(1) عربی سے طب تک


میں نے پراجیکٹ ہائی سکول، منگلا، سے پانچویں جماعت کا امتحان پاس کیا تو والد محترم سکول کے ہیڈ ماسٹر، غلام محمد بٹ، سے ملے اور انہیں کہا کہ میرے بیٹے کو عربی پڑھائی جائے۔ اس سے پہلے اس سکول میں عربی پڑھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ ہیڈ ماسٹر نے مولوی محمد حسن کو جو اردو کے استاد تھے لیکن عربی پر بھی دست گاہ رکھتے تھے، عربی پڑھانے پر مامور کر دیا۔ میرے ساتھ آٹھ نو لڑکے اور تین لڑکیاں بھی شامل ہو گئیں اور یوں عربی کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ چھٹی ساتویں اور آٹھویں جماعت تک عربی پڑھتے پڑھتے میری اس مضمون میں دلچسپی بڑھتی چلی گئی، جس میں مولوی محمد حسن کی مجھ پر خصوصی توجہ کا عمل دخل بھی تھا۔ بنا بریں جب میں نے مارچ 1964ء میں آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا تو میں نے نویں جماعت میں بھی عربی پڑھنے پر اصرار کیا۔

آٹھویں جماعت میں ہمارے کلاس ٹیچر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ (ڈبل ایم اے، بی ایڈ) بہت ہی قابل اور شفیق استاد، عطاءاللہ شاہین، تھے۔ جب پہلے دن وہ سکول آئے تو ان دنوں میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا، اگرچہ اس دن وہ دوسرے اساتذہ سے محض تعارف کے لئے آئے تھے مگر اپنی سادہ لوحی میں تہبند باندھے ہی سکول آ گئے تھے۔ آٹھویں سے دسویں تک وہ ہمارے کلاس ٹیچر رہے۔ جوں جوں ہماری جماعت آگے بڑھتی رہی انہیں بھی ساتھ ساتھ ترقی ملتی رہی۔ نویں جماعت میں جب میں نے عربی کا مضمون رکھا تو اس کے ساتھ جنرل سائنس ہی پڑھی جا سکتی تھی انتخابی مضامین کے طور پر فزکس اور کیمسٹری نہیں۔ میں نے ناسمجھی اور قدرے ہٹ دھرمی میں اول الذکر مضامین کا ہی انتخاب کیا۔ اس پر عطاءاللہ شاہین بہت چیں بہ جبیں ہوئے۔ وہ ہر روز مجھے بڑی شفقت اور پیار سے سمجھاتے کہ عربی پڑھ کر آپ کیا کریں گے، اگر آپ میٹرک میں سائنس کے مضامین پڑھیں گے تبھی آپ آگے چل کر میڈیکل یا انجینئرنگ کے شعبے میں جا سکیں گے۔ میرا ایک ہی رٹا رٹایا جواب ہوتا کہ میں قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنا چاہتا ہوں، اس کے لئے عربی زبان پر عبور حاصل کرنا لازمی ہے۔ وہ کہتے آپ عربی بعد میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اگر آپ بر وقت صحیح فیصلہ نہ کر پائے تو بعد میں آپ ساری عمر پچھتاتے ر ہیں گے۔ میری سوئی چوں کہ ایک ہی جگہ اٹک کر رہ گئی تھی اس لئے میں ان کی بات سنی ان سنی کر دیتا اور اپنے موقف پر قائم رہتا۔ یہ سلسلہ دو تین ہفتے تک چلتا رہا۔ ایک دن پوری کلاس کے سامنے انہوں نے کہا آپ میری بات نہیں مانتے کیا آپ نے یہ مقولہ نہیں سنا : ’پڑھیں فارسی بیچیں تیل‘ ۔ آپ عربی پڑھ کر تیل بھی نہیں بیچ پائیں گے۔ یہ سن کر میں کچھ ڈانواں ڈول سا ہو گیا اور دوسرے دن عربی کے گھنٹے میں فزکس کی کلاس میں جا بیٹھا۔ عربی کلاس میں میری عدم موجودگی پر میرے دوسرے ہم سبق ساتھی بھی سائنس پڑھنے پر پر تولنے لگے۔ اس پر مولوی محمد حسن خاصے پریشان ہوئے۔ دوسرے دن وہ مجھے ملے اور مجھ سے کلاس میں نہ آنے کی وجہ پوچھی۔

میں فزکس کی کلاس میں چلا گیا تھا، میں اب سائنس پڑھنا چاہتا ہوں، میں نے کہا۔

سائنس ایک بے دین سا مضمون ہے۔ اسے پڑھنے والے دین سے لا تعلق اور کفر کے قریب ہو جاتے ہیں۔ آپ ماشا اللہ دین کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور عربی میں بہت اچھے ہیں۔ آپ اگر عربی پڑھتے رہے تو دین و دنیا دونوں میں بہت ترقی کریں گے۔

میں ان کی باتیں سن کر ڈر گیا کہ میں کہاں کفر کی طرف چل پڑا تھا۔ چنانچہ میں پھر سے عربی پڑھنے لگ پڑا۔ شاہین صاحب نے جب دیکھا کہ یہ لڑکا میری بات نہیں سنتا تو ایک دن وہ مجھے پکڑ کر پرنسپل کے پاس لے گئے۔ پرنسپل ان دنوں نذر حسین بیگ تھے جو آرمی ایجوکیشن کور کے ایک ریٹائرڈ میجر تھے۔ سال بھر پہلے سکول کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے جب محکمہ نے ’ہیڈ ماسٹر‘ کے عہدے کو اپ گریڈ کر کے ’پرنسپل‘ کیا تو اس پر پہلا تعین این ایچ بیگ کا ہوا تھا۔ وہ بہت سخت گیر منتظم تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی قسم کا کوئی عذر سنتے ہیں نہ مانتے۔ میں ڈرا سہما ان کے آفس میں ان

کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ عطاءاللہ شاہین نے کہا یہ لڑکا میری بات نہیں مانتا، اس کا پچھلا ریکارڈ بہت اچھا ہے، پچھلے امتحان میں یہ بہت اچھے نمبر لے کر کلاس میں اول آیا ہے لیکن اب یہ سائنس کے مضامین لینے سے انکاری ہے۔ کہتا ہے میں عربی پڑھوں گا۔ پرنسپل نے مجھ سے پوچھا:

آپ نے سائنس کے مضامین کیوں نہیں رکھے؟
میں عربی پڑھنا چاہتا ہوں تاکہ قرآن کو اچھی طرح سمجھ سکوں، میں نے کہا۔

پرنسپل یہ جواب سن کر کچھ گڑ بڑا سے گئے اور ان کے رویے سے گرم جوشی کافور ہو گئی۔ انہوں نے عطاءاللہ شاہین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر یہ نہیں مانتا تو اسے سائنس پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اس کے والد کو بلوا لیں، ان سے بات کریں گے۔ اس دن ہفتہ تھا۔ مجھے کہا گیا کہ سوموار کو اپنے والد کو ساتھ لے آئیں تاکہ ان سے بات کی جا سکے۔ میں نے والد محترم سے ذکر ہی نہیں کیا۔ دو دن بعد کلاس ٹیچر اور پرنسپل دونوں کو یاد ہی نہیں رہا کہ انہوں نے مجھے کیا کہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ عطاءاللہ شاہین نے زچ ہو کر مضامین کی تبدیلی کے بارے میں مجھے کہنا ہی چھوڑ دیا تھا۔

مولوی محمد حسن، جو گوجرخان سے تھے، ہمیں عربی پڑھاتے رہے۔ وہ ساٹھ کے پیٹے میں تھے۔ ان کی داڑھی بالکل سفید ہو چکی تھی۔ انہوں نے کسی سکول کالج یا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ انہوں نے غالباً ’مولوی فاضل‘ کا امتحان پاس کر رکھا تھا۔ وہ آٹھویں جماعت تک ہمیں اردو بھی پڑھاتے رہے۔ این ایچ بیگ نے آتے ہی اساتذہ کی چھانٹی شروع کر دی اور جن اساتذہ کے پاس تدریس کی اسناد از قسم بی ایڈ، بی ٹی، ایس وی اور جے وی وغیرہ نہیں تھیں انہیں فارغ کر دیا گیا۔ 1964 ء کے دوسرے نصف میں مولوی محمد حسن کی ملازمت بھی اختتام کو پہنچی اور ہم ایک اچھے استاد سے محروم ہو گئے۔ ان کے جانے کے بعد عربی کی گرامر، صرف و نحو، جتنی ان سے پڑھی تھی وہ وہیں تک رہی اس میں اور کوئی اضافہ نہ ہو سکا۔ چوں کہ ہمارے بعد آنے والی جماعتوں میں بھی کچھ لوگوں نے عربی پڑھنی شروع کر دی تھی لہذا سکول کو عربی کا استاد درکار تھا۔ اب یہ ڈیوٹی عارضی طور پر چوہدری نورالحسن کو سونپ دی گئی۔ چوہدری نورالحسن، جن کا تعلق ضلع جہلم کے ایک گاؤں ’کھوکھا‘ سے تھا، سینیئر ٹیچر تھے۔ نیک، پرہیز گار اور عالم فاضل شخص تھے، مہندی رنگی سرخ داڑھی تھی۔ انہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کر رکھی تھی۔ وہ بہت ہی نرم خو استاد تھے۔ وہ ہمیں عربی پڑھانے لگ پڑے۔ اس دوران این ایچ بیگ اچانک فوت ہو گئے اور ان کی جگہ غلام محمد بٹ پرنسپل مقرر کیے گئے۔ غلام محمد بٹ ہمیں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ نورالحسن ہمیں تین چار ماہ تک عربی پڑھاتے رہے۔ چوں کہ وہ عربی کے استاد نہیں تھے اس لئے 1965 ء کے اوائل میں عربی کے نئے ٹیچر خالد اطہر آ گئے۔ یہ نوجوان تھے، جنہوں نے ابھی ابھی عربی اور اسلامیات دونوں میں ایم اے کیا تھا۔ انہوں نے لاہور بورڈ سے پتہ کروا کے عربی کی کتاب ہی تبدیل کروا دی۔ اب ہم ایک نئی کتاب پڑھنے لگ پڑھے۔ خالد اطہر لاہور سے تھے۔ نرم طبیعت کے مالک تھے۔ میرے ساتھ ان کا رویہ بہت اچھا رہا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments