(1) عربی سے طب تک
رفعت! ہاتھی جب کار پر بیٹھا تو کار پچک نہیں گئی تھی۔ آپ کے چچا زندہ کیسے بچ گئے۔ کیا وہ ابھی تک زندہ ہیں؟
ہاں وہ زندہ ہیں اور اب پاکستان میں واپس آچکے ہیں۔
میں نے تو سنا ہے کہ ہاتھی کا جسم بہت بھاری ہوتا ہے۔
لیکن یہ واقعہ تو میرے چچا نے خود مجھے سنایا تھا۔
ابھی یہ معمہ حل نہیں ہوا تھا کہ مولوی صاحب آ گئے اور ہم عربی میں ”ہاتھی ایک بہت بڑا جانور ہوتا ہے“ پڑھنے لگ پڑے۔
رفعت بہت ہی سادہ مزاج اور معصوم سی لڑکی تھی۔ بہت دھیمی آواز میں ناک میں بات کرتی تھی۔ عندلیب ہر وقت خاموش رہتی، ایسے لگتا تھا کہ اس کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے۔ پروین ہوشیار تھی۔ ضرورت پڑنے پر اچھی طرح بات کر لیتی تھی۔ پروین تو مڈل پاس کرنے کے بعد کہیں چلی گئی۔ عندلیب میٹرک تک ہمارے ساتھ رہی۔ رفعت نے نویں کلاس میں کسی وجہ سے سکول چھوڑ دیا تھا۔
میری عمر چودہ سال کے قریب تھی۔ دسمبر 1964 ء میں ہماری پیش رو کلاس دسمبر ٹیسٹ کے مرحلے سے گزر چکی تھی۔ لاہور بورڈ کے امتحان، جو مارچ 1965 ء میں ہونے تھے، کے داخلے بھجوائے جا رہے تھے۔ ہر سال سکول سے فارغ ہونے والی جماعت کو نویں جماعت کے طلبا الوداعی پارٹی (Farewell Party) دیتے تھے۔ اب ہم یہ پارٹی سکول سے فارغ ہونے والے طلبا کو دے رہے تھے۔ دسمبر کا آخری ہفتہ تھا۔ سردی اپنے جوبن پر تھی۔ پارٹی میں جانے سے تقریباً تین گھنٹے قبل جب میں نے اپنے کپڑوں کا جائزہ لیا تو مجھے اپنے کوٹ کی بائیں آستین پر ایک پیسے کے سائز کے برابر ایک دھبا سا نظر آیا۔ میرے پاس ہلکے براؤن رنگ کا ایک ہی کوٹ تھا۔ مجھے یہ فکر لاحق ہو گئی کہ لوگ یہ دھبا دیکھیں گے تو میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ اس مختصر مدت میں کوٹ کو ڈرائی کلین نہیں کروایا جا سکتا تھا۔ میں نے خود ہی صابن سے وہ دھبا دھو ڈالا۔ دھبا تو مٹ گیا مگر اب کوٹ پر تین چار انچ قطر کا پانی کا نشان پڑ گیا تھا۔ اونی کپڑا تھا، موسم سرد اور ابر آلود تھا، دو گھنٹے میں پانی کے سوکھ جانے کا امکان نہیں تھا۔ گھر میں کوئلوں والی استری تو تھی مگر اسے گرم کرنے کے بکھیڑے میں کون پڑتا۔ میں نے چولہے میں جلتی آگ دیکھی تو کوٹ کی آستین کو ہاتھ میں پکڑے پکڑے چولہے کے قریب رکھ کے بیٹھ گیا۔ میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد آستین کو دیکھتا، پانی بخارات کی شکل میں آستین سے نکلنا شروع ہو گیا لیکن کپڑے کے خشک ہونے کا عمل نہایت سست رو تھا۔ سکول جانے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ میں آستین کو آگ کے اور قریب کرتا جا رہا تھا اور پانی کی خشکی کا جائزہ لینے کا وقفہ بھی بڑھاتا جا رہا تھا۔ آخری مرتبہ جب آستین کو دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا۔ ہائیں یہ کیا؟ پانی تو خشک ہو گیا تھا مگر اس اولین دھبے والی جگہ پر بالکل اتنے ہی سائز کا سیاہ نشان پڑ گیا تھا۔ جب غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ کپڑا وہاں سے جل گیا ہے۔ میں نے چھری لے کر اس دھبے کو کریدا تو ایک پیسے کے برابر کوٹ کا کپڑا راکھ کی شکل میں نکل کر نیچے گر گیا۔ یہ تو بہت برا ہوا، میں نے سوچا۔ اس سے تو وہ پہلے والا داغ ہی بہتر تھا۔ میں نے سوئی دھاگہ لیا اور کوٹ کے سوراخ کو سینے بیٹھ گیا۔ کوٹ کے رنگ سے ملتا جلتا دھاگہ تو مجھے مل نہیں سکتا تھا۔ جو دھاگہ بھی مجھے ملا میں نے اسی سے اس سوراخ کو سی ڈالا۔ اس سلائی سے کوٹ کی آستین پر ایک بدنما شکن پیدا ہو گئی، جو تھی بھی بالکل سامنے۔ اب یہی کوٹ پہن کر سکول جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں پارٹی میں وہی کوٹ پہن کے گیا اور جتنی دیر وہاں رہا اپنے بائیں بازو کو اندر کی طرف مروڑ کے جسم کے ساتھ لگائے رکھا تا کہ کوئی میرے کوٹ کی بھدی شکن کو دیکھ نہ پائے۔ وہاں سب لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ سب کی دلچسپی کھانے پینے میں تھی۔ کسی کو دوسروں کے دامن یا آستین کے داغ دھبے دیکھنے کی فرصت ہی کہاں تھی۔ دراصل بچپن اور لڑکپن میں دکھنے اور دکھانے کا احساس کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ نوجوانی میں احساس خود و خوش نمائی فزوں تر ہو جاتا ہے۔ ہم بقیہ زندگی میں بھی اپنے ظاہری داغ دھبوں کو مٹانے یا چھپانے کی فکر میں انہیں اور نمایاں کرتے چلے جاتے ہیں۔ حالاں کہ نوے فی صد لوگوں کو یہ داغ دھبے سرے سے نظر ہی نہیں آتے۔ اور معدودے چند لوگ جنہیں یہ نظر آتے ہیں وہ ان سے صرف نظر کرتے ہوئے انہیں قابل توجہ نہیں سمجھتے۔ جب کہ ہمارے باطن کے داغ دھبے جن پر خالق کائنات، رب قدیر اور علیم و خبیر و بصیر کی ہر وقت نگاہ رہتی ہے ہمیں سرے سے نظر نہیں آتے یا پھر ہمارے دھیان گیان کا مرکز ہی نہیں بنتے۔ در عمل کوش ہر چہ خواہی پوش (کوشش اچھے اعمال پر ہونی چاہیے، پیراہن خواہ کیسا بھی ہو) ۔
(جاری ہے)
*ثناءاللہ اسلام آباد کورٹ، ایف۔ 8 پر طالبان کے حملے میں تین مارچ 2014 کو شہید ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے۔
- ” عربی سے طب تک“ قسط 10 - 19/07/2022
- سوشل میڈیا کا بے محابا استعمال - 04/07/2022
- ” عربی سے طب تک“ قسط۔ 9 نشتر میڈیکل کالج - 26/06/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).