سات ہزار کی لپ اسٹک


ٹی وی پر مارننگ شو چل رہا تھا۔ بشرہ گھر کی صفائی نبٹا کر اگلے تین چار گھنٹوں کے لئے ٹی وی کے سامنے دھرنا دے چکی تھی۔ دو کمروں کے گھر کی صفائی میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔ اماں کام پر جاتے ہوئے کہہ گئی تھیں، مسور کی دال چاول پکا لینا۔ مسور کی دال ایک بھاپ میں گل جاتی ہے۔ بس ایک بجے اٹھ کر چڑھا دے گی۔ ایک چولھے پر دال، ایک پر چاول۔ چھوٹے بہن بھائیوں کے اسکول سے آنے تک کھانا تیار ہو جائے گا۔ اس کے ہاں ہر دوسرے دن بس یہی دال بھات پک جاتا تھا۔

گوشت پہنچ سے بالا تھا اور سبزی پر بچے منہ بسورتے تھے بس لے دے کے دال گھوٹ لی جاتی۔ کبھی مونگ کبھی مسور اور کبھی ارہر۔ اسے یہ سوچ کر غصہ اتا کہ معاشرے میں اتنی اونچ نیچ کیوں ہے اور اس سے بھی زیادہ اس بات پر پارہ چڑھتا کہ اس اونچ نیچ والے نظام میں وہ اسفل مقام پر کیوں ہیں۔ لاکھوں کاروں میں سے کوئی اس کے مالی باپ کے پاس کیوں نہیں، اسے کیوں کورنگی سے کلفٹن سائیکل پر جانا پڑتا ہے۔ اور کیوں اس کی اماں، اپنے بچوں کے ساتھ ہونے کے بجائے صبح سے شام تک دوسرے گھروں کے جھاڑو برتن کرتی پھرتی ہیں۔

بشرہ نے میٹرک ہی کیا تھا کہ اسے اسکول سے اٹھالیا گیا تاکہ وہ گھر اور چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالے۔ اب سارا دن ٹی وی دیکھنے کے سوا کیا کرتی۔ اس کے محلے کی ساری لڑکیاں یہی کرتی تھیں۔ روزانہ ٹی وی پر مہندی مایوں اور شادی کے فنکشن دیکھ کر گھر بیٹھے شادیوں کا مزا لیتی تھیں۔ لیکن اب بشرہ کا دل ان پروگراموں سے اوبھ گیا تھا۔ جانے ان کی میزبانوں کا کیوں نہیں بھرا تھا۔ اس نے ناک چڑھا کر چینل بدلا۔ یہاں مارننگ شو میں میک اپ کرنا سکھا رہے تھے۔

میزبان آشفہ زاہدی کسی برانڈ کے عطیہ کیے گئے لباس میں اسٹیج پر لہراتے پھر رہی تھی۔ اس لباس کی قیمت پچاس ہزار روپے تھی۔ پروگرام میں مشہور میک اپ آرٹسٹ عقیلہ کو بلایا ہوا تھا۔ عقیلہ نے حال ہی میں اپنا میک اپ برانڈ لانچ کیا تھا اور اسٹیج پر ہونے والے میک اپ کے مظاہرے میں اسی کی تشہیر کی جا رہی تھی۔ عقیلہ نے میک اپ کی ننھی سی صندوقچی کھول کر دکھاتے ہوئے کہا۔

”یہ لپ اسٹک، بلش اور فیس پاؤڈر کی کومبو کٹ ہے اور اس کی قیمت سات ہزار روپے ہے“

”صرف سات ہزار روپے“ ۔ آشفہ زاہدی نے اینٹھے گئے کمیشن کا حق ادا کرتے ہوئے کہا ”یہ کٹ تو بہت سستی ہے میری تو ایک لپ اسٹک ہی سات ہزار کی ہوتی ہے۔“

بشرہ نے بھنا کر ایک معصوم سی گالی میزبان کو ارسال کی اور سارا غصہ ریموٹ کے آف بٹن پر اتارتے ہوئے ٹی وی بند کر دیا۔

ہونہہ! صرف سات ہزار روپے۔ جیب میں حرام کے ستر ہزار ہوں تو سات ہزار کی حقیقت کیا۔ ماں صبح سے شام تک جان مارتی تو مہینے بھر کے بعد تیس ہزار ہاتھ آتے تھے اور اس کا باپ دھوپ، بارش آندھی کی پروا کیے بغیر تیس دن مٹی میں ہاتھ لتھیڑتا تو چند ہزار روپوں کی مہک سونگھنے کو ملتی اور یہ نواب زادی ٹی وی پر، صرف سات ہزار کہہ کر ہم غریبوں کا مذاق اڑاتی ہے۔

حقیقت یہ تھی کہ یہ مارننگ شو مڈل اور لوئر کلاس میں ہی دیکھے جاتے تھے۔ ورنہ اپر کلاس کی بیگمات کو کیا حاجت تھی کہ اشتہاروں سے چیچک زدہ پروگرام دیکھ کر میک اپ اور لباس کے آئیڈیا لیں۔ اللہ رکھے بوتیک اور ہائی فائی پارلر انہی کے لئے تو تھے جہاں جانا ان کی ضرورت، تفریح اور اسٹیٹس سمبل تھا۔

بشرہ نے دیوار پر ٹنگے پلاسٹک کے گھڑیال پر نظر ڈالی۔ پونے ایک ہو رہا تھا وہ بھنبھناتی ہوئی مسور کی دال اور چاول بھگونے لگی۔ اسے مسور کی دال کی خوشبو سے چڑ آنے لگی تھی۔ اسے کچھ کرنا تھا اسے بھی دولت مند بننا تھا۔ اتوار کے اخبار میں باہر ملک میں نوکری کے اشتہار کھنگالے اور ابا سے چھپ کر ایجنٹ کے پاس بھی ہو آئی تھی مگر اس نے جتنے پیسے مانگے تھے اس کا تو دسواں حصہ بھی اس کی انٹی میں نہ تھا۔ لیکن اسے کچھ کرنا تھا۔

وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا آپ دیکھتی تو اپنے حسین سراپا کی ناقدری پر کڑھ کے رہ جاتی۔ شہزادیوں جیسی کایا والی بشرہ کا کورنگی کے گٹر ابلتے محلے سے کیا ٹانکا جڑتا تھا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ ماڈل بن جائے۔ ٹی وی پر اٹھلاتی گنگناتی وہ کیسی لگے گی۔ وہ تصور میں کھو گئی۔ جلد ہی اس نے ایک اشتہاری ایجنسی کا پتہ معلوم کر کے انٹرویو بھی دے ڈالا۔ اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اسے اشتہار کی ریکارڈنگ کے لئے بلایا گیا۔

یہ ایک واشنگ پاوڈر کا اشتہار تھا۔ ذرا بد مزہ تو ہوئی جب اسے پتہ چلا وہ مین لیڈ کی بجائے ایک ہجوم کا حصہ ہے لیکن جب اشتہار ان ائر ہوا تو بیسیوں عورتوں کے درمیان اسے اپنا آپ بہت نمایاں لگا۔ وہ دایاں ہاتھ بلند کیے پر جوش ہوکے واشنگ پاوڈر کے نعرے لگا رہی تھی۔ اس اشتہار سے اسے پندرہ ہزار روپے ملے تھے۔ اگرچہ یہ کم تھے مگر اس کے ماں باپ کی ادھی تنخواہ کے برابر رقم اسے چند نعرے لگانے سے مل گئی تھی۔ اب وہ بھی سات ہزار کی کٹ خرید سکتی تھی۔

اسے اپنا آپ سنوارنے کی ضرورت تھی تاکہ اسے بڑا اشتہار مل سکے۔ وہ اس بیوٹی پارلر چلی گئی جس کے بڑے بڑے بل بورڈ آنکھوں میں گھس کر دعوت دیا کرتے تھے۔ فیشل، پیڈی کیور، مینی کیور کرنے بعد اس کی ملیح رنگت صبیح ہو گئی تھی اور اس کی لانبی مخروطی انگلیاں نیل پالش کے اشتہار کے لئے بالکل تیار تھیں۔ یہ اور بات کہ اب اس کی ہتھیلیاں خالی ہو چکی تھیں۔ اس روز اماں نے کئی بار غور سے اسے دیکھا انہیں وہ بدلی بدلی سی لگی لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا تبدیلی ہے۔ بشرہ مسکرا کر رہ گئی۔ اس نے اماں کی الجھن دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔

اس کے بعد اشتہاری ایجنسی سے کوئی بلاوا نہ آیا اور بشرہ پھر بے کل ہو گئی۔ اس کی ایک سہیلی بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چین کے آؤٹ لیٹ پر کام کرتی تھی۔ پینٹ شرٹ والا یونیفارم پہن کر وہ بڑی ماڈرن لگتی تھی۔ بشرہ اس کے ساتھ جاکر انٹرویو دے آئی۔ اسے پورا یقین تھا وہ یہ نوکری حاصل کرپائے گی۔ اب اہم مرحلہ اماں ابا سے اجازت لینے کا تھا۔ اماں نے تو صاف منع کر دیا۔ دونوں چھوٹے سارا دن بے نات کے نارے کی مانند پھرتے رہیں، انہیں گوارا نہ تھا۔

گھر میں ماں باپ نہ ہوں تو بشرہ کو گھر میں قرار پانے اور ان کا خیال رکھنے کی ضرورت تھی۔ لیکن بشرہ جو سوچ لے وہ تو کر کے ہی رہتی تھی۔ اس نے مان سے، مراد سے، خوشامد کر کے آخر ماں باپ کو راضی ہی کر لیا۔ ایک ہفتے بعد ہی اس کی سہیلی نے نوکری ہونے کی خوش خبری سنا دی۔ شہر کے متمول علاقے میں موجود اس آؤٹ لیٹ پر یونیفارم پہنے کاؤنٹر کے پیچھے وہ خود کو بہت پر اعتماد محسوس کر رہی تھی۔ سات ہزار روپے کی کٹ سے کیا گیا میک اپ، آئی لائنر سے سجی آنکھیں اور مسکارے سے بوجھل پلکیں اک ادا سے اٹھاتی گراتی کہ قیامت ڈھا دیتی۔ اسے امید تھی کسی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے مالک کی اس پر ضرور نظر پڑے گی۔

چند ہفتوں سے وہ نوٹ کر رہی تھی کہ ایک شخص عین کاؤنٹر کے سامنے والی میز پر آ کر بیٹھتا، کوئی میل آرڈر کرتا۔ لیکن کھانے سے فارغ ہو کر بھی دیر تک کولڈ ڈرنک کی چسکیاں لیتا رہتا بلکہ کبھی تو ریفل بھی لیتا۔ بشرہ اس کی گہری نگاہوں کی تپش اپنے رخساروں پر محسوس کرتی تھی۔ کسی کام سے کاؤنٹر سے نکل کر اوپر جاتی تو جیسے وہ آنکھیں اس کے جسم کے پیچ و خم میں کھب جاتیں۔ سرتاپا نگل جانے والی نظریں اس کے اندر اضطرار پیدا کرتی تھیں۔

اس نے اپنی دوست ثمینہ سے ذکر کیا تو اس نے کہا بڑی سی کار میں آنے والا وہ بزنس مین صرف بشرہ کے لئے یہاں آتا ہے۔ وہ اس سے محبت کرنے لگا ہے اور اظہار سے ڈرتا ہے۔ اس لئے ثمینہ سے دل کا حال کہہ کر سفارش کی درخواست کی تھی۔ بشرہ کو یہ سب الف لیلوی داستان لگ رہی تھی بھلا حقیقت میں کوئی امیر زادہ کسی غریب لڑکی سے پیار کرتا ہے لیکن پھر خوشامدی آئینے کی ناز آفرینی پر اسے یقین ہو چلا کہ وہ ہے ہی اس قابل کہ کسی کو امیری غریبی کا فرق بھلا دے۔ تھوڑے سے ناز نخرے کے بعد وہ ملاقات پر راضی ہو گئی۔

اشرف اپنی لمبی سی کار میں ریسٹورنٹ لے گیا۔ لکڑی کا زینہ چڑھ کر نیم تاریک ہال میں چھوٹے چھوٹے سے کیبن بنے تھے۔ نشستوں کی اونچی پشت کے پیچھے پیار کرنے والے دنیا و مافیا سے پوشیدہ، دل کی مرادیں پوری کر رہے تھے۔ ویٹر انتہائی سست تھے اور بڑی دیر کے بعد آرڈر لینے آتے تھے۔ ریسٹورنٹ کے رومان پرور ماحول کا حق ادا کرتے ہوئے اشرف نے دل کی باتیں کھل کر کہہ دیں اور اسے میری گڑیا کا نک نیم بھی دے دیا۔ لیکن جب اس کا پیار دودھ کی طرح ابل کر ظرف سے باہر گرنے لگا تو اس نے اسے دھکیل دیا۔

”ہم بہت جلد شادی کر لیں گے“ کانوں میں شہد گھولا گیا۔ تمہارے گھر والے میرے گھر میں شفٹ ہوجائیں گے۔ جانتی ہو میں ایسا کیوں چاہتا ہوں؟ ”

”کیوں“ ؟ اس نے بمشکل دم گھونٹتے شکنجے سے نکلتے ہوئے پوچھا
”کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری بیوی میکے جائے اور میں اس کی جدائی میں آہیں بھروں۔“

بشرہ کے لئے یہ تجربہ کچھ خوش گوار نہ تھا۔ وہ امیر تو ہونا چاہتی تھی مگر اس قیمت پر نہیں۔ پگلی جانتی نہ تھی محبت اب ایک تجارت کے سوا کچھ نہیں اور اس کے پاس تجارت کے لئے صرف ایک ہی نقدی تھی۔ اس نے ثمینہ سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو وہ بے فکری سے بولی۔ ”بنو! دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ملتا۔ تم خوش قسمت ہو کہ اشرف تمہیں ہی نہیں تمہارے خاندان کو بھی ایک خوش آئند مستقبل کی نوید دے رہا ہے۔“

بشرہ خوشگوار مستقبل کے تصور میں کھو گئی تاہم ثمینہ کی اکساہٹیں اور اشرف کے وعدوں کے سنہری ریشے بھی اسے اسے اپنی عصمت کا سودا کرنے پر قائل نہ کرسکے اور شادی کے بغیر حد فاصل پار کرنے کی اجازت نہ دی۔ اشرف نے بڑے طومار باندھے، خاندانی مسائل کے بہانے بنائے مگر آخرکار شادی کے لئے رضامند ہونا پڑا۔ متعین کردہ تاریخ پر دونوں وکیل صاحب کے دفتر پہنچے۔ وکیل جہاں دیدہ تھا لفافہ دیکھ کر مضمون بھانپ لیا۔ جب اشرف کاغذات فوٹو کاپی کروانے گیا تو اس نے بشرہ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ”مجھے یہ شخص فراڈ لگتا ہے تم بہت کم عمر ہو بہتر ہے اپنے ماں باپ کی عزت پر بٹہ لگانے اور اپنی زندگی برباد کرنے سے احتراز کرو۔“

جب اشرف لوٹا تو بشرہ نے پوچھا ”کیا آپ فراڈیے ہیں؟“
اشرف بوکھلا کر بولا ”کیا کہہ رہی ہو“

اور پھر بشرہ نے سارا احوال کہہ سنایا۔ وکیل صاحب نے سر تھام لیا۔ اشرف نے بات کو طول نہیں دیا بس ذرا سخت لہجے میں کارروائی جلد مکمل کرنے کی درخواست کی۔ دو گھنٹے بعد وہ قانونی طور پر اشرف کی زوجہ ہو گئی۔ واپسی پر بشرہ اس لمبی سی کار کی فرنٹ سیٹ پر مالکانہ تفاخر سے براجمان ہوئی۔ تازہ بہ تازہ دلہن کچھ دل افروز گفتگو کی توقع کر رہی تھی لیکن وہ بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا اور بندر روڈ کے رش سے گاڑی نکالنے کے لئے پینترے بدل رہا تھا لگتا تھا اسے نئی نویلی دلہن سے زیادہ کہیں پہنچنے میں دلچسپی تھی۔ ہمیشہ کی طرح گیئر بدلتے ہوئے اس کی رانوں کو بھی نہیں چھوا تھا۔ جیسے وہ بھول ہی گیا تھا کہ بشرہ گاڑی میں موجود ہے۔ کورنگی روڈ کے تیسرے سگنل پر اس نے گاڑی روک کر اسے رکشہ کے پیسے پکڑائے اور کہا ”گڑیا، ایک اہم بزنس میٹنگ ہے آگے تم رکشہ سے چلی جاؤ“ ۔

شادی شدہ زندگی کا ابتدائیہ کچھ جاں فضا نہ تھا۔ نکاح کو پانچ روز گزر گئے تھے اور اشرف اس سے ملنے بھی نہیں آیا تھا البتہ فون پر روز اسے یقین دلاتا کہ بہت جلد اس کے سارے دلدر دور ہوجائیں گے۔ اور بشرہ من و عن یقین کر کے خوابوں میں کھو جاتی پر نہ جانے کون سے خوف سے بخار نے آ لیا تھا۔ اس روز ابا بہت تھکے ہارے لوٹے تھے سائیکل کے پیڈل مار مار کر ٹانگوں میں گانٹھیں سی پڑ گئی تھیں۔ انہوں نے آصف سے ٹانگیں دبانے کی کہا۔ بشرہ کا دل بہت دکھا۔ وہ کہیں دور کسی آرام دہ بستر پر اپنے ابا کو دیکھتے ہوئے بولی

”ابا تھوڑے دن کی تکلیف ہے پھر آپ کو اور اماں کو کام نہیں کرنا پڑے گا۔“
”کیوں کیا کیاری کھودتے ہوئے کوئی قارون کا خزانہ ہاتھ آ جائے گا“

”ہم سب ایک بنگلے میں رہیں گے۔ ویسا ہی بنگلہ جیسے کی آپ مالی گیری کرتے ہیں۔ ہم اچھا پہنیں گے اچھا کھائیں گے، آصف اور حنا اچھے اسکول میں پڑھیں گے“ وہ بولے گئی

ابا نے اس کے ماتھے کو چھوتے ہوئے کہا ”کہیں بخار میں سرسام تو نہیں ہو گیا؟“ ۔

”نہیں ابا میں سچ کہہ رہی ہوں میں نے ایک امیر آدمی سے نکاح کر لیا ہے بہت جلد وہ ہم سب کو اپنے بنگلے میں لے جائے گا۔

ابا کھاٹ پر اٹھ کر بیٹھ گئے
”یہ تو کیا کہہ رہی ہے شریف لڑکیاں ایسی بات نہیں کرتیں“
”ابا اپنی مرضی سے شادی کرنا ہر بالغ لڑکی کا حق ہے۔ میں پچھلے مہینے اٹھارہ کی ہو چکی ہوں۔“

”اچھال چھکا، ناہنجار صرف حقوق کی خبر ہے فرائض کا بھی کچھ حساب معلوم ہے۔ ماں باپ کی ناک کٹوا کر کس منہ سے گھر لوٹ کر آئی۔“

اماں جو ابا کے لئے چائے لے کر آئی تھیں اس خبر پر صلواتیں سناتی چپل اٹھا کر لپکیں۔ لیکن ابا نے انہیں روکا۔ ہاتھ سے چپل لے کر پھینکی۔

”جوان اولاد سے اس طرح بات نہیں منوائی جاتی“ انہوں نے اماں کو سمجھایا۔ پھر وہ بشرہ کی طرف متوجہ ہوئے۔

”بیشک اپنی مرضی اور پسند سے شادی کرنا تمہارا حق ہے لیکن اگر اس میں ماں باپ کا تجربہ اور دنیا سے آگہی شامل ہو جائے تو غلط فیصلے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ خیر جو ہوا اسے پھیرا نہیں جاسکتا اللہ اسے تمہارے لئے اچھا ثابت کرے۔ مجھے تفصیل بتاؤ اور اس شخص سے ملواؤ۔ تمہیں اس کے ساتھ رخصت کرنا ہو گا۔

ملاقات ہوئی۔ اشرف رخصتی میں ٹال مٹول کرنے لگا لیکن بالآخر مہینے بعد رخصتی طے پا گئی۔ بارات میں صرف چار دوست تھے۔ ماں باپ نے اپنی حیثیت کے مطابق کپڑے لتے اور زیور دیا تھا۔ باقی چیزوں کو بشرہ نے منع کر دیا تھا۔ سرخ شرارہ اور طلائی جھمکیاں پہنے وہ اترائی اترائی اپنے ہم سفر کے ساتھ اس کے محل چلی لیکن۔

اسکے خوابوں کا محل دھڑام سے نیچے آ گیا جب گاڑی منظور کالونی کی ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں داخل۔ ہوئی۔ چھوٹے چھوٹے کبوتر کے کابک جیسے فلیٹ جن کی بالکونیوں پر بد رنگے کپڑے سوکھے ہوئے تھے۔ وہ بھونچکا ہو کر اشرف کی طرف مڑی جو گاڑی کا دروازہ کھول کر اتر رہا تھا۔

”یہ کہاں لے آئے۔ ہمارا بنگلہ کہاں ہے؟“

”اترو تو سہی میری گڑیا“ ۔ اس نے دوسری طرف آ کر دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ میں نے تم سے کہا تھا نا جب تک گھر والوں کو راضی نہ کرلوں وہاں نہیں لے جاسکتا پر تمہارے ابا کو رخصتی کی پڑی تھی۔ اب کچھ دن تو یہیں رہنا پڑے گا۔ ”

بشرہ منہ پھلائے بیٹھی رہی ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ اشرف نے اسے گدگداتے ہوئے کہا ”اوپر چلو گی یا سہاگ رات گاڑی میں ہی منا لوں۔“

”منہ دھوکے رکھو“ بشرہ نے غصے سے کہا اور گاڑی سے اتر گئی۔ اس بلڈنگ میں تو لفٹ بھی نہیں تھی۔ پان کی پیک سے چتکبری سیڑھیوں کے کئی موڑ کاٹنے کے بعد وہ اس فلیٹ پر پہنچے جو اس کے اپنے گھر سے بھی چھوٹا تھا۔ اسے فلیٹ کبھی اچھے نہ لگے تھے۔ نہ چھت نہ صحن، کہ رات کو پلنگ پر لیٹ کر ستاروں کی جھلمل اور آسمان کی خنکی سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔ بیڈروم میں بڑا سا بیڈ پڑا تھا اتنا بڑا کہ اس کے علاوہ کمرے میں کسی اور چیز کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ شاید اشرف اپنے بنگلے سے لایا تھا۔

اگلی صبح سو کر اٹھی تو اشرف موجود نہیں تھا۔ کچن میں کھانے پینے کا سامان رکھا تھا۔ پھر یہی ہوتا کہ ہفتے میں ایک دو بار ہی آتا وہ بور ہوجاتی۔ اشرف نے اسے فون کرنے سے منع کیا تھا کہ وہ خود ہی موقع دیکھ کر بات کر لیا کرے گا۔ پر ایک رات اس سے رہا نہ گیا۔ آئس کریم کھانے کو دل چاہ رہا تھا۔ اس نے فون کر لیا۔ فون کسی عورت نے اٹھایا۔ بڑے ہی خرانٹ لہجے میں پوچھا گیا کہ وہ کون ہے اور اشرف سے کیا بات کرنی ہے۔

”تم یقیناً اشرف کی کوئی بدتمیز نوکرانی ہو۔ میں اشرف کی بیگم بول رہی ہوں اس کو فون دو۔“ بشرہ نے بیگماتی تحکم سے کہا۔

اور اس کے بعد جو گالیوں اور لعنت ملامت کی بوچھاڑ پڑی تو اللہ دے اور بندہ لے۔ اس دن بلکہ اس رات کے بعد اشرف تو غائب ہی ہو گیا۔ فون بھی بند جا رہا تھا۔ بشرہ پریشان تھی کیا کرے اس کے پاس تو ایڈریس بھی نہیں تھا۔ کوئی تین ہفتے بعد اشرف آیا۔ وہ سخت ناراض تھی۔ اشرف اس کے لئے بہت اچھا کھانا اور آئس کریم بھی لایا تھا۔ اپنی مصروفیت اور مجبوری کی کہانیوں سے تو خفگی دور نہ ہوئی پر اس نے کسی طرح اسے منا ہی لیا۔

ابھی وہ قربتوں سے محظوظ ہی ہو رہے تھے کہ دروازے پر تابڑ توڑ حملے شروع ہو گئے۔ اشرف نے کہا خاموش رہے جیسے گھر میں کوئی نہیں، پر بشرہ سر پہ ہتھوڑے برداشت نہیں کر سکتی تھی وہ بھنا کے اٹھی اور دروازہ کھول دیا۔ لیڈی پولیس کے یونیفارم میں ایک عورت اسے دھکیل کر اندر چلی آئی۔ اب وہ بیڈروم کے دروازے پر دونوں ہاتھ کمر پہ دھرے اشرف سے مخاطب تھی۔

”اس حرافہ کو ابھی کے ابھی طلاق دے“
”ارے واہ میاں بیوی کے معاملے میں پولیس کیسے دخل اندازی کر سکتی ہے“

”میں اشرف کی بیوی ہوں“ وہ اس کی طرف مڑ کر بولی۔ تمہیں اور تمہارے باپ کو منشیات کے الزام میں اندر کرا دوں گی ورنہ طلاق پکڑو اور اپنی راہ لو ”

”ارے تمہاری دادا گیری چلتی ہے۔ کیوں لے لوں طلاق۔ اب تو میں اشرف کے بنگلے میں جاکر رہوں گی“

”کون سا اشرف کا بنگلہ؟ سوتن نے استہزائیہ انداز میں کہا اشرف شیخ اکرم کا ڈرائیور ہے اور ان کے سرونٹ کوارٹر میں رہتا ہے۔

بشرہ چکرا کر گر پڑی۔ گاڑی، بنگلہ، پچاس ہزار کا لباس اور سات ہزار کی لپ اسٹک بھیانک ہیولوں کی مانند اس کی آنکھوں میں ڈول رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments