نیوٹرل امپائروں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟


آج کل نیوٹرل لفظ کا بہت چرچا ہے۔ اس معاملے میں بھی عمران خان نے اپنی یوٹرن پالیسی پر عمل کیا ہے اور ان کے چاہنے والوں نے بھی نوے کے زاویے پر رخ تبدیل کر لیا ہے۔ عمران خان جب اقتدار میں تھے تو جنرل باجوہ کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے وقت فرمایا کرتے تھے کہ جنرل صاحب پرو ڈیموکریسی چیف ہیں، نواز شریف کو یہ گلہ ہے کہ وہ نیوٹرل کیوں ہیں۔ اب خود کہتے پھرتے ہیں کہ وہ نیوٹرل کیوں ہیں۔ بندہ کس بات کا اعتبار کرے؟

اس صورت حال میں دونوں اطراف کے سیاسی کارکن بھی ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کے تیر برسا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی والے پوچھتے ہیں کہ وہ فوج جو کل تک نواز شریف کو نکالنے کا باعث تھی وہ آج اچھی کیسے ہو گئی اور یہی بات نواز لیگ کے کارکن پوچھتے ہیں کہ فوج جو کل تک عمران خان کی نظر میں محب وطن تھی وہ اب غدار کیسے کہلائی جا سکتی ہے؟ دونوں اپنے مخالفین کے بارے میں یہی سوچ رکھتے ہیں کہ ان کے لیڈر جس طرف رخ کرتے ہیں وہی ان کے کارکنوں کا قبلہ قرار پاتا ہے اور جس طرف وہ پیٹھ کرتے ہیں تو ان کے کارکن بھی وہاں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا یہ بیانیہ جو بظاہر ایک جیسا دکھائی دیتا ہے حقیقت میں بالکل مختلف ہے۔

پہلے نواز شریف کا مقدمہ دیکھتے ہیں۔ نواز شریف بھی کسی زمانے میں فوج کے منظور نظر سیاست دان رہے۔ ضیا الحق نے انھیں سیاسی میدان میں اتارا اور اس کے بعد کافی عرصہ تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات شاندار رہے۔ آئی جے آئی کی معروف کہانی نوے کی دہائی کے آغاز میں اس اتحاد کے نکتہ عروج کی علامت تھی۔ 1993 میں غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کی تو نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات منظر عام پر آئے اور تعلقات میں پڑنے والی یہ دراڑ وسیع ہونا شروع ہوئی جو 1997 میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملنے کے بعد ایک خلیج کی صورت اختیار کر گئی۔

نتیجتاً 12 اکتوبر 1999 کو جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد میاں صاحب کے ساتھ جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ لیکن 2013 میں اقتدار میں آنے کے بعد بھی نواز شریف کے ساتھ کچھ اچھا نہ ہوا اور 2017 میں عدالت سے نا اہل کروا دیا گیا۔ کیا اسٹیبلشمنٹ اور کیا دیگر ادارے، ہر طرف سے نواز شریف کو گھیرے میں لایا گیا، یہاں تک کہ اقتدار سے باہر نکالنے کے لیے نا اہل کروا دیا گیا۔ یعنی اپوزیشن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر خان صاحب کو الیکشن جتوایا گیا۔

اس کے برعکس عمران خان کو تو آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق اقتدار سے نکالا گیا لیکن پھر بھی عمران خان کے گلے شکوے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔

اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کے حوالے سے دیکھا جائے تو عمران خان کا آغاز بھی غیر علانیہ طور پر ضیا الحق کے دور ہی میں ہوا جب 1986 میں انھوں نے ضیا الحق کی درخواست پر کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لیا، اگر ضیا الحق یہ نہ کرتے تو عمران خان ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم میں کہاں ہوتے۔ ان کے بقول ورلڈ کپ جیتنے کے بعد انھیں عوامی خدمت کا خیال آیا۔ پھر وہ عملی طور پر سیاست میں بھی آ گئے اور ان کی سیاسی پارٹی کے قیام کے بعد جو پہلا آمر اقتدار میں آیا، موصوف اس کے قریب ہو گئے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں اصولوں سے زیادہ اقتدار کی خواہش عزیز رہی ہے۔ انھوں نے مشرف کے ریفرنڈم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہی مشرف جس کے بارے میں اب فرماتے ہیں کہ امریکہ کے سامنے لیٹ گیا تھا۔ اس کی حمایت کرنے پر معافی کیوں نہیں مانگتے؟

مشرف کو عمران خان سے کہیں زیادہ سیانے اور جوڑ توڑ کے ماہر چوہدری صاحبان اور ان کے کئی حواری اپنی خدمات بہتر انداز میں پیش کرنے میں کامیاب ٹھہرے (یہی وجہ ہے کہ 2018 کے الیکشن میں جوڑ توڑ کرنے، ٹکٹیں بانٹنے اور الیکشن کے بعد جہازوں پر بندے ڈھونے کے لیے ترین جیسے دوستوں کی مدد لینا پڑی)۔

مشرف سے معاملات بگڑنے کے بعد خان صاحب کے اندر کا باغی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ جوان بیدار ہوا اور اس زمانے کے کئی انٹرویو اور ویڈیو اس کے گواہ ہیں۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں وہ کچھ کہا جو کسی اور سیاست دان کو کبھی کہنے کی ہمت نہ ہوئی لیکن یاد رہے یہ سب مشرف سے مایوس ہونے کے بعد کہا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد اگلا الیکشن پیپلز پارٹی جیت گئی اور 2013 میں میدان میاں نواز شریف کے ہاتھ رہا۔ نواز شریف نے اپنا جمہوری اختیار آزمانے کی کوشش کی اور پرانی کھینچا تانی کی رسم دوبارہ تازہ ہو گئی۔

اب اسٹیبلشمنٹ کے سامنے واحد متبادل عمران خان تھا اور یوں یہ لاٹری ان کے نام نکل آئی اور کرپشن اور حب الوطنی کا بیانیہ خوب پھولا پھلا لیکن پھر بقول چوہدری پرویز الہی، ”وہ“ بچوں کی نیپیاں بدلتے بدلتے تنگ آ گئے اور یوں یہ تازہ ترین صورت حال پیدا ہوئی جس کے بعد خان صاحب اور ان کے حواری اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر چل رہے ہیں۔ ان کا یہ بیانیہ حقیقی کیوں نہیں؟ اس کا جواب بہت واضح ہے۔

نواز شریف اور عمران خان کے بظاہر ایک جیسے بیانیے میں یہ نمایاں اور بنیادی فرق ہے۔ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے بتدریج مخالفت کی طرف اور اپنے اختیارات استعمال میں لانے کی کوشش کی طرف پیش رفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس دوران میثاق جمہوریت جیسا معاہدہ بھی ہوتا ہے اور زرداری دور میں اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں اس کے ایک حصے پر عمل درآمد بھی ہو جاتا ہے جبکہ عمران خان کا بیانیہ وقت کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔

دوسری بات یہ کہ جب نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا گیا تو انھوں نے یہ تو بار بار پوچھا کہ مجھے کیوں نکالا لیکن یہ کبھی نہیں کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے بلکہ ان کا تو مطالبہ ہی یہ رہا کہ اداروں کو نیوٹرل ہونا چاہیے۔ جبکہ خان صاحب کا دعوی بالکل الٹ ہے۔ انھوں نے تو لفظ نیوٹرل کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے اور ہمیشہ کی طرح یوٹرن لیتے ہوئے یہ بھول گئے ہیں کہ وہ بائیس برس سے ہزاروں مرتبہ یہ دہرا چکے ہیں کہ سب سے پہلے نیوٹرل امپائر وہ لائے تھے۔ خدا جانے اب نیوٹرل امپائروں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟

عمران خان نے اپنے اس الٹ بیانیے کا ایک اور ثبوت یہ انکشاف کرتے ہوئے خود دے دیا کہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی کا تبادلہ اس لیے نہیں کرنا چاہتے تھے کہ وہ ان کے کان اور آنکھیں تھے اور انھیں خطرہ تھا کہ نون لیگ ان کے جانے کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لے گی۔ یعنی نون لیگ کو اقتدار سے باہر رکھنے اور خان صاحب کو اقتدار کے اندر رکھنے کے لیے آئی ایس آئی چیف سے بھرپور کردار کا تقاضا تھا۔ میرے خیال میں یہ کام اس ادارے کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ آج ایک انگریزی اخبار کے اداریے میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا گیا ہے اور اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

تاریخ کے اس موڑ پر یہ بنیادی فرق بہت اہمیت کا حامل ہے۔ نواز شریف اداروں کو نیوٹرل کرنا چاہتے اور عمران خان انھیں اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ ایک لحاظ سے نواز شریف کے بیانیے کی طرف آگے بڑھ رہی ہے اور یہی ملک کے لیے بہتر ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ جس حد تک کسی ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل ہونا چاہیے اس کے اتنا ہونے کے بعد ہی اس ملک کے معاملات درست سمت میں چل سکیں گے۔ اس کے لیے سب سیاسی جماعتوں کو ایک پیچ پر آنا ہو گا۔ یہ بہت اہم موڑ ہے لیکن عمران خان کی خواہش ہے کہ فوج اور عدلیہ سمیت سب ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہوں اور ان کے مخالفین کا، جو ان کی نظر میں غدار اور چور ہیں، مکمل صفایا ہو جائے اور تحریک انصاف اکیلی، صاف چلی شفاف چلی کے نعرے لگاتے ہوئے انصاف کا بول بالا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments