سوہنی مہینوال داستان: عورت کی سماجی بغاوت کی علامت


محبت کی لوک داستانوں کا رواج پوری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا میں موجود تھا۔ یہ رومانوی داستانیں سندھ، پنجاب، بلوچستان، ایران، عربستان، ہندستان اور دوسرے خطوں میں رائج تھیں۔ سندھ میں ان رومانوی داستانوں یا پیار کی لوک کہانیوں کو ایک کردار کی نسبت سے نیم تاریخی سمجھا جاتا ہے مگر ان داستانوں میں جن کرداروں کو تاریخی سمجھا جاتا ہے ان کی خود تاریخی صحت ہی درست یا قابل قبول نہیں۔ یہ بحث الگ ہے اور طول پکڑ جائے گا۔ یہاں مختصر یہ کہنا ہے کہ یہ نہ تاریخی اور نہ ہی نیم تاریخی ہیں۔ یہ پیار کی داستانیں متھ (Myths) ہیں جو پدر سماج سے پہلے مدر، مادر یا ماں سماج (Matriarchal Society) پر روشنی ڈالتی ہیں جب عورت کو سماجی اہمیت حاصل تھی یہ تب کی داستانیں ہیں۔

داستانوں میں پہلے نام عورت کا آتا ہے جس سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ داستانیں مدر سماج میں رائج تھیں جب عورت کنبے، قبیلے یا گروہ کی سربراہ تھی اور مرد ماتحت تھا۔ اس مفروضاتی سماج کا دور ماہرین نے پتھر کے قدیم دور سے 3000 ق۔ م اور اس کے بعد تک بتایا ہے۔ ہندو مذہب میں ایسی داستانوں میں عورت نے خدا (godess) کا درجہ حاصل کیا اور ہمارے ہاں سورمی یا ہیروئن سمجھی گئی۔

بہرحال ان سب پیار کی لوک کہانیوں میں سے سوہنی مہینوال کو میں اہم اور منفرد سمجھتا ہوں۔ اس کی مجھے یہ وجہ سوجھتی ہے کہ جب مدر سماج ٹوٹ رہا ہو گا اور مرد سماج حاوی ہو رہا ہو گا تو عورت نے بغاوت اور مزاحمت کی ہوگی جس کا عنصر سوہنی مہینوال داستان میں سوہنی کے کردار میں نظر آتا ہے۔ وہ ہی بغاوت اور مزاحمت کا عنصر بعد میں ہمارے سماج میں عورت کی آزادی اور پسند کے حوالے سے نظر آتا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں سوہنی مہینوال کے مروج قصے یا داستان میں تھوڑا فرق ہے۔

سندھ کی داستان کے مطابق سوہنی شادی شدہ ہے اور اس کے خاوند کا نام ’ڈم‘ ہے۔ شادی شدہ عورت کا مہینوال سے عشق دراصل عورت کی پسند اور آزادی کی علامت ہے اور سوہنی کا یہ عمل مرد کی غیرت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور اس لحاظ سے سوہنی ’کارو کاری‘ کی مرتکب ہے۔ کیوں کہ وہ زندگی کی پرواہ کیے بغیر خاوند ’ڈم‘ کو چھوڑ کر دریا کی مست الست لہریں پار کر کے اپنے محبوب مہینوال سے ملنے جاتی تھی جو سماجی طور بڑا جرم ہے۔ مرد اس بات کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کر سکتا اور نہ اجازت دے سکتا ہے۔ سوہنی کا یہ عمل ہر حوالے سے سماجی بغاوت اور مزاحمت کی علامت ہے۔ ساس سے مزاحمت اور گھر والے سے بغاوت سوہنی کی جرات سمجھا جائے یا غلط عمل کہا جائے یا اس کو پاک محبت کا لبادہ اوڑھا جائے مگر یہ پیار کہانی مردانہ سماج کے خلاف بغاوت اور عورت کی آزادی اور پسند کی کہانی ہے۔

سندھ کے بڑے صوفی اور مفکر شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سوہنی کی اس بغاوت کی علامتی انداز میں سپورٹ کی ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں سوہنی کو ہیروئن کے طور پیش کیا ہے۔

سندھ کیا پورے جنوبی ایشیا کی رومانوی داستانوں میں عورت کی محبت کے لئے اس طرح کی بغاوت اور مزاحمت موجود نہیں۔ البتہ دوسری رومانوی داستانوں میں بی بسی اور درد ہے مگر بغاوت کا عنصر یا مضمون شامل نہیں۔ شادی شدہ عورت کی دوسرے مرد سے محبت کرنے والی باغی عورت کو سماج میں ہیروئن اور حق بجانب کے طور پر عوام کے آگے پیش کرنا اور منوانا سیکولر سوچ کے مالک صوفی شعراء، بالخصوص شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کمال ہے جنہوں نے سوہنی کو سورمی (ہیروئن) بنا دیا۔ ورنہ سوہنی مہینوال کی رومانوی داستان کا کردار مردانہ سماج میں سماجی بغاوت اور مزاحمت کی علامت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments