پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار کون ہے؟


پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا ذمے دار ہے کون؟ عالمی طاقتیں، سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ، یا خود ارباب سیاست؟ اس سوال کا جواب پاکستان کی مختصر تاریخ میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

آج سے 75 سال قبل پاکستان دنیا کے نقشے پر نمو دار ہوا۔ اس سے قبل بر صغیر پر مسلمانوں نے مختلف ادوار میں کل پانچ سو سال سے زائد عرصہ تک حکومت کی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی سامراج کی گرفت مقبوضہ علاقوں پر کمزور ہونا شروع ہو گئی تو تاج برطانیہ نے دیگر کالونیوں کی طرح ہندوستان کو بھی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

اس وقت مسلمانوں کے قائدین نے ایک علیحدہ ملک بنانے کا سوچا ورنہ مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں ایک اقلیت کے طور پر رہنا پڑتا۔ لہٰذا انھوں دو قومی نظریہ پیش کر دیا۔ جس کے مطابق بر صغیر میں دو قومیں آباد تھیں اور دونوں کا مذہب، ثقافت اور تاریخ مختلف تھی۔ لہٰذا دونوں کو الگ الگ ممالک میں رہنا چاہیے۔ تاکہ وہ اپنی اپنی ثقافت کے مطابق زندگی بسر کر سکتے۔ اس نظریے پر آزادی کی تحریک چلا کر نہ صرف مسلم لیگ نے انتخابات جیتے بلکہ ایک علیحٰدہ ملک بھی حاصل کر لیا۔

یہ الگ بات کہ جب تک ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی اس وقت تک ہندوستان میں ایک ہی قوم تھی جس میں ہندو مسلم سکھ عیسائی بدھ مت اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی برادریاں مل جل کر رہتی تھیں۔ اور جب علیحٰدہ ملک کی ضرورت پڑی تو دو قومیں پیدا ہو گئیں۔ بہر حال 1947 ء کی تقسیم ہند کے وقت بر صغیر بالخصوص پنجاب میں دو قومی نظریے کی وجہ سے مذہبی منافرت اس قدر پھیل چکی تھی کہ مسلم اور غیر مسلم اپنے اپنے نئے دیس کی طرف کوچ کرنے لگ گئے۔

صدیوں سے شیر و شکر بھائی چارے کے خوبصورت رشتوں میں بندھے افراد ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے لگ گئے۔ اور بر صغیر میں دنیا کا بد ترین انسانی المیہ رونما ہو گیا۔ جس کے دوران ایک سے ڈیڑھ کروڑ لوگ قتل اور دس سے پندرہ کروڑ بے گھر ہو گئے۔ پھر بھی دو قومی نظریے پر عمل نہ ہوسکا کیونکہ پاکستان کی اس وقت کی کل آبادی سے ڈیڑھ گنا زیادہ مسلمان ہندوستان میں ہی رہ گئے تھے۔ بہرحال جیسے تیسے ایک الگ ملک حاصل کر لیا گیا۔ کیونکہ آزادی جیسے بھی حاصل ہو، غلامی سے سو درجے بہتر ہے۔

نوزائیدہ مملکت پاکستان وجود میں آنے کے فوراً گوناگوں مسائل کا شکار تھی۔ جس میں مہاجرین کی آباد کاری، کشمیر کا الحاق، معاشی بد حالی اور آئین سازی اہم مسائل تھے۔ مہاجرین کی آباد کاری ایک طویل مرحلہ تھا جو اپنی رفتار سے کئی سالوں تک جاری رہا۔ معاشی بدحالی کو بھی زراعت کو ترقی دے کر اور ذرائع پیداوار بڑھا کر ہی دور کیا جاسکتا تھا۔ اس کے لئے بھی ٹھوس منصوبہ بندی اور سیاسی استحکام درکار تھا۔ تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے کشمیر کا قدرتی الحاق پاکستان کے ساتھ بنتا تھا۔

اس وقت کے کشمیری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح سے ملاقات کا وقت مانگا کیونکہ چند یقین دہانیوں کے بعد مہاراجہ ریاست کشمیر کو مملکت پاکستان میں ضم کرنے پر تیار تھا۔ (یہ بات مہاراجہ نے ”انسٹرومنٹ آف انیکسیشن“ (معاہدہ الحاق ہند) میں لکھی ہے۔ ) مگر گورنر جنرل کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ مایوس ہو کر سری نگر چلا گیا۔ جبکہ جناح نے کشمیر کے مسئلے کا یہ حل سوچا کہ اس پر فوجی قبضہ کر لیا جائے۔

لہٰذا اکتوبر 1947 ء میں اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ پاکستانی فوج کو سری نگر بھیج کر کشمیر کی راجدھانی پر قبضہ کر لے۔ مگر جنرل گریسی نے ایسا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ جس پر گورنر جنرل نے مجاہدین کو جس میں زیادہ تر پشتونوں کے جتھے شامل تھے مظفرآباد کے راستے سری نگر روانہ کیا تاکہ وہ کشمیر کو گوریلا جنگ کے ذریعے فتح کریں۔ مگر وہ بارہ مولہ کے گرد و نواح میں لوٹ مار اور کشمیری عورتوں کا طواف کرتے رہے۔

سری نگر نہ پہنچ سکے۔ مگر مجاہدین کی پیش قدمی کی خبر جب مہاراجہ کو پہنچی تو اس نے اپنی ریاست بچانے کے لئے ہندوستان سے مدد مانگی جو اس شرط پر دی گئی کہ وہ پہلے ”معاہدہ الحاق ہند“ پر دستخط کرے۔ یوں 27 اکتوبر 1947 ء کو ہندوستانی فوج نے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ کشمیر کا مسئلہ اب تک حل طلب ہے اور اس کے پیچھے ایک سیاست دان، بانی پاکستان اور گورنر جنرل کا غلط فیصلہ تھا۔

پیدائش کے بعد نوزائیدہ پاکستان کا آئین دس سال تک نہ بن سکا۔ 1953 ء میں پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے آئین کا مسودہ تیار کر لیا تھا مگر اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے 1954 ءمیں آئین پاس ہونے سے قبل ہی اسمبلی توڑ دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نئے آئین میں گورنر جنرل کے اختیارات کو کم کر دیا گیا تھا۔ نو زائیدہ مملکت کی بد قسمتی کہ اعلٰی عدلیہ کے ایک جج نے ”نظریہ ضرورت“ کے تحت گورنر جنرل کے غیر آئینی اقدام کو تحفظ دے کر آنے والے وقتوں میں طالع آزماؤں کے حوصلے بلند کر دیے۔

پاکستان میں پہلا مارشل لاء پاکستان کے پہلے سویلین صدر سکندر نے 7 اکتوبر 1958 ء کے حکم پر لگایا گیا۔ جب انھوں نے پاکستان کے دو قبل بنائے آئین کو معطل کر کے اس وقت کے وزیراعظم فیروز خان نون کی حکومت کو ختم کر دیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل دو سال کے عرصے میں ( 1956 ء۔ 1958 ء ) سیاسی کشمکش اور ابتری کی یہ حالت تھی کہ دو سال میں چار وزرائے اعظم تبدیل ہو چکے تھے۔

اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان نے جو سویلین صدر کے حکم پر اب مارشل ایڈمنسٹریٹر بن چکے تھے ملک کے وسیع تر مفاد میں اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا دو گیارہ سال تک رہا۔ اس دور میں پاکستان کے دو بڑے ڈیم بنے، بجلی گھر بنے، بیراج بنے، دارالخلافہ اسلام آباد میں منتقل اور اسلام آباد جیسا شہر بسایا گیا۔ سیاسی اصلاحات ہوئیں۔ 1962 ء کا آئین بنا۔ معاشی اصلاحات ہوئیں، ملک کی سالانہ پیداواری شرح نمو 7 فی صد تک بھی ریکارڈ کی گئی۔ زرعی اصلاحات ہوئیں اور سیاسی استحکام رہا اور ملک نے معاشی طور پر ترقی کی۔

گیارہ سالہ طویل اقتدار کے بعد ایوب خان نے اپنے عہدے سے استعفٰی دے کر اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ جنھوں نے ملک میں دوسرا مارشل لاء لگا کر اپنے آپ کو مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر اور پھر صدر بنا لیا۔ جو کہ ایک فاش غلطی تھی۔ مگر جنرل یحیٰی نے اقتدار کو طول دینے کی بجائے ملک میں پہلی دفعہ شفاف ترین انتخابات کروائے۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمٰن کی ہٹ دھرمی اور ہوس اقتدار نے مشرقی پاکستان میں آزادی کی تحریک کو مزید ہوا دی۔

عوامی لیگ جیت چکی تھی اگر اقتدار عوام کے نمائندوں کے سپرد کر دیا جاتا تو پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا۔ مگر بھٹو صاحب یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن بھی بھٹو کے مشورے اور فوجی آمر کے حکم پر ہوا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی فوج کو مشرقی پاکستان میں تاریخی شکست اور ہزیمت اٹھانی پڑی۔ پاکستان ٹوٹ گیا۔ دو قومی نظریہ دفن ہو گیا۔

ملک میں تیسرا مارشل لاء اپریل 1977 ء میں پھر ایک سولین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا جو اگرچہ جزوی تھا مگر اقتدار بچانے کے لئے تھا۔ اس کے بعد جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف کے مارشل لاؤں کا کوئی جواز نہ تھا۔ لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ فوجی ادوار میں ملک میں امن اور معاشی ترقی ہوئی۔ مگر آمروں کو طالع آزمائی کی راہ بھی سیاست دانوں اور عدلیہ ہموار کی تھی۔ ہر مارشل لاء کے نفاذ پر مٹھائیاں بھی سیاست دان ہی تقسیم کرتے ہیں۔

اور پھر آمروں کو سیاست کی پتلی گلی سے نکلنے کا راستہ بھی سیاست دان ہی مہیا کرتے آئے ہیں۔ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوگی کہ موجودہ تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائدین ان لوگوں میں شامل ہیں جو آمروں کے سامنے سجدہ ریز رہے۔ تاریخی تناظر میں ہمیشہ سیاست دانوں نے ہی فوجی جرنیلوں کو اپنی نا اہلی اور بد عنوانی کی بھگی پر بٹھا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا۔ سیاسی عدم استحکام میں فوجی آمروں کو قطعی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو یہ غیر قانونی اور غیر آئینی راستہ اولین کس نے دکھایا؟

آج بھی یہ کھیل جاری ہے۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کی حکومت اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے عدم اعتماد کا شکار ہو گئی۔ مگر اس کی قیادت نے اس بات کو تسلیم کرنے کی بجائے بیرونی سازش اور اندرونی مداخلت کا بیانیہ ایجاد کر لیا۔ اور سیکورٹی اداروں کے خلاف میڈیا میں مہم چلا رکھی ہے اور احتجاجی، انتقامی اور گالی گلوچ کی سیاست کا ڈھول گلے میں ڈال رکھا ہے۔ وہ فوج کو مداخلت پر اکسا رہے ہیں۔ اور افسوس کی بات ہے کہ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ان کی ہمنوا بن گئی ہے۔ ملک کے لیے اچھا ہو گا کہ وہ ایسا نہ کریں۔ ان کو عوام نے موقع دیا تھا۔ وہ ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکے۔ اس بات کو تسلیم کر لینے میں کیا حرج ہے؟ اپنی توانائی احتجاج پر صرف کرنے کی بجائے آئندہ انتخابات کے لائحہ عمل پر لگائیں۔

2008 ء کے بعد سے فوج نے بڑی کوشش سے اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھا ہوا ہے۔ اب وقت بدل چکا ہے۔ اب دنیا میں فوجی انقلاب قابل قبول نہیں۔ لہٰذا اب کسی فوجی مداخلت کا امکان نہیں ہے۔ پاکستان کی عوام کا بھی سیاسی و شعوری ارتقاء ہو چکا ہے۔ اور یہ بات سیاست دانوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ کیونکہ عوام اب صرف اور صرف یہ دیکھیں گے کہ کون ان کے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے کی سعی کر تا ہے۔ سیاست دانوں کو چاہیے کہ نفرت اور انتقام کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں۔ ملک کے ساتھ وفاداری، اپنے کام کے ساتھ دیانتداری اور پوری جانفشانی سے پاکستان کی بے لوث خدمت کریں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس میں عوام کی اور پاکستان کی خوش حالی کا راز مضمر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments