لاہور کا سقراط


ڈاکٹر خالد سہیل اور محترمہ عظمیٰ عزیز صاحبہ کی کتاب ہے۔ جدید طرز کے خطوط اور کتاب کے ہیرو کے ادبی اور فلسفیانہ کالمز اس میں شامل ہیں۔

دو سو چودہ صفحات پر مشتمل ظہیر کاشمیری صاحب کے ایک کالم کے عنوان سے اخذ کردہ نام والی کتاب پڑھتے محسوس ہوا جیسے سفر الٹا چل نکلا ہو۔ کتاب پڑھتے سمے میرے ہاتھ میں بھی سچ کی پاداش میں زہر کا پیالہ ہو۔

کردار کہانی سے نکل کر اس لمحے میں داخل ہو گیا جب وہ زندہ تھا۔

میں نے کبھی کسی کا پوسٹ مارٹم ہوتے نہیں دیکھا۔ میں نے کبھی ڈر پیدا کرنے والی فلم دیکھنے کا تصور نہیں کیا۔ میں نے کبھی کوئی انقلاب لانے والے نظریہ کی کتاب نہیں پڑھی۔ میرے دل میں سرخوں سے تعلق رکھنا خطرے کا سبب ہے۔ میں مردوں اور عورتوں کی دوستی کی قائل نہیں کیونکہ مجھے غیرت کے سبب قتل ہونے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ مجھے سنگسار ہونے کا خوف ہے۔ میرے ذہن پر وہ سارے پوسٹر تازہ ہیں جو ضیا الحق کے دور میں دکانوں کی دیواروں پر چسپاں ہوتے تھے۔ اس سے پہلے میں نے کبھی ادبی دانشور کو انقلابی دانشور کے کردار میں ڈھلنے کی کوئی کہانی نہیں پڑھی۔

مجھے بہادر ہونے سے ڈر لگتا ہے، سچ بولنے سے ڈر کیونکہ میرے لاشعور میں سچ کو زہر کے پیالے سے محبت کو سنگسار ہونے سے، آشنائی کو بے حیائی سے جوڑ دیا گیا۔ میں عملی طور پر محبت کے لیے بانجھ سرزمین پر پلی بڑھی۔

مجھے اس بات سے بھی ڈر لگتا ہے کہ میں مذہبی کتابیں پڑھوں کیونکہ میرے والد مرحوم کو اندیشہ تھا کہ زیادہ مذہبی رجحان رکھنے والے ذہنی توازن کھو دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ میں کارل مارکس کو پڑھوں وہ مجھے یا میرے بھائی کو انقلابی ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں مغربی فلسفیوں سے متاثر ہو کر مکمل طور پر دہریہ بن جاؤں انہیں شدت پسندی سے ڈر لگتا تھا۔ وہ مجھے مثبت روایتی کردار میں ڈھلا ہوا ایک انسان دیکھنا چاہتے تھے۔

جب دانشور عزیز الحق نے اپنے ابا کی بے بسی کی تصویر دکھائی جب وہ رات گئے گھر لوٹتے تو مجھے ایسے لگا جیسے وہ میرے بابا ہوں جن کا بیٹا ان کی بات نہ سن رہا ہو جو اپنے بیٹے کو مغرب کے بعد باہر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

مجھے ڈر تھا کہ آج عزیز الحق کی زبانی فلسفے پڑھتے وہ مجھے دیکھ نہ لیں میں نے بار بار ادھر ادھر جھانکا اور خود کا مذاق اڑایا بھلا مرے ہوئے انسان باہر آ سکتے ہیں تاوقتیکہ انہیں ڈاکٹر خالد سہیل جیسا کوئی مسیحا قبر کشائی کر کے زندہ نہ کر دے۔

میں نے ڈاکٹر عزیز الحق صاحب کے الفاظ میں دھڑکتے افکار کو زندگی میں ڈھلتے دیکھا تو یقین آ گیا کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جب چاہے کسی کو زندہ کر دے۔ ان کا کالم جس میں وہ اپنا تعارف کراتے ہیں ادبی شہ پارہ ہے۔

الفاظ بارے ان کی باتیں پڑھ کر عجیب سا اطمینان محسوس ہوا۔ ادب کے بارے میں آپ لکھتے ہیں
”ادب جذبات و احساسات کا اظہار ہے“
لاہور کا سقراط کا دوسرا حصہ ان کے ادبی کالموں پر مشتمل ہے اپنے کالم میں فرماتے ہیں
”ہم بنی نوع انسان ایک مشترکہ محسوساتی، موجوداتی کائنات میں رہتے بستے ہیں۔“

محترمہ عظمیٰ عزیز نے ڈاکٹر خالد سہیل کی سنگت میں اپنے والد سے بعد از مرگ قربت حاصل کی مجھے لگا میں بھی انگلی تھام کے ساتھ ساتھ ہوں میری روح کبھی عظمیٰ میں حلول ہوئی کبھی ان کے چاچا میں تو کبھی رابعہ سنبل کے کردار کو سمجھنے میں تو کبھی سعید بن کر حسد کی آگ میں جل کر خاکستر ہوئی۔ کبھی جمیلہ صاحبہ کی طرح روشن خیال بنی مگر بیوگی کا کرب سہا۔ بہت دیر تلک ان کے بھائی بادشاہ کی طرح دیوانگی میں لبرٹی چوک میں سپاہی کے گلے لگ کے روتی رہی۔ آنکھوں سامنے دو قتل کا سانحہ سہنا آسان تھوڑی ہوتا ہے جب سارے سچ گدلے ہو جائیں۔

کبھی ڈاکٹر سہیل کی انسان دوستی اور مسیحائی کے طریقے پر سوال اٹھائے۔ کیا ڈاکٹر خالد سہیل نے عزیز الحق صاحب کی شخصیت جو کہ ایک انقلابی دانشور تھے میں خود کو دیکھا، ان کو محسوس ہوا کہ وہ بھی ایسے ہی تاریک راہوں میں مارے جا سکتے تھے۔ شاید بہت بار انہوں نے سوچا کہ اگر ان کے پیارے چچا عبدالمتین صاحب نے ان۔ کی راہنمائی نہ فرمائی ہوتی تو وہ زیست کو کہیں ہار چکے ہوتے۔

گو یہ سب اضافی باتیں ہیں۔ میں ایک عورت جس کا کوئی تعلق کسی کردار سے نہیں آخر کیوں لاہور میں رہتے ہوئے انقلابیوں دانشوروں فلسفیوں اور نفسیات دانوں ادیبوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہوں۔

سارتر جیسے فلسفیوں سے میرا کیا لینا دینا۔ عظمیٰ عزیز کی طرح میرا ایمان تو پکا ہے، زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جب چاہتا ہے اپنے بندوں کو عزت دیتا ہے۔

ایسے محسوس ہوا ناحق قتل ہو جانے والے صوفی کی معصوم موت کا ازالہ ہو گیا۔

میں نے انیس سو ساٹھ اور ستر میں جا کر ڈاکٹر عزیز الحق کے نظریات میں انسان دوستی، شعور کو جانچا پرکھا۔ آزاد خیالی پر ان کی دقیق معلومات کا مطالعہ کیا خواب اور شاعری میں کیا فرق ہے مجھے معلوم۔ پڑا۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا میں کیا ہو رہا تھا سب پڑھا۔ سیاسی نظریات اور تحریکوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ سیاست کے اتار چڑھاؤ۔ پاکستان میں ترقی معکوس کی تاریخ جانی۔

ڈاکٹر عزیز الحق فرماتے ہیں۔ سائنس اور ادب شعور ذہن کی عظیم تخلیقات ہیں۔ مرد اور عورت کے بیچ کس طرح کا عزت اور احترام مساوات کا رشتہ ہونا چاہیے۔ لاہور کا سقراط ساری باتیں سچ کہتا تھا زہر کا پیالہ تو اسے پینا تھا۔

میں تو پہلے سے کہتی ہوں عظمیٰ عزیز یہ ڈاکٹر نفسیات کا ڈاکٹر نہیں بلکہ قبروں پہ لگے کتبوں پر لکھے ناموں پر پڑی دھول مٹی اور گرد صاف کرنے والا گورستان کا کارندہ ہے۔ وہ مرے ہوئے لوگ بعض اوقات اجسام میں دفن ہوتے ہیں اور بعض اوقات مقبروں میں یہ ہر دو کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔

خدا ان کو اور سارے دانشوروں مسیحاؤں اور انقلابیوں کو اپنے امان میں رکھے چاہے وہ وجودیت پر یقین رکھیں چاہے روحانیت پر آخر دنیا میں اپنا سچ کہنے کی آزادی تو ہر ایک کو ہونی چاہیے۔ کب تک سقراط کی سنت چلتی رہے گی۔ سچ کہنے والے کو کربلا کا سفر کیوں کرنا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ زمان و مکان سے آگے کیوں نکل جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments