(1) عربی سے طب تک


دسمبر 1965 ء کے پہلے ہفتے تک ہمارا میٹرک کا کورس اختتام کو پہنچا۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں ہمارا دسمبر ٹیسٹ (Sent Up Test) یعنی آزمائشی امتحان مکمل ہو گیا اور میٹرک کے امتحان کے لئے لاہور بورڈ میں داخلے کے لئے کاغذات تیار کیے جانے لگے۔ میٹرک کا سالانہ امتحان مارچ میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کی وجہ سے یہ چھے ہفتے ملتوی ہو کر مئی کے پہلے ہفتے شروع ہونا تھا۔

جنرل سائنس ہمیں ماسٹر قیصر پڑھایا کرتے تھے۔ کسی وجہ سے دسمبر 1965 ء کے تیسرے ہفتے سے پندرہ دن کے لئے وہ چھٹی پر چلے گئے۔ ان کی جگہ چند دنوں کے لئے ہماری کلاس میں ماسٹر نسیم الحسن جو فزکس کے استاد تھے کو بھیجا گیا۔ نسیم الحسن نوجوان تھے۔ دو سال قبل وہ ہمارے سکول میں بی ایس سی کرنے کے بعد آئے تھے۔ دینہ کے قریب ایک گاؤں ’ڈھوک اعوان‘ سے تھے۔ کھلنڈری اور باغی سی طبیعت پائی تھی۔ چوں کہ وہ ہمارے گروپ کو پڑھاتے نہیں تھے اس لئے وہ ہم میں سے کسی لڑکے کو نہیں جانتے تھے۔ میں بھی صرف ایک دن ان کی کلاس میں گیا تھا لہذا ان سے کوئی جان پہچان نہیں تھی۔ انہوں نے کلاس میں ایک لڑکے سے جنرل سائنس کی کتاب لی اور اسے ہاتھ میں لے کر کہنے لگے : یہ کیا ہے؟ یہ کس طرح کی سائنس

ہے۔ اسے سائنس کون کہتا ہے؟ انہوں نے از راہ مذاق کتاب اپنے ہاتھ سے میز پر گرائی، کتاب کا جو صفحہ کھل کر سامنے آیا اسی موضوع پر انہوں نے

پوری کلاس سے سوال کر دیا۔ پہلی قطار سے ہر ایک سے پوچھتے پوچھتے جب مجھ تک پہنچے تو میں اپنی سیٹ پر کھڑا ہو گیا۔ شاید کوئی بھی انہیں تسلی بخش جواب نہیں دے پایا تھا اس لئے اس وقت تک آدھی کلاس کھڑی ہو چکی تھی۔ میں درمیان کی قطار میں ذرا آگے بیٹھا تھا۔ میں نے جواب دے دیا۔ انہوں نے کتاب کو دو مرتبہ اور اسی طرح میز پر پھینکا اور سوال کیا۔ جب تیسری مرتبہ بھی بات مجھ پر آ کر ختم ہوئی تو انہوں باقی سب طلبا کو بٹھا دیا اور مجھے کھڑا رکھا۔ اب وہ کتاب کو کھولتے جو باب کھلتا اس کے متعلق مجھ سے سوال کر دیتے۔ میں بڑے آرام اور اطمینان سے انہیں جواب دے دیتا۔ انہوں نے پانچ مرتبہ ایسے کیا۔ ہر بار میں نے انہیں درست جواب دیا۔ انہوں نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور مجھ سے میرا نام پوچھنے کے بعد کہا:

ابھی جو امتحان ہوا ہے اس میں آپ کے مارکس کتنے آئے ہیں۔
900 میں سے 720، میں نے کہا۔
کلاس میں فرسٹ کون آیا ہے؟
میں۔
آپ کو کس احمق نے مشورہ دیا تھا کہ آپ جنرل سائنس پڑھیں۔ آپ میری کلاس میں کیوں نہیں آئے؟
میں عربی پڑھنا چاہتا تھا۔ عربی کے ساتھ میں فزکس اور کیمسٹری نہیں رکھ سکتا تھا۔
کیا عربی کا کورس ختم ہو گیا ہے یا ابھی کچھ باقی ہے؟
ختم ہو گیا۔
کیا عربی کا امتحان پاس کرنا ضروری ہے؟
نہیں، یہ ضروری نہیں۔
تو آپ آئیں میرے ساتھ، میں پرنسپل سے بات کرتا ہوں۔

وہ مجھے ساتھ لے کر وائس پرنسپل، چوہدری نورالحسن، جو شاید غلام محمد بٹ کی عدم موجودگی میں پرنسپل کے فرائض سر انجام دے رہے تھے، کے پاس چلے گئے۔ سردیوں کا موسم تھا۔ وہ باہر سکول کے کواڈرینگل کے لان میں بیٹھے تھے۔ ایک ہی علاقے کے ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان قدرے بے تکلفی تھی۔ نسیم الحسن نے چھوٹتے ہی کہا:

چوہدری صاحب! یہ کیا ہو رہا۔ کیا آپ اس لڑکے کو جانتے ہیں؟
ہاں میں جانتا ہوں۔
اگر آپ اسے جانتے ہیں تو اسے میری کلاس میں کیوں نہیں بھیجا گیا؟
ہم سب نے اسے بہت سمجھایا تھا مگر یہ مانتا نہیں تھا۔ ہم اسے مجبور نہیں کر سکتے تھے۔
کیا میٹرک کے داخلہ فارم بورڈ کو بھجوا دیے گئے ہیں یا ابھی بھیجنے ہیں؟
ابھی تیار ہو رہے ہیں بھیجے نہیں گئے۔

تو پھر آپ اس کا داخلہ سائنس کے مضامین میں بھیجیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بورڈ کے امتحان سے پہلے پہلے یعنی چار ماہ میں، میں اسے یہ مضامین پڑھا دوں گا۔

وہ تو ٹھیک ہے۔ چار ماہ کی پڑھائی سے یہ پاس تو ہو جائے گا مگر شاید نمبر اتنے اچھے نہ آ سکیں جس کی ہمیں اس سے توقع ہے۔ سکول کی شہرت اور وقار کا معاملہ ہے جس کا انحصار اس کی کارکردگی پر ہے۔ اگر دو سال پہلے یہ ہماری بات مان لیتا تو آج یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔

نسیم الحسن اس جواب سے مایوس ہو کر خاموش ہو گئے اور بات یہیں پر ختم ہو گئی۔ لیکن اگلے چند دن وہ مجھے بار بار میری غلطی کا احساس دلاتے رہے۔ میں حیران ہوتا تھا کہ ان سے میرا کوئی تعلق ہے نہ واسطہ پھر انہیں مجھ سے اتنی ہمدردی کیوں ہے۔

اب میں پندرہ سال کا ہو چکا تھا اور اپنے نفع نقصان کو کسی قدر سمجھنے لگ پڑا تھا اور ذہن میں مستقبل کا دھندلا سا خاکہ بھی بننا شروع ہو گیا تھا۔ میں نے

نہایت ہی سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا کہ آگے مجھے کیا کرنا ہے۔ اگرچہ میرا پسندیدہ مضمون علم ریاضی تھا، اس کے باوجود میرا رجحان انجینیئرنگ کی طرف نہیں تھا۔ ہفتہ عشرہ بعد عطا اللہ شاہین نے دسمبر کی چھٹیوں پر جانے سے پہلے پوری جماعت سے کہا کہ آپ لوگ دس دن بعد جب واپس سکول آئیں گے تو نیا سال شروع ہو چکا ہو گا۔ اس دوران آپ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں اور یہ فیصلہ کریں کہ آپ نے اپنی زندگی میں کرنا کیا ہے۔ جب ایک بار فیصلہ ہو جائے تو پھر پوری دل جمعی اور تن دہی سے اس کی تکمیل پر لگ جائیں۔ میں نے اسی دن فیصلہ کر لیا کہ میں نے ایف ایس سی کر کے میڈیکل کالج میں داخلہ لینا ہے، چاہے مجھے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑ جائے۔ میں نے اپنے اس فیصلے کا ذکر عطاءاللہ شاہین سے کیا اور نہ ہی نسیم الحسن سے۔ نسیم الحسن اگلے چار پانچ ماہ، جب تک میں سکول میں رہا، مجھے ملتے تو میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ میں سائنس کے مضامین پڑھنے کی تلقین کرتے۔

عربی کی کلاس کے لیے کوئی کمرہ مخصوص نہیں کیا گیا تھا۔ چھٹی جماعت کے کمرے اور سائنس روم کے درمیان آدھے کمرے کے برابر خلا تھا یعنی اس سہ دیواری پر چھت تو تھی مگر برآمدے کی طرف دیوار یا دروازہ نہیں تھا۔ اسے ہی عربی کے کلاس روم کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ ہم لوگ ایک نیم دائرے میں بیٹھ جاتے۔ لڑکیاں ایک کرسی کی جگہ خالی چھوڑ کر ایک طرف بیٹھ رہتیں اور دوسرے نصف قطر کی قوس پر مولوی صاحب۔ یہ اگرچہ عارضی بندوبست تھا مگر پانچ سال تک عربی کے کلاس روم کا انتظام نہ ہو سکا۔ ہمارے ساتھ تین لڑکیاں رفعت، عندلیب اور پروین بھی عربی پڑھتی تھیں۔ بچپن اور معصومیت کا دور تھا۔ ہم ان سے بات چیت کر لیا کرتے تھے۔ ان دنوں ہم آٹھویں جماعت میں تھے۔ ایک دن مولوی صاحب کو آنے میں خاصی دیر ہو گئی۔ ہماری باتوں کا رخ جنگلی جانوروں کی طرف مڑ گیا۔ شیر ’چیتے، ہاتھی، بھیڑیوں اور لگڑ بگھوں کے نام ہم نے سن رکھے تھے اور ان کے بارے میں کتابوں میں کچھ پڑھا بھی ہو گا یا پھر اپنے بڑوں سے ان درندوں کی خوف ناک داستانیں سن رکھی تھیں۔ اس وقت تک یہ درندے کم از کم میں نے چڑیا گھر میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ میرا مشاہدہ زیادہ سے زیادہ اپنے علاقے میں پائے جانے والے گیدڑ، لومڑی اور تماشا دکھانے والوں کے پاس بندر اور بھالو تک محدود تھا۔ ثناءاللہ* نے شیر اور چیتے کے بارے میں کوئی بات کی۔ رفعت نے اپنے چچا اور ہاتھی کی کہانی سنانی شروع کردی۔ رفعت تھی تو ہماری ہی عمر کی مگر ذرا بھارے جسم کی وجہ سے ہم سے سال دو سال بڑی لگتی تھی۔ کہنے لگی میرے چچا افریقہ میں کام کرتے تھے۔ ایک دن وہ کار پر کہیں جا رہے تھے کہ ان کے راستے میں ایک ہاتھی آ گیا۔ انہوں نے کار روک لی اور اس کے گزر جانے کا انتظار کرنے لگے۔ ہاتھی آگے جانے کی بجائے ان کی کار پر آ کر بیٹھ گیا۔ میرے چچا بہت ڈر گئے لیکن کر کچھ نہیں سکتے تھے لہذا کار میں ہی بیٹھے رہے۔ کچھ دیر کے بعد ہاتھی خود ہی اٹھ کر چلا گیا اور وہ اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔ ہاتھی کے بارے میں میرا علم‘ ہ ’سے ہاتھی تک ہی محدود تھا یا پھر اتنا پتہ تھا کہ ہاتھی بہت بڑا اور بھاری جسم و جثہ کا جانور ہوتا ہے۔ کار کی مضبوطی کے بارے میں صرف قیاس ہی کر سکتا تھا کہ اسے بھی میں نے صرف دور سے ہی دیکھ رکھا تھا۔ میں نے کہا:

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments