کیا آپ کے دوستوں کا حلقہ وسیع ہے؟


ہم سب جس معاشرےمیں پلتے بڑھتے ہیں ہم اپنے بچپن میں اس معاشرے کے تعصبات کو لاشعوری طور پر اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ میں نے جب شعور کی آنکھ کھولی اور اپنی زندگی کو تنقیدی اور معروضی انداز سے دیکھنا شروع کیا تو مجھے بھی احساس ہوا کہ رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے حوالے سے بہت سے تعصبات میری ذات اور میری سوچ کا حصہ بن چکے ہیں۔ چنانچہ میں نے ان تعصبات سے بالا تر ہو کر زندگی گزارنے اور دوستی کے حلقے کو وسیع کرنے کی کوشش کی۔ میں نے چینی فلسفی کنفیوشس کے سنہری اصول کو اپنا خضر راہ بنایا۔ کنفیوشس فرماتے ہیں دوسروں سے ویسا ہی سلوک کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ وہ تم سے کریں۔ میری خواہش تھی کہ دیگر رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے لوگ میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں چنانچہ میں نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں پہل کی۔

میرا خاندان پنجابی ہے لیکن میں نے پٹھانوں سے دوستی کی

میرا خاندان سنی ہے لیکن میں نے شیعہ دوست بنائے

میرا خاندان مسلمان ہے لیکن میں نے عیسائی یہودی ہندو اور سکھ دوست بنائے

میں مرد ہوں لیکن میں نے عورتوں سے دوستی کی

میں ہیٹروسیکشول ہوں لیکن میں نے گے مردوں اور لیسبین عورتوں سے دوستی کی

میں ڈاکٹر ہوں لیکن میں نے نرس، سائیکولوجسٹ اور سوشل ورکر دوست بنائے۔

میں ہیومنسٹ ہوں لیکن میں نے کمیونسٹوں اور انارکسٹوں سے دوستی کی۔

دوستوں کا حلقہ وسیع کرنے کے اس شعوری تجربے میں کئی دلچسپ اور کئی تکلیف دہ واقعات بھی پیش آئے۔ آج میں آپ کو دو واقعات سناتا ہوں۔

پہلے واقعے کا تعلق کینیڈا کی ایک دوست سے ہے جن کا نام اینجیلا ہے۔ ان کا تعلق ٹرینیڈاڈ کے سیاہ فام خاندان سے ہے۔ وہ ایک نرس بھی ہیں اور ایک موسیقار بھی۔ ان کی آواز میں بہت سوز ہے۔ جب میں نے وھٹبی کے نفسیاتی ہسپتال میں کام کرنا شروع کیا تو میری ایک اور نرس سے دوستی ہوئی۔ اس نرس کا نام پول تھا۔ میرا ان کے گھر آنا جانا شروع ہوا اور میری پول کی بیگم نینا سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ مجھے اپنے گھر ڈنر پر بلاتے اور بڑی محبت اور اپنائیت سے ملتے۔ ایک دن میں نے پول اور نینا سے کہا کہ آپ کا تعلق ٹرینیڈاڈ کے جزیرے سے ہے میری ایک اور دوست انجیلیا بھی اسی کریبین جزیرے سے تعلق رکھتی ہیں میری خواہش ہے کہ میں آپ کو ایک دوسرے سے ملوائوں۔ میرے قریبی دوست جانتے ہیں کہ میں اکثر اوقات دوستوں کے درمیان ایک دوستی کا پل بن جاتا ہوں ۔ چنانچہ پول اور نینا نے مجھے اور اینجیلا کو اپنے گھر ڈنر پر بلایا۔ میں بڑی خوشی خوشی اینجیلا کو پول اور نینا سے ملوانے لے گیا۔ لیکن وہی پول اور نینا جو مجھ سے بڑی گرمجوشی سے ملتے تھے انجیلا سے بڑی سرد مہری سے ملے۔

اگلے ہفتے جب ہسپتال میں میری ملاقات پول سے ہوئی تو میں نے پوچھا

‘آپ اینجیلا سے اتنی سرد مہری سے کیوں ملے؟،

تو پول کہنے لگے ‘اس کے بال گھنگھریالے ہیں،

اس وقت تو مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اور میں خاموش رہا لیکن تحقیق کرنے پر پتہ چلاکہ کیریبین جزیروں میں دو طرح کے سیاہ فام لوگ رہتے ہیں۔ گھنگھریالے بالوں والے لوگوں کے آباواجداد کا تعلق افریقہ سے جبکہ سیدھے بالوں والے لوگوں کے آبا و اجداد کا تعلق ہندوستان سے ہے اور ہندوستانی نژاد اپنے آپ کو افریقی نژاد لوگوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ گھنگھریالے بالوں والے لوگوں کو حبشی اور کمتر سمجھتے ہیں۔ مجھے اس تعصب کا بالکل اندازہ نہ تھا۔

دوسرا واقعہ اس وقت پیش آیا جب میرے گے شاعر دوست افتی نسیم شکاگو سے ٹورانٹو ایک مشاعرہ پڑھنے آئے اور چند دن میرے مہمان رہے۔ مشاعرے میں ان کے دو شعروں کو بہت داد ملی۔ پہلا شعر تھا

اک نئے عہد کی بنیاد کو رکھا جائے

دور ماں باپ سے اولاد کو رکھا جائے

دوسرا شعر تھا

ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے

زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا

مشاعرے کے بعد ہم جس پاکستانی دوست کے ہاں ڈنر پر گئے اس دوست نے اپنی بیوی سے باورچی خانے میں کہا

“جس گلاس میں افتی نسیم نے پانی پیا ہے اسے بعد میں کوڑے میں پھینک دینا۔”

اس دوست کو خبر نہ تھی کہ میں ان کا مکالمہ سن رہا ہوں اور مجھے بھی خبر نہ تھی کہ ان کے دل میں گے اور لیسبین لوگوں کے خلاف اتنا تعصب پوشیدہ ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی میں اب ہمارے ذہنوں اور دلوں میں جو رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے حوالے سے تعصبات چھپے ہوئے ہیں ہمیں ان پر نطر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں انسانوں کو انسان سمجھ کر ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

ہمیں جلد یا بدیر اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم سات ارب انسان ایک ہی خاندان کے افراد ہیں اور اس خاندان کا نام انسانیت ہے۔ یہی احساس اور شعور انسان دوستی کے فلسفے کی بنیاد ہے۔

میں نے شمالی امریکہ کے سرخ فام قبیلے کے چیف سئیٹل کی تقریر سے یہ بھی سیکھا ہے کہ دوسرے انسان ہی نہیں مچھلیاں، پرندے اور جانور بھی ہمارے بہن بھائی ہیں کیونکہ وہ بھی ہماری طرح آسمانی باپ اور دھرتی ماں کے بچے ہیں۔ وہ ارتقا کے سفر میں ہمارے ہمسفر رہے ہیں اسی لیے وہ سب ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail