے عجب اہتمام سے
سمجھے ہیں ہم خدا کو بھی تیرے کلام سے
کرنیں وہ پھوٹتی ہیں سدا تیرے نام سے
کرتے ہیں تیرا ذکر سبھی احترام سے
پایا ہے وہ مقام ابد تیرے نام نے
آیا نہ پھر یزید کوئی تیرے سامنے

کراچی اور متعدد شہروں کی امام بارگاہوں میں مجالس کے اختتام پر یہ دعائیہ کلام پڑھنے کی روایت قابل صد ستائش اور باعث خیر و برکت ہے۔

دعائیہ کلام۔
اے رب جہاں! پنجتن پاک کے خالق
اس قوم کا دامن غم شبیر سے بھر دے
بچوں کو عطا کر علی اصغر کا تبسم
بوڑھوں کو حبیب ابن مظاہر کی نظر دے
کم سن کو ملے ولولہ عون و محمد
ہر اک جواں کو علی اکبر کا جگر دے
ماؤں کو سکھا ثانی زہرا کا سلیقہ
بہنوں کو سکینہ کی دعاؤں کا اثر دے
مولا تجھے زینب کی اسیری کی قسم ہے
بے جرم اسیروں کو رہائی کی خبر دے
جو چادر زینب کی عزادار ہیں مولا
محفوظ رہیں ایسی خواتین کے پردے
جو دین کے کام آئے وہ اولاد عطا کر
جو مجلس شبیر کی خاطر ہو وہ گھر دے
یا رب! تجھے بیماری عابد کی قسم ہے
بیمار کی راتوں کو شفایاب سحر دے
مفلس پہ زر و لعل و جواہر کی ہو بارش
مقروض کا ہر قرض ادا غیب سے کر دے
غم کوئی نہ دے ہم کو سوائے غم شبیر
شبیر کا غم بانٹ رہا ہے تو ادھر دے

محسن نقوی
ولادت : 5۔ مئی 1947۔ ڈیرہ غازی خان شہادت : 15۔ جنوری 1996۔ لاہور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments