سیاسی سختیاں اور ادبی نرمیاں


ذہنی اور عملی طور پر ہم کوچۂ سیاست کی غلام گردشوں سے نابلد ہیں مگر اسے حالات کا جبر کہیے یا سوشل میڈیا کی یلغار کہ ہر طرف سے سیاسی بھونپو سے مختلف آوازیں آ رہی ہیں موبائل کی سکرین پر سیاسی کردار پتلی تماشے کی مانند ہمارا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں۔ گلی کوچے، محلے، دکانیں، دفتر، مسجدیں جہاں تہاں اگر کسی بات کا چرچا ہے تو عصری سیاست کی ہنگامہ آرائیوں کا۔ عید کی چھٹیوں میں ذرا فراغت پائی تو سوچا کہ کیوں نہ ہم بھی اس سیاسی شور و غوغا و میں اپنی نحیف سی آواز شامل کر لیں۔

مرید پور کے پیر کی طرح ہم نے بھی کئی کئی منصوبے باندھے لیکن سب خیالات آپس میں خلط ملط ہو گئے اور سیاسی ابتذال ( Political Slangs) کو شعر و ادب کا تڑکا لگانے کی سوجھی۔ چشم زدن میں پورا سیاسی منظر نامہ آنکھوں کے سامنے سے پھر گیا۔ ادب کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے جانتے ہیں کہ کس طرح نئے لفظ سماج میں پیدا ہوتے، جیتے اور مرتے ہیں اور افتادگان خاک کی طرح نئے پیکر کے ساتھ نئے الفاظ کا روپ لے کر نئے معنوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ یہ لفظ ایسی اصطلاحات کا روپ اختیار کر چکے ہیں کہ جن کے مطالب پوری طرح ہم پر آشکارا ہیں۔ ادب اور سماج انہیں ہنگاموں سے ارتقا پذیر ہوتے ہیں۔ تہذیب کا یہ رخ بڑا دردناک بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ اکبر الہ آبادی کے بقول:

ہماری اصطلاحوں سے زبان نا آشنا ہوگی
لغات مغربی بازار کی بھاشا سے ضم ہوں گے
بدل جائے گا معیار شرافت دنیا میں
زیادہ تھے جو اپنے زعم میں وہ سب سے کم ہوں گے
گزشتہ عظمتوں کے تذکرے بھی رہ نہ جائیں گے
کتابوں میں ہی دفن افسانہ ء جاؤ حشم ہوں گے

کچھ عرصے سے ایسی سیاسی اصطلاحات ہمارے ہاں رواج پا چکی ہیں جن کے کے ڈانڈے مقامی، قومی اور بین الاقوامی سرحدوں سے جا ملتے ہیں۔ ان چند سیاسی اصطلاحات اور سیاسی جملوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں :

فرشتے، خلائی مخلوق، نیوٹرل، ایمپائر کی انگلی، یوٹرن، پٹواری، یوتھیا، مجھے کیوں نکالا سسلین مافیا، لاڈلا، سلیکٹڈ ، امپورٹڈ حکومت، بھکاری، چھانگا مانگا کی سیاست، لوٹا ازم یا لوٹا کریسی، جھرلو، دھاندلا، جناب والا! یہ ہیں وہ ذرائع، پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں، ووٹ کو عزت دو، مغرب کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا، جب زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے وغیرہ جیسے الفاظ اور اصطلاحات سے کون واقف نہیں اب ذرا ان اصلاحات کو ان کے سیاق و سباق اور شعر و ادب سے ملا کر پڑھتے ہیں۔

روز ازل یعنی جب سے وطن عزیز معروض وجود میں آیا ہے تب سے نادیدہ قوتوں نے عام انتخابات میں اور سیاسی جوڑ توڑ میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کسی نے اسے فرشتے کا نام دیا تو کسی نے خلائی مخلوق کا، کسی نے امپائر کا اور پڑھے لکھے لوگوں نے اسے اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا۔ گویا جتنے منہ اتنی باتیں، ایک ہم ہیں کہ چھوٹا منہ بڑی بات، پکڑے جانے یعنی دھر لیے جانے کا کھٹکا الگ سے جی جان کو لگا رہتا ہے، اس لیے اس سیاسی کردار کو ہمیشہ ادبی اشارے، کنائے اور علامت نگاری میں ملفوف پیش کیا جاتا ہے۔ اس ابہام، گریز پا محبوبہ کا نقشہ مرشد جون ایلیا نے کچھ اس طرح کھینچا ہے :

شرم، دہشت، جھجک، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتی
آپ، وہ، جی، مگر، ۔ یہ سب کیا ہے؟
تم میرا نام کیوں نہیں لیتی؟

امپائر کی انگلی کو بعضوں نے امپائر کا انگوٹھا اور بعض ستم ظریفوں نے امپائر کا پورا پورا ہاتھ گردانا ہے کہ سیاست میں یہ رنگا رنگی اور ہما ہمی اسی کے دم سے ہے جس کا تذکرہ سطور بالا میں کیا جا چکا ہے، تاہم یہ کردار ہمیشہ غیر جانبدار رہنے پر اصرار کرتا ہے مگر بقول شاعر واقعہ یہ ہے :

ہر تیر اسی کا ہے، ہر اک زخم اسی کا
ہر زخم پہ انگشت بدنداں بھی وہی۔
افتخار عارف نے سیاست کی بساط اور رنگ
منچ کے حوالے سے خدا لگتی بات کہ رکھی ہے :
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا، کب تماشا ختم ہو گا۔
میاں نواز شریف صاحب نے خلائی مخلوق کا نعرہ مستانہ لگایا تو دور و نزدیک سے کئی جملے سننے کو ملے :
* جنہوں نے خلائی مخلوق کا تذکرہ کیا ہے انہی سے اس کا حلیہ بھی پوچھ لیں۔
* ہمت ہے تو بتائیں کہ خلائی مخلوق کیا ہے؟

آمنہ مفتی نے اپنے کالم کا نام رکھا ”خلائی مخلوق تو تم بھی ہو“ ، (اس سے ہمیں بے ساختہ ن م راشد کی یاد ستانے لگی یعنی زندگی سے ڈرتے ہو زندگی تو ہم بھی ہیں، زندگی تو تم بھی ہو ) آمنہ مفتی لکھتی ہیں :

”میاں صاحب کا المیہ یہ ہے کہ یہ ان تشتریوں میں لفٹ لے چکے ہیں اور بہت قریب سے خلائی مخلوق اور اس سے پیدا ہوئی مخلوق کو دیکھ چکے ہیں اور اس لیے ڈر رہے ہیں اور دہائیاں دے رہے ہیں۔ اس کے سوا کیا کہیں کہ خلائی مخلوق سے ڈرتے ہو؟ خلائی مخلوق تو تم بھی ہو۔“

انتخابی نتائج میں تبدیلی کو یار لوگوں نے پہلے تو دھاندلی کا لفظ دیا لیکن اس میں مجتہدانہ اور اخلاقانہ صلاحیتوں سے کام لیا، اس لفظ کی ساخت کو قواعد کے اعتبار سے اسم تصغیر سے اسم مکبر میں بدل دیا یعنی دھاندلی سے دھاندلا، جیسے ہم اپنے بچوں کو مثالیں سمجھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بیٹا پگڑی سے پگڑ، راجا سے مہاراجا گھڑی سے گھڑیال وغیرہ جیسے الفاظ بنتے ہیں جو ہم پر اپنے سائز اور قد و قامت کی دھاک بٹھا دیتے ہیں۔ دھاندلی، دھاندلا کے حوالے سے ایک مترادف اصطلاح جھرلو بھی زبان زد خاص و عام ہے۔ ڈسکہ میں انتخابی جھرلو پھرا تو وسعت اللہ خان نے اپنے کالم کا دلچسپ نام رکھا : ”ڈسکے میں جھرلو کا ڈسکو“

اس کالم میں انہوں نے سٹالن کی زبانی یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اہم یہ نہیں کہ کس نے کس کو ووٹ دیا، اہم یہ ہے کہ اس ووٹ کی گنتی کس نے کی، اس سے زیادہ جامع تعریف ہو ہی نہیں سکتی۔ انور مسعود نے اس کی شاعرانہ تعبیر ان الفاظ میں کی ہے :

کیونکر نہ انتخاب میں وہ ہو گا کامیاب
جس کی بھی دسترس میں ہے یہ حسن انتظام
جھرلو عجیب شے ہے کہ ووٹوں کی پرچیاں
ڈالو کسی کے نام نکالو کسی کے نام۔ ۔

ایک صاحب نے بتایا کہ ایوب خان نے جب محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں شکست دی تو میں اس وقت چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ اگلی صبح جب میں محلے کی دکان پر کوئی چیز لینے گیا تو وہاں لوگ نوائے وقت اخبار پڑھ رہے تھے جس کی سرخی تھی : انتخابات میں جھر لو چل گیا۔ بہت بعد میں پتا چلا کہ جھرلو کا مطلب کیا ہوتا ہے۔

سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور عوام کے ساتھ ساتھ ہماری عدالتوں نے بھی اصطلاح سازی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پہلی مرتبہ سپریم کورٹ سے سے سسلین مافیا اور گاڈفادر جیسے انسانی قصابوں کے نام اس قوم نے سنے۔ کرید مزید ہوئی تو ہم نے جانا کہ یہ کردار تو اٹلی کے شہر سسلی کے مافیا کے سرغنہ کا نام ہے جسے Beast اور Boss of the Bosses جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، پھر یہ علم ہوا کہ اس پر تو ماریو پوزو ( Mario Puzo ) نے ناول بھی لکھ رکھا ہے اور اس منفی کردار پر گاڈ فادر کے نام سے فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔ ہمارا مزاج ان گہرائیوں میں اترنے میں ہمیشہ مانع رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنی غیر جانبداری کے حوالے سے کہا:
عمران خان ہمارا لاڈلا نہیں اس حوالے سے بیان بازی درست نہیں۔
ویسے لاڈلا کا لفظ سن کر ہمیں اسد محمد خان کی نظم درشن بے ساختہ یاد آتی ہے :
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
تن کے گھاؤ تو بھر گئے داتا
من کا گھاؤ نہیں بھر پاتا
جی کا حال سمجھ نہیں آتا
کیسی انوکھی بات رے

لوٹا کریسی کا غلغلہ بھی ان دنوں اپنے عروج پر ہے لوٹا ازم کی معنویت کسی بندہ بشر سے پوشیدہ نہیں۔ عقیل عباس جعفری نے تحقیق کی تو بتایا کہ پاک و ہند کی سیاست کے پہلے لوٹے کا نام شیخ محمد عالم تھا جس نے ”ڈاکٹر لوٹا“ کے نام سے ”شہرت“ پائی۔ تاریخ سے دلچسپی لینے والے حضرات اس موضوع پر مزید داد تحقیق دے سکتے ہیں۔ مولوی اور لوٹے کی رعایت سے انور مسعود نے خوب نکتہ اٹھایا ہے :

ٹھیک ہے جیسا الیکشن ہو گیا ہے
ہاں مگر تشویش لاحق ہے ذرا اس بات میں
مجھ کو لگتا ہے یہ غیر فطری فاصلہ
مولوی سرحد میں ہے لوٹے مگر پنجاب میں

یو ٹرن ایک فرنگی زبان کا لفظ ہے اس کے سنتے ہی امیر خسرو کی کہہ مکرنیاں اور پہیلیاں یاد آتی ہیں کہ جس میں پہلے تین مصرعوں میں عاشقانہ رموز اور معاملہ بندی کی سی کیفیت پیش کی جاتی ہے مگر چوتھے اور آخری مصرعے میں سارا سسپنس غارت ہو جاتا ہے۔ امیر خسرو کی یہ کہہ مکرنی ملاحظہ ہو :

ننگے پاؤں پر پھرن نہیں دیت
پاؤں سے مٹی لگن نہیں دیت
پاؤں کا چوما لیت نپوتا
اے سکھی ساجن؟ نا سکھی جوتا۔ ۔

عمران خان کے یو ٹرن بھی اتنے مزے دار ہیں۔ سیاست کے ایوان میں کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی۔ سیاسی مخالفت سے ذاتی کردار کشی تک کا سفر ہم نے بحیثیت قوم دیکھتے ہی دیکھتے طے کر لیا۔

اس سیاسی دھما چوکڑی میں کیا کوئی ایسی نگاہ بھی ہے جس میں نئی نسل کے روشن مستقبل کے خواب جگمگا رہے ہوں؟ آئیے کچھ سپنے بنتے ہیں :

آؤ کہ کچھ خواب بنیں، کل کے واسطے
ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل
تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments