محسن نقوی اور سید فخرالدین بلؔے فیملی داستان رفاقت (2)


سید محسن نقوی کا مکمل نام سید غلام عباس تھا۔ لفظ محسن ان کا تخلص تھا اور لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ لہذا بحیثیت ایک شاعر انھوں نے اپنے نام کو محسن نقوی میں تبدیل کر لیا اور اسی نام سے مشہور ہو گئے۔

محسن نقوی 5، مئی 1947 ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن کرنے کے بعد جب یہ نوجوان جامعہ پنجاب کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوا تو دنیا نے اسے محسنؔ نقوی کے نام سے جانا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعہ کلام چھپا۔ بعد میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انھیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ بعد میں محسن نقوی ایک خطیب کے روپ میں سامنے آئے۔ مجالس میں ذکر اہل بیت اور واقعات کربلا کے ساتھ ساتھ اہل بیت پہ لکھی ہوئی شاعری بیان کیا کرتے تھے۔

محسن نقوی شاعری کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے استعارے جابجا استعمال کیے۔ ان کی تصانیف میں عذاب دید، خیمہ جان، برگ صحرا، طلوع اشک، حق عالیہ، رخت شب اور دیگر شامل ہیں۔ محسن نقوی کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر نمایاں تھا۔ ان کی رومانوی شاعری نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول تھی۔ ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ محسن نے بڑے نادر اور نایاب خیالات کو اشعار کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ شاعری کی سمجھ رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔

اک ”جلوہ“ تھا، سو گم تھا حجابات عدم میں
اک ”عکس“ تھا، سو منتظر چشم یقیں تھا

محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ محسن کی نثر جو ان کے شعری مجموعوں کے دیباچوں کی شکل میں محفوظ ہو چکی ہے بلا شبہ تخلیقی تحریروں کی صف اول میں شمار کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اور صنف سخن یعنی قطعہ نگاری کے بھی بادشاہ ہیں۔ ان کے قطعات کے مجموعے ”ردائے خواب“ کو ان کے دیگر شعری مجموعوں کی طرح بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ نقادان فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اضافہ قرار دیا۔ مذہبی نوعیت کے قطعات ”میراث محسن“ میں پہلے ہی درج کیے جا چکے ہیں۔ محسن نے اخبارات کے لیے جو قطعات لکھے ان کی زیادہ تر نوعیت سیاسی تھی لیکن ان کا لکھنے والا بہر حال محسن تھا۔

محسن نقوی شاعر اہل بیت کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ اردو غزل کو ہر دور  کے شعرا نے نیا رنگ اور نئے رجحانات عطا کیے۔ محسن نقوی کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کا دامن تو نہیں چھوڑا تاہم اسے نئی شگفتگی عطا کی۔ محسن نقوی کے کلام میں صرف موضوعات کا تنوع ہی موجود نہیں بلکہ زندگی کی تمام کیفیتوں کو انھوں نے جدید طرز احساس عطا کیا۔ محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اہل بیت سے منسوب ہے۔ انھوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی وہ دنیا بھر میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔ ان کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں جن میں بند قبا، برگ صحرا، ریزہ حرف، عذاب دید، طلوع اشک، رخت شب، خیمہ جاں، موج ادراک اور فرات فکر زیادہ مقبول ہیں۔

محسن نقوی نے شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا۔ ان کا سب سے اہم حوالہ تو شاعری ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری صرف الف لیلٰی کے موضوع تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ انھوں نے دنیا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جنھیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔

اردو ادب کا یہ دمکتا چراغ 15 جنوری 1996ء کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا، تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق 45 گولیاں محسنؔ کے جسم میں لگیں۔

یہ جاں گنوانے کی رت یونہی رائیگاں نہ جائے
سر سناں، کوئی سر سجاؤ! اداس لوگو
شہادت سے چند لمحے قبل محسن نقوی نے ایک لازوال شعر کہا تھا کہ
سفر تو خیر کٹ گیا
میں کرچیوں میں بٹ گیا

محسنؔ نے بے انتہا شاعری کی جس میں حقیقی اور مجازی دونوں پہلو شامل تھے۔ ان کی پہچان اہل بیت محمد ﷺ کی شان میں کی گئی شاعری بنی۔

ان کے کئی مجموعہ کلام چھپ چکے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں
بند قبا۔ 1969 ء
برگ صحرا۔ 1978 ء
ریزہ حرف۔ 1985 ء
عذاب دید۔ 1990 ء
طلوع اشک۔ 1992 ء
رخت شب۔ 1994 ء
خیمہ جاں۔ 1996 ء
موج ادراک
فرات فکر
1994 میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا
عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
۔
پھر کون بھلا داد تبسم انھیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
۔
اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تری دید سے وضو کر کے
۔
جو تری زلف سے اترے ہوں مرے آنگن میں
چاندنی ایسے اندھیروں کا ادب کرتی ہے
۔
سنا ہے زلزلہ آتا ہے عرش پر محسن
کہ بے گناہ لہو جب سناں پہ بولتا ہے
۔
غزل۔
فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
بجھتا ہوا دیا نہ مقابل ہوا کے لا
دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
ساحل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل
تھوڑی سی اس کے جسم کی خوشبو چرا کے لا
گر سوچنا ہے اہل مشیت کے حوصلے
میدان سے گھر میں اک میت اٹھا کے لا
محسن اب اس کا نام ہے سب کی زبان پر
کس نے کہا تھا اس کو غزل میں سجا کے لا
غزل
عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے
کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے
سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے
چلیں ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے
مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ہے چراغوں کو بے آبرو کر کے
زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
جلوس اہل وفا کس کے در پہ پہنچا ہے
نشان طوق وفا زینت گلو کر کے
اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسن
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے
نظم
میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ پا مانگتے ہیں
میرا ہر خواب میرے سچ کی گواہی دے گا
وسعت دید نے تجھ سے تیری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے
خواہش دید کا موسم کبھی دھندلا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ تیرے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ میرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں میں تکلم تیرا
رقص کرتا رہے بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چارۂ زخم غم دیدۂ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو کہ سیماب طبیعت ہے تجھے کیا معلوم
موسم ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تیری دید کا منظر جاناں
مجھ سے مانگے گا ترے عہد محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر تیرا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرہ ہے سمندر تری آنکھیں
پھر کون بھلا داد تبسم انھیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں
اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں
ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں
میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں
لٹ کے آباد ہے جو اب تک تو وہ گھر کس کا ہے
سب اونچا ہے جو کٹ کر بھی سر کس کا ہے
ظلم شبیؑر کی ہیت سے نہ لرزے کیونکر
کس نبی ﷺ ہے نواسہ یہ پسر کس کا ہے
جس کو دستک سے بھی پہلے ملے خیرات نجات
کاش سوچے کبھی دنیا کہ وہ در کس کا ہے۔
کس نے مقتل کی زمیں چھو کے معلیٰ کر دی
پوچھنا کربلا سے یہ ہنر کس کا ہے
کس کی ہجرت کے تسلسل سے شریعت ہے رواں
قافلہ آج تلک شہر بدر کس کا ہے
تخت والوں نے معرخ بھی خریدے ہوں گے
لیکن ذکر آج بھی دنیا میں شام و سحر کس کا ہے
لاش اکبرؑ پے قضا سوچ رہی ہے اب تک
جس میں ٹوٹی ہے یہ برچھی وہ جگر کس کا ہے
کون ہر شام غم شے میں لہو روتا ہے
آسمانوں سے ادھر دیدہ تر کس کا ہے
ہاتھ اٹھاتا ہوں ایوان صدر کانپتے ہیں
سوچتا ہوں میرے ماتم میں اثر کس کا ہے
جس کی حد ملتی ہے جنت کی حدوں سے محسن
جزو حسینؑ ابن علیؑ اور سفر کس کا ہے۔
کہتے ہیں بڑے فخر سے ہم غم نہیں کرتے
ماتم کی صدا سنتے ہیں ماتم نہیں کرتے
اپنا کوئی مرتا ہے تو روتے ہو تڑپ کے
پر سبط پیمبر کا کبھی غم نہیں کرتے
وہ لوگ بھلا کیا سمجھیں گے رمز شہادت
جو عید تو کرتے ہیں ماتم نہیں کرتے
کیوں آپ کا دل جلتا ہے کیوں جلتا ہے سینہ
ہم آپ کے سینے پے تو ماتم نہیں کرتے
گریا کیا یعقوب نے انہیں بھی تو ٹوکو
یوسف ابھی زندہ ہے یوں غم نہیں کرتے
حق بات ہے بغض علی کا ہی ہے چکر
تم اس لیے شبیر کا ماتم نہیں کرتے
ہمت ہے محشر میں پیمبر سے یہ کہنا
ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے
محسن یہ مقبول روایت ہے جہاں میں
قاتل کبھی مقتول کا ماتم نہیں کرتے
ھم نے غزلوں میں۔ تمہیں ایسے پکارا محسن
جیسے تم ہو کوئی۔ قسمت کا۔ ستارہ محسن
اب تو خود کو بھینکھارا نہیں جاتا۔ ہم سے
وہ بھی کیا دن تھے کہ تم کو بھی۔ سنوارا محسن
اپنے خوابوں کو۔ اندھیروں کے۔ حوالے کر کے
ھم نے صدقہ۔ تری آنکھوں کا۔ اتارا محسن
ھم تو۔ رخصت کی گھڑی تک بھی نہیں سمجھے تھے
سانس دیتی رہی۔ ہجرت کا۔ اشارہ محسن
ھم کو معلوم ہے۔ اب لوٹ کے آنا۔ تیرا
نہیں ممکن یہ مگر پھر بھی۔ خدارا محسن
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام
مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام
بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
اک سکوت مرگ طاری ہے در و دیوار پر
تونے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے
مجھ کو زنجیریں ملیں ہیں جرات اظہار پر
شاخ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر
سنگ دل احباب کے دامن میں رسوائی کے پھول
میں نے دیکھا ہے نیا منظر فراز دار پر
اب کوئی تہمت بھی وجہ کرب رسوائی نہیں
زندگی اک عمر سے چپ ہے ترے اصرار پر
میں سر مقتل حدیث زندگی کہتا رہا
انگلیاں اٹھتی رہیں محسن مرے کردار پر
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام
مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام
بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام

محسن نقوی کے شعری مجموعے طلوع اشک کی تقریب رونمائی کا انعقاد دو مرتبہ ملتوی ہوا۔ موخر کرنے کا سبب دختر مشرق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی مصروفیات تھا۔ آخر کار 27۔ نومبر 1992 کی تاریخ طے پائی اور جب محسن نقوی تقریب کا دعوت نامہ دینے کے لیے آئے تو اس سے قبل کہ وہ دعوت نامہ دے پاتے ہم نے اپنے ولیمے کا دعوت نامہ انہیں پیش کر دیا۔ ولیمے کا دعوت نامہ دیکھ کر جانی سیدی محسن نقوی نے فرمایا کہ میں اس وقت طلوع اشک کی تقریب کا دعوت نامہ پیش کرنے آیا تھا اور یہ کہہ کر انہوں نے دعوت نامہ عطا فرماتے ہوئے کہا کہ دیکھتا ہوں کہ کسی طرح یہ تقریب رونمائی دو چار دن آگے پیچھے ہو جائے۔ میں نے کہا یا سیدی نہیں نہیں ہرگز نہیں اگر آپ ولیمے میں نہ بھی آ پائے تو کوئی بات نہیں ہم بعد ازاں ایک اور شادی اور ایک اور ولیمے کا اہتمام کر لیں گے۔ لیکن تقریب رونمائی سے فراغت پاکر سیدی محسن کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر آئے ضرور تھے۔

والد گرامی سرکار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی علالت کا معلوم ہوتے ہی عیادت کے لیے آنے والوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والوں میں احمد ندیم قاسمی۔ ڈاکٹر وزیر آغا۔ محترمہ صدیقہ بیگم۔ اشفاق احمد۔ الطاف فاطمہ۔ اجمل نیازی اور سیدی محسن نقوی سرفہرست رہتے۔

جب حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب اور ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کے توسط سے سیدی محسن نقوی کو علم ہوا کہ سرکار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو رب العزت نے اہل بیت اطہار ع کے صدقے میں پوتی سے نوازا ہے تو سیدی محسن نقوی بلاتاخیر بلکہ یوں سمجھیے کہ احمد ندیم قاسمی اور اجمل نیازی کی آمد کے آدھے گھنٹے بعد پہنچ گئے۔ جب سیدی محسن تشریف لائے تو احمد ندیم قاسمی ہماری دختر نیک اختر سیدہ ہانی ظفر کے کان میں اذان دے رہے تھے۔

جب وہ اذان دے چکے تو جانی محسن نقوی نے احمد ندیم قاسمی صاحب سے کہا کہ میری خواہش تھی کہ میں بھی بچی کے کان میں اذان دوں لیکن آپ کے بعد کچھ نامناسب سا محسوس ہو رہا ہے اس پر احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ نہیں نہیں اس میں کیا نامناسب بات ہے۔ میں جب آیا تھا تو اجمل نیازی ہانی ظفر کے کان میں اذان دے رہے تھے لیکن میں نے اپنا فرض اور حق جانا اور میں نے بھی اذان دی۔ بالکل آپ بھی اذان دیجے اس کے بعد سیدی محسن نقوی نے بھی سیدہ ہانی ظفر کے کان میں اذان دی اور اسی دوران ہماری بانو آپا اور ہمارے اشفاق احمد بھی پہنچ گئے۔ اشفاق احمد خاں صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب اور والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے کہا کہ اجازت ہو تو میں بچی کے کان میں اذان دے دوں؟ احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ آپ بڑے ہیں آپ کا حق ہے بسم اللہ کیجے۔

ہمارا دل اور ہمارے دل کی دھڑکن۔ ہمارے شہزادے۔ راج دلارے عجیب اتفاق ہے کہ انہیں ہماری اور ہمیں ان کی محبت و چاہت ورثے میں ملی ہے جی ہاں جناب اسد محسن نقوی اور جناب عقیل محسن نقوی صاحب ہمارے بہت پیارے عزیز بھائی دوست جان و جگر جناب سیدی محسن نقوی کے فرزندان اور محسن نقوی شہید کے حقیقی علمی و ادبی وارث ہیں۔ دونوں فرزندان کی اپنے پیارے ابو جان سے اس قدر مشابہت ہے کہ انہیں اپنے سامنے پاکر بتانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ یہ فرزندان حماد اہل بیت اطہار ع ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کا انداز تکلم بھی ہو بہو سیدی محسن نقوی جیسا ہے۔ کیا شان ہے خالق و مالک کی کہ وہ جس مجلس یا جس محفل میں ہوتے ہیں وہاں محسن نقوی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ برادر محترم اسد محسن نقوی اور برادر محترم عقیل محسن نقوی نے اپنے پیارے ابو جان کی شہادت کے بعد ہم سے سید فخرالدین بلے فیملی سے محبت اور تعلق داری میں کوئی کمی نہیں آنے دی بلکہ انہوں نے تو اس تعلق اور اس بندھن کو نسل در نسل لاجواب اور مستحکم تر بنانے میں کبھی کوئی کمی یا کوتاہی نہیں برتی۔

حماد اہل بیت اطہار ع سیدی محسن نقوی کی شہادت کے ساتھ ہی سید فخرالدین بلے فیملی نے لاہور سے ترک سکونت اختیار کی اور لاہور کو خیرباد کہہ کر ملتان منتقل ہو گئے۔ ابھی سیدی محسن نقوی کی شہادت کو چند برس ہی ہوئے ہوں گے کہ کہیں برادرم عقیل محسن نقوی کو والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی علالت کا علم ہوا تو وہ علامہ ناصر عباس شہید اور پروفیسر شاہد عباس کے ہمراہ والد گرامی کی عیادت کے لیے تشریف لائے تھے۔

ہماری آخری ملاقات بھی بس اسی روز ہوئی تھی اور ہم نے علی الصبح بوقت اذان فجر ان کو رخصت کیا الوداع کہا لیکن جب انہوں نے خود ہی اس آخری ملاقات کو یادگار بنا دیا تو ہم کیا کرتے۔ وہ رخصت ہوئے اور پانچ سات منٹ بعد پلٹ کر آئے اور کہا ایک خاص اور اہم بات یاد آ گئی وہی کہنے کے لیے پلٹ کر آیا ہوں۔ میں نے عرض کیا حکم فرمائیں تو جناب سیدی محسن نقوی نے اپنا یہ شعر سنایا

بھول جانے کی عمر بیت گئی
آوٴ اک دوسرے کو یاد کریں
ہم نے بھی جواباً بس اتنا ہی عرض کیا کہ
بات کو غور سے سنو میری
کاش! آئندہ کوئی بات نہ ہو
سیدی محسن نقوی نے یہ شعر سن کر مجھے گلے لگایا
میرا ماتھا چوما اور کہا اللہ و مولا آباد رکھیں اور غم حسین کے سوا آپ کو کوئی غم نہ دے۔

اور پھر ان کی کیفیت بہت مختلف تھی عجیب تھی وہ جانا بھی چاہ رہے تھے ان کا دل اس ملاقات کو مزید طویل کرنے کی خواہش کر رہا تھا۔ میں نے بہت عاجزی سے کہا بھائی مجھے اچھا نہیں لگ رہا آپ یوں غریب خانے کے باہر کھڑے ہیں آئیے اندر چل کر بیٹھتے ہیں تو سیدی محسن نے کہا کہ تمام رات گزاری ہے اس حرم میں مگر اور یہ کہہ کر پھر کہا آئیے یار کہیں چل کر چائے پی کر آتے ہیں میں نے کہا کہ ہمارے والد نے کسی بات پر روک ٹوک نہیں کی لیکن کوئی اپنا کوئی مہمان گھر سے کھانے پینے باہر جائے Just for Enjoyment الگ بات ہے لیکن اس بات پر مجھے ان سے ڈانٹ پڑے گی خیر وہ وہیں باہر کھڑے کھڑے کھلی ہوا و فضا میں رہنا چاہ رہے تھے لہذا میں نے گھر میں چائے ناشتے کا اہتمام کرنے کو کہا اور مسلسل ان سے باتیں کرتا رہا اور گفتگو میں آنس معین کے اشعار کو شامل کرتے رہے۔ ہم نے وہیں باہر ہی ان کی گاڑی میں بیٹھ کر چائے ناشتہ بھگتایا اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد آنس معین کی آخری غزل کا یہ مصرعہ پڑھا

”خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور“

اور کہا سیدی جانی اب چلتا ہوں ذرا دو گھنٹے سو لوں آج دوپہر بارہ ساڑھے بارہ کا وقت دے رکھا ہے کسی کو اور یہ کہہ کر وہ ہمیں اپنا آخری دیدار کروا کر رخصت ہو گئے۔

پندرہ جنوری انیس سو چھیانوے کی دوپہر لگ بھگ ایک بجے کے قریب جانی سیدی محسن نقوی شاہ کا فون آیا انہوں نے فرمایا جلدی ریڈی ہوجائیں میں آپ کو پک کرنے آ رہا ہوں کہیں جانا آپ کو  لے کر لیکن ابھی یہ نہیں پوچھیے گا کہ کہاں جانا ہے بس بیس پچیس منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔

ہم نے سیدی کے حکم کی تعمیل میں تیاری کی اور ان کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ ڈیڑھ سے دو اور سوا دو اور ڈھائی بجنے کو آئے لیکن سیدی جانی محسن ہی نہ آئے اور ہم نے متعدد بار ان کے کسا انٹر نیشنل کے نمبر پر اور ان کے موبائل پر فون کیا لیکن کوئی جواب نہ آیا تو آخر کار ہم نے اختر بھائی کے نمبر پر فون کیا اور ان سے پوچھا کہ کہاں ہیں سیدی تو ہمیں جواب میں رونے اور دھاڑیں مار مار کر رونے کی آوازیں سنائی دیں

ہم نے محسن نقوی کی شہادت کے وحشیانہ اور ہولناک سانحے پر ہی کہا تھا کہ
کوفے والوں کی ہے انفرادیت واللہ
خیر کے نام پر شر بانٹنا۔ سبحان اللہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments