سیاسی کارکن یا عمران کے ذہنی و جسمانی غلام
جب سے عمران خان کی حکومت گئی ہے تب سے تحریک انصاف کے کارکن جا بجا انسانوں کے ساتھ الجھنے کا بہانہ تلاشتے ہیں۔ ان کو دن رات نیند نہیں آتی چوروں کو حکومت کیسے مل گئی۔ حالانکہ انہوں نے اپنی حماقتوں سے پلیٹ میں رکھ کر شہباز شریف کو حکومت پیش کی ہے۔ ورنہ یہ شخص الیکشن کے بعد بھی اس کرسی پہ نہیں آ سکتا تھا۔
اس ایک ماہ میں نوٹ کیا کہ آخر کون کون سے نسلی اوصاف ہیں تحریک انصاف کے کارکنوں میں تو سب سے پہلے جو اندازہ ہوا وہ ڈپریس لڑکیاں جن کو والدین نے حد سے زیادہ پردہ داری میں پالا ہے دوم جن کو مکمل نے پردگی میں پالا ہے دونوں کے ہاں تبدیلی کا یہی مطلب تھا کہ آزادی مل جائے گی کچھ ایسا ماحول بن جائے گا۔
مرد تو مانگ ہی ایسی آزادی رہا ہے وہ تو کب سے اس جنگ مین ہے کب مادر پدر آزادی ملے اور شادی سے جان چھوٹے
جن گھرانوں میں تعلیم زیادہ تھی اور جن میں بالکل نہیں تھی وہ لوگ سمجھ رہے تھے سب تبدیل ہو جائے گا۔
گویا دو انتہاؤں کے لوگ اس سازش ذات میں مبتلا تھے اور ہیں۔
اور اب ان لوگوں نے جو بنیادی طور پہ اقلیت میں ہیں اگر اکثریت میں ہوتے تو اپنی سیٹیں خود پوری کر کے حکومت بناتے۔ اب اقلیت تو خالی برتن کی طرح ہی بجتی ہے خود ان کی زندگی میں تو بے سکونی لکھی جا چکی ہے مگر عام آدمی کا جینا بھی حرام کیا ہوا ہے
جان بوجھ کے جہاں چار لوگ دیکھے لڑنے کا بہانہ، غیر منطقی دلائل جہالت، تقابل، چور، ٹویٹر ٹرینڈ، ہیش ٹیگ اور وہی مصنوعی جملہ باری جو ان کے لیڈر کے اوصاف ہیں۔
ایک سال کی بات ہے الیکشن ہو جانے ہیں ایک سال صبر کر لو۔ کل کسی تحریک انصاف کے کارکن نے ایک دوسری پارٹی کے عام انسان کو مار دیا۔ یہ سیاست نمائی اسی کی دہائی کے بعد ہوئی تھی۔ جو اب مہذب تہذیب میں بدل رہی تھی۔ زبان دانی پہ اکتفا کیا جانے لگا تھا۔
عمران کی خاطر ہم جان بھی دیں گے اور دوسرے کو جان سے مار بھی دیں گے، گھر والوں کا اللہ وارث ہے۔ بے شک اللہ وارث ہے مگر جب ماں اور بہن کو کسی اور پیشے میں پڑ گئیں تب بھی غیرت والی بات مت کرنا، اللہ وارث ہے۔
اور یہ جو انگریزی بولنے والا احساس کمتری ہے تو پھر مارشل لا کیوں برا تھا۔ سارے جرنیل انگریزی بولتے۔ یونیفارم میں کسی خان سے زیادہ ہینڈ سم لگتے ہیں
اگر وہ اس کے باوجود اہل نہیں تو بھئی یہ نا اہل شخص اپنے ہینڈسم ہو نے پہ کیوں نازاں ہے۔ ناتجربہ کار سیاست ہے کہ پہلی بار حکومت آئی اور پہلی بار چلی گئی گویا بانجھ کے گھر اور اولاد ہو جائے، چاہے ذہنی معذور ہو، اس کے لئے کتنی اہم ہوتی ہے۔ یہی پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا ہے۔
دھمکیاں تو بھٹو اور نواز شریف کو بھی ملیں امریکہ سے۔ ایک کو انگریزی آتی تھی ایک کو نہیں۔ ایک نے ایٹم بم کی بنیاد ڈال دی جو عالم نہیں چاہتا تھا۔ دوسرے نے تجربہ کروا کے بتا دیا ہم ایٹمی پاور بن چکے۔
خط کے خبط میں مبتلا ابھی تک یہ سوچ رہے ہیں کہ نواز شریف کو انگریزی نہیں آتی تھی لہذا وہ پڑھ نہیں سکا اور اس نے خط پھاڑ دیا۔
اس سے وزنی تو پھر قطری خط تھا۔
پیارے احمقوں سرکاری ڈاکو منٹ کبھی یوں براہ راست و ذاتی نہ آتے ہیں۔ نہ اس کا جواب ذاتی پیمانوں پہ دیا جاتا ہے۔ ملک کی سلامتی کے لئے کچھ ادب و آداب و طریقہ کار ہو تا ہے یہ منتخب نمایندے ہیں، ملک کے مالک نہیں۔
نوکر ہیں اور نوکر کام نہ کرے تو اپ بھی گھر سے نکال باہر کرتے ہیں۔ اس سے سادہ مثال ہمارے پاس نہیں ہے۔ مگر ہمیں یقین ہے سمجھنے کے لئے جو حس چاہیے نہ وہ تمہارے خان کے پاس ہے نہ اس کے پرستاروں کے پاس۔
زبان کا احساس کمتری جرمن چائنا عرب کو تو نہیں۔ برصغیر کو سو سال کو گئے مگر غلام انگریزی نہیں بھول رہا
اور ہمارے خان صیب والے بس گھر کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ ان کے پرستار ہی ان کے ایٹم بم ہیں۔ جہاں اٹھو بدتمیزی کر دو جہاں اٹھو قتل۔
انسانیت کا وقار نہ تو فٹے منہ طے کرتا ہے نہ فر فر انگریزی بولنے والا بندا۔
ورنہ چارلس ڈکنز کے والد انگریزی آنے کی بنا پر وہ شہرہ آفاق ناول لکھتے اور تمام انگریز بہت ہی بڑے عہدوں پہ ہوتے مگر اتنے عہدے آتے کہاں سے؟
اور آپ کو اگر انگریزی اتی ہے تو آپ نے اس سے پاکستان کے لئے کیا کر لیا ہے؟ انگریزی کو احساس کمتری بناتے ہوئے سوچیں آپ کی نسلیں کب سے انگریزی بول رہی ہیں۔ انگلش میڈیم سکول کب سے بنے ہیں۔
عمران تم نے نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے۔ خیبر سے کراچی تک کی قومی زبان کے زوال کو سوچ دے کے تہذیب پہ ذہنی غلامی کو تازہ کیا ہے۔
تاریخ اب تمہارا انجام خود لکھے گی۔ یہ سب ذہنی غلام آخری رسومات بھی شاید انگریزی میں اسد عمر کی معاشی پالیسی کے ساتھ ادا کریں گے۔
آپ ڈاکٹر پہ جائیں، سڑک پہ ٹریفک جام ہو، کسی مال میں رش ہو، یہ تحریک انصاف کے کارکن ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ جہالت کی انتہا یہ کہ یہ مقابل شرک ہیں۔ اگر اس آیت کو مانتے ہیں کہ عزت دینے والی اللہ کی ذات ہے تو اللہ کے حکم سے ہوا جو بھی یکم رمضان کو ہوا ہے۔ رد کرتے وقت سوچ لیں کہ یہ اللہ کی رضا کے خلاف ہے۔ یہاں عقل کام آئے گی
یہ جو موجودہ وزیر اعظم ہے ایک سال کا مہمان جو برداشت نہیں ہو رہا۔ اس کو پی ٹی آئی نے حکومت شاہی پلیٹ میں اپنے ہاتھ سے رکھ کر پیش کی ہے۔ جس حماقت کو وہ حکمت عملی کہتے ہیں۔ چور ماشاءاللہ سب ہیں۔ لیکن کیا آپ کو اچھا لگے گا آپ کے والد کے باس کا باقاعدہ زنا کا سرٹیفیکٹ ہو؟ اگر نہیں تو آپ کے ملک کے سربراہ کو امریکہ نے یہ کاغذ عدالت سے جاری کیے ہوئے ہے جس کا بدلہ تو اس نے امریکہ سے لینا تھا۔
خواتین اور مرد جن کو ہینڈ سم خبط ہے کسی ہینڈ سم سے شادی کریں اس کی نوکری کاروبار کوئی ہنر نہیں دیکھنا بس ہینڈ سم ہو۔ جب آپ بیٹی دیتے ہوئے ہینڈسم سے زیادہ یہ دیکھتے ہیں کہ نوکری ہو صاحب حیثیت ہو کہ بیٹی بھوکی نہ مرے شریف مہذب گھرانا ہو تو ملک کا فیصلہ کرتے آپ کو یہ سب دکھائی کیوں نہیں دیتا
اب اپ جو مرضی کریں۔ اللہ کی طرف سے جو ہونا تھا ہو گیا یا اللہ کی مان لیں یا خان کا فیصلہ کرنے کے لئے خان کی چند ویڈیوز کافی ہیں۔ اگر بطور مسلم یہ درست ہے تو آپ اپنی جنگ اپنے لیڈر کے ساتھ لڑیں۔
باقی قوم کو پریشان مت کریں اگر دم ہوا تو آپ اگلے الیکشن میں پھر اسی احمق کو ملک کا دیوالیہ کرنے بیٹھا دیکھیں گے۔ ورنہ موت تو برحق ہے سوچیں اس کے بعد آپ موت کے فرشتے سے کیسا سلوک کریں گے۔ ابھی سے پلاننگ کر لیں کہ کیا ہیش ٹیگ چلانے ہیں۔ کیونکہ شیخ رشید اور شہباز گل کے مطابق قاتلانہ حملے ہوں گے۔
چلیں
اب ناچنے کی تیاری کریں یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں آپ نے دھرنا دے کر ناچ گانا کرنا ہے اور شلواریں سوکھنے کے شرم ناک مناظر ایک بار اسلام آباد میں دیکھے جانے ہیں۔ اور یاد رکھیں عمران رہے نہ رہے ملک سلامت رہے گا۔ ہم دیکھتے ہیں آپ کا یہ ڈراما کب تک چلے گا۔
- ساڈے اسلام دا مذاق - 27/02/2024
- کیا یہ وہ بلوچ خواتین ہیں؟ - 23/12/2023
- ماہرہ خان کی دوسری شادی پہ غم زدہ عوام - 06/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).