نرس کا بیٹا اور نرس کا شوہر


لکھاری: ڈاکٹر خدیجہ امان اللہ اور ڈاکٹر لبنیٰ مرزا

آج ہم نے اینڈوکرنالوجی کے کلینک میں ایک پچاس سالہ مریض کا معائنہ کیا جن کو ٹائپ ون ذیابیطس تھی۔ جیسا کہ اس سے پچھلے مضامین میں بھی ذکر کیا گیا ہے، ذیابیطس ایک پیچیدہ بیماری ہے جس کی دو اقسام ہیں۔ : ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں جسم کی انسولین بنا نے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ انسولین ایک چابی کی طرح شوگر کے لیے خلیے کے دروازے کھولتی ہے۔ انسولین نہ ہونے کی وجہ سے خون میں شوگر لیول بہت بڑھ جاتا ہے اور یہ شوگر خلیوں کے اندر پہنچ کر توانائی بنانے میں استعمال نہیں ہو پاتی۔

ذیابیطس ٹائپ ٹو میں لبلبہ انسولین تو بنا تا ہے مگر مریض کے جسم میں اس کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے اس کا صحیح طریقے سے استعمال نہیں ہو سکتا۔ انسولین بہت ضروری ہے کیوں کہ جسم میں موجود انسولین کھانے میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کر دیتی ہے۔ اگر ذیابیطس کو بخوبی کنٹرول کیا جائے تو بہت ساری جان لیوا بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں ذیابیطس نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے اور ہر سال اس کے متاثرہ مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ٹائپ ون ذیابیطس جنیاتی طور پر منتقل ہوتی ہے۔ بہت زیادہ پیاس کا لگنا، بہت زیادہ پیشاب کا آنا اور وزن کا کم ہونا ذیابیطس کے ابتدائی علامات میں شامل ہیں۔ ذیابیطس کی پیچیدگیوں میں آنکھوں کی بینائی کا چلے جانا، گردوں کا فیل ہونا، دل کے دورے، نیوروپیتھی یا فالج ہونا شامل ہیں۔ آج بھی سائنس کی ترقی کے باوجود دنیا میں اندھا پن اور گردوں کے فیل ہو جانے یا پیروں کے کٹنے کی نوبت آ جانے کی وجوہات میں ذیابیطس سرفہرست ہے۔ ان مریض کو اینڈوکرائن کلینک میں اس لیے بھیجا گیا تھا تاکہ ان کی ٹائپ ون ذیابیطس کا مزید بہتر طریقے سے خیال رکھا جا سکے۔ اس وزٹ کا احوال سنئیے! اس کہانی کو لکھنے کے لیے مریض کی اجازت لے لی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں، آپ بے شک میرا نام بھی لکھ دیں۔

ڈاکٹر خدیجہ امان اللہ

آپ کو کب سے ذیابیطس ہے؟
مجھے جب ذیابیطس ہوئی تو اس وقت میری عمر صرف چھ سال تھی۔

مجھے یہ دیکھ کر نہایت حیرانی ہوئی کہ حالانکہ ان صاحب کو چھ سال کی عمر میں ذیابیطس ہو گئی تھی اور انہوں نے اپنی زندگی کے چوالیس سال اس پیچیدہ بیماری کے ساتھ گزارے لیکن ان کو اس سے کوئی پیچیدگیاں لاحق نہیں تھیں۔ ان کی ہیموگلوبن اے ون سی صرف چھ اعشاریہ پانچ تھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، امریکن ذیابیطس ایسوسی ایشن کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں میں ہیموگلوبن اے ون سی کا ٹارگٹ سات فیصد ہے۔ یہ میرے ان دیگر مریضوں سے کافی مختلف بات تھی جن کو بگڑی ہوئی ذیابیطس کے ساتھ ہمارے کلینک میں بھیجا جاتا ہے۔

زیادہ تر افراد اتنی طویل ٹائپ ون ذیابیطس کے ساتھ کئی مسائل کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان مریض نے ہمیشہ سے اپنی ذیابیطس کا بہت اچھے طریقے سے خیال رکھا۔ وہ ایک میڈٹرانک کمپنی کا بنایا ہوا انسولین پمپ استعمال کر رہے تھے جس کی وجہ سے ان کے خون میں شوگر کی مقدار نارمل دائرے میں رہتی تھی۔ ان کو معلوم تھا کہ اگر خون میں بلڈ شوگر انتہائی کم ہو جائے تو اس سے کیسا محسوس ہوتا ہے اور اس کو کس طریقے سے ٹھیک کیا جائے گا؟

ان کو پندرہ کا اصول اچھے طریقے سے معلوم تھا۔ اگر بلڈ شوگر 60 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم ہو جائے تو اس کو پندرہ کے اصول سے بہتر کرتے ہیں یعنی کہ پندرہ گرام کاربوہائیڈریٹس لے کر پندرہ منٹ میں دوبارہ چیک کریں گے۔ اگر بلڈ شوگر پھر بھی کم ہے تو یہ دہرائیں گے۔ ان صاحب نے ذیابیطس کے بارے میں بہت تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ ان کو یہ بخوبی معلوم تھا کہ ذیابیطس کے علاج میں دوائی کے ساتھ ساتھ خوراک کا خیال رکھنا بھی اہم ہے۔

جب آپ کو چھ سال کی عمر میں ذیابیطس ہو گئی تو آپ کی کس نے مدد کی؟

میری ماں ایک نرس تھیں اور میری بیوی بھی 27 سال آئی سی یو میں نرس رہی ہے۔ میری امی باقاعدگی سے میری بلڈ شوگر چیک کرتی تھیں اور دوائیاں پابندی سے دیتی تھیں۔ انہوں نے مجھے بہت اچھی طرح سے سکھا دیا تھا کہ اپنی ذیابیطس کا خیال کیسے رکھنا ہے۔ شروع سے ہی مجھے ذیابیطس کے بارے میں مکمل معلومات اپنی والدہ کی وجہ سے حاصل ہو گئی تھیں۔ اور میری بیگم بھی میری صحت سے متعلق معاملات پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔ ہم باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں اور ہمارے گھر میں صحت مند کھانے پکتے ہیں۔

میں نے ان کے چارٹ کو تفصیل سے پڑھا۔ ان کے گردے، جگر، پروسٹیٹ وغیرہ ہر چیز کے ٹیسٹ بالکل نارمل تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہر سال فلو کا انجکشن باقاعدگی کے ساتھ لگواتے ہیں۔ انہوں نے کرونا وائرس کے تینوں انجکشن لگوا لیے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دل کے ڈاکٹر سے اپنا مکمل چیک اپ کروا لیا تھا تاکہ اگر خدانخواستہ مستقبل میں دل کا دورہ پڑنے کا کوئی خدشہ ہو تو اس کے بارے میں حفاظتی اقدام اٹھا لیے جائیں۔

ان مریض کی دوائیوں کی لسٹ میں مشکل سے دو یا تین دوائیاں تھیں حالانکہ آج کل پولی فارمیسی ایک اتنا بڑا مسئلہ بن چکی ہے کہ عام آدمی میں دس پندرہ بیس دوائیاں لینا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ ان صاحب کا بلڈ پریشر، دل دھڑکنے کی رفتار اور ان کا وزن سب کچھ مناسب دائرے کے اندر تھا۔ ان کے جسمانی معائنے کے بعد معلوم ہوا کے ان کے پیروں میں چھونے کو محسوس کرنے کی صلاحیت ختم نہیں ہوئی تھی اور ان کے پیروں کے ناخن اس طرح پیلے سے نہیں لگتے تھے جیسے عموماً ہم ان مریضوں میں دیکھتے ہیں جن کی ذیابیطس قابو میں نہ ہو۔ میں نے مشکل سے کچھ تلاش کیا جو ہم ان کے لیے کر سکیں۔ ان کی عمر پچاس سال ہے اس لیے میں نے ان کو یہ تجویز دی کہ ان کو آنتوں کے کینسر کو بروقت تشخیص کر لینے کے لیے کولانواسکوپی کروا لینی چاہیے جو کہ تمام پچاس سالہ افراد کو تجویز کی جاتی ہے۔

ہم زیادہ تر خوفناک کہانیاں، باتیں اور تصویریں ہی دیکھتے ہیں جن سے مریضوں کو ڈرائیں کہ ان پیچیدگیوں سے بچنے کی کوشش کریں۔ میں نے ان صاحب سے اجازت مانگی کہ میں ان کا دلچسپ کیس پڑھنے والوں کے ساتھ بانٹ سکوں تاکہ ذیابیطس کے مریضوں کو اس سے امید ملے۔ اگر وہ اپنی بلڈ شوگر نارمل دائرے میں رکھیں گے اور دوا باقاعدگی سے لیتے رہیں گے، جدید ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کریں گے، اپنی تعلیم میں اضافہ کریں گے تو اس سے ان کی زندگی بہتر بن سکتی ہے۔

آج کے کیس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی مائیں نرس ہوں اور جن لوگوں کی بیویاں نرس ہوں ان کی صحت اور زندگی پر اس کے کیا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ امریکا میں تین اعشاریہ آٹھ ملین سے زیادہ رجسٹرڈ نرسیں ہیں۔ میری چھوٹی بہن بھی ایک نرس ہے اور میری کئی کزن بھی نرس ہیں۔ اس کیس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کسی خاندان میں نرسیں موجود ہوں تو ان کی زندگی کس طرح سنور سکتی ہے، بہتر بن سکتی ہے۔ ذیابیطس اور اس طرح کی دوسری مختلف بیماریاں جن میں مستقل طور پر خیال رکھنا اور باقاعدگی سے مختلف منہ سے لینے والی اور انجیکشن سے لینے والی دوائیاں لینا ضروری ہوتا ہے، ان میں نرسوں کا کتنا اہم کردار ہے۔

ان مریض کو اینڈوکرائین کلینک میں اس لیے بھیجا گیا تھا تاکہ ان کی ٹائپ ون ذیابیطس کا مزید بہتر طریقے سے خیال رکھا جا سکے لیکن ہم ان کے علاج میں مزید اضافہ کرنے میں کامیاب نہ ہو پائے کیونکہ ان کی ذیابیطس پہلے سے ہی بہت اچھے طریقے سے کنٹرول میں تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments