عالم آرا: اس گمشدہ فلم کی تلاش جس نے بالی وڈ کو جنم دیا

سوتک بسواس - بی بی سی نامہ نگار، انڈیا


رواں ماہ کے شروع میں انڈیا کے شہر ممبئی میں ایک گروپ نے ایسی چیز دریافت کی ہے جو پہلی ہندوستانی (بولنے والی) فلم کی واحد بچی ہوئی کڑی دکھائی دیتی ہے۔

ایوارڈ یافتہ فلم ساز، آرکائیوسٹ اور پرانی چیزوں کی بحالی کرنے والے شیویندر سنگھ ڈنگر پور کی قیادت میں ایک ٹیم کو اچانک ایک پرانی مشین مل گئی جو سنہ1931 کی فلم عالم آرا کے پرنٹس بنانے کے لیے استعمال کی گئی تھی اور غائب ہو گئی تھی۔

شکاگو کی بیل اینڈ ہاویل کی بنی ہوئی یہ فلم پرنٹنگ مشین ساڑھیاں فروخت کرنے والی ایک کرائے کی دکان میں بے کار پڑی تھی۔

اصل میں یہ مشین فلم پروڈیوسر اور ہدایت کار اردشیر ایرانی کی ملکیت تھی لیکن بعد میں اسے دوارکاداس سمپت نے خرید لیا تھا۔ دوارکا داس بذات خود ممبئی میں ایک فلم سٹوڈیو اور پروسیسنگ لیبارٹری کے مالک بھی تھے۔

ڈنگر پور کہتے ہیں کہ ’یہ عالم آرا کا واحد بچ جانے والا نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ فلم کا کچھ بھی نہیں بچا۔‘

سمپت خاندان نے اس مشین کو خریدنے کے لیے سنہ 1962 میں 2500 روپے ادا کیے تھے۔ ان کی لیب میں سنہ 2000 تک فلموں کی پرنٹنگ جاری تھی، جہاں بنیادی طور پر سرکاری فلمز ڈویژن کی طرف سے تیار کی جانے والی فلموں کی پرنٹنگ ہوتی تھی۔

سٹوڈیو چلانے والے نلین سمپت کہتے ہیں کہ ’یہ کسی دوسری مشین کی طرح ہی ایک اور پرنٹنگ مشین تھی لیکن اس سے بہت زیادہ جذباتی لگاؤ تھا۔ سینما کے ڈیجیٹل ہونے کے بعد ہم نے اسے استعمال کرنا بند کر دیا۔‘

خیال رہے کہ ڈنگر پور فلم ہیریٹیج فاؤنڈیشن چلاتے ہیں، جو کہ ممبئی میں واقع ایک غیر منافع بخش فلم آرکائیو ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے مسٹر ڈنگرپور بغیر کسی کامیابی کے عالم آرا کی کاپی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر اپیل کی، لیکن انھیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ کسی نے بتایا کہ الجزائر میں ایک فلم آرکائیو ہے جہاں متعدد پرانی ہندوستانی فلمیں موجود ہیں۔ آرکائیو نے ڈنگرپور سے وہاں آ کر تلاش کرنے کو کہا، لیکن ڈنگر پور ایسا نہیں کر سکے۔

ایک اور پر تجسس اشارہ ایران میں موجود فلم آرکائیوز ہے۔ جس وقت ایرانی ممبئی میں عالم آرا کی شوٹنگ کر رہے تھے اس وقت ان کا سٹوڈیو فارسی زبان میں پہلی بات کرنے والی فلم لور گرل بھی بنا رہا تھا۔

ڈنگر پور کہتے ہیں: ’ایران نے عالم آرا اور لور گرل دونوں کے لیے ایک جیسے کپڑوں میں ملبوس پس منظر کے اداکاروں کا استعمال کیا تھا۔ عالم آرا غائب ہو گئی لیکن لور گرل ایران کے آرکائیوز میں دستیاب ہے۔’

انڈیا کے معروف فلم سکالر اور آرکائیوسٹ پی کے نائر نے ایک بار کہا تھا کہ وہ یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ عالم آرا ’مستقل طور پر کھو‘ گئی ہے۔ نائر کی سنہ 2016 میں موت ہو گئی۔ لیکن اطلاعات کے مطابق وہ خود فلم کی تلاش میں گئے اور ایرانی خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد سے ملے۔

خاندان کے ایک رکن نے انھیں بتایا تھا کہ اس کی ’کچھ ریلیں کہیں پڑی ہوں گی۔‘ ایک اور نے کہا کہ انھوں نے ’ان سے چاندی نکالنے کے بعد تین ریلوں کو ٹھکانے لگایا تھا۔‘

عالم آرا کی شوٹنگ نائٹریٹ فلم پر کی گئی تھی جس میں دیگر فلمی ریلوں کے مقابلے میں چاندی کا مواد زیادہ تھا۔

ڈنگر پور کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ جب خاندان پر برا وقت آیا تو پیسہ حاصل کرنے کے لیے فلم کی ریل سے چاندی نکال کر فلمیں تباہ کر دی گئیں ہوں۔ ان کے مطابق ’ایسا ان گنت دیگر فلموں کے ساتھ بھی ہوا۔‘

فلموں کو محفوظ کرنے میں انڈیا کا ریکارڈ ناقص ہے۔ سنہ 1912 سے 1931 کے درمیان بننے والی 1,138 خاموش فلموں میں سے زیادہ تر اب موجود نہیں ہیں۔

پونے میں سرکاری فلم انسٹی ٹیوٹ نے ان میں سے 29 فلموں کو محفوظ کیا ہے۔ جبکہ تھائی لینڈ میں دکانوں، گھروں، تہہ خانوں، گوداموں اور یہاں تک کہ ایک سنیما ہال میں بہت سے پرنٹس اور نیگیٹو پائے گئے ہیں۔ فلمساز مرنال سین کو ایک پرانے گھر میں ایک پرانے بنگالی ٹاکی کے پرنٹس پڑے ہوئے ملے جہاں وہ 1980 میں ایک فلم کی شوٹنگ کر رہے تھے۔

لیکن عالم آرا کھو جانے والی فلموں میں سب سے اہم فلم ہو سکتی ہے۔ سنہ 1929 کے ہالی وڈ کے رومانٹک ڈرامے شو بوٹ اور تھیٹر سے بہت زیادہ متاثر ہو کر ابتدائی گویا فلمیں بنی تھیں۔

یہ فلم افسانوی بادشاہت پر مبنی تھی جس میں ’ایک دوسرے سے برسرپیکار رانیوں، محل کی سازشوں، حسد اور رومانس‘ کی کہانی پیش کی گئی تھی۔ برطانوی فلم انسٹی ٹیوٹ نے اسے ’ایک شہزادے اور خانہ بدوش لڑکی کے درمیان محبت پر مرکوز ایک رومانوی ڈرامہ‘ قرار دیا۔

124 منٹ کی اس فلم کو بند دروازوں کے پیچھے شوٹ کیا گیا تاکہ شور کو دور رکھا جا سکے۔ جس سٹوڈیو میں اس کی شوٹنگ کی گئی تھی وہ ممبئی کی ریلوے پٹریوں کے پاس تھا اس لیے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے عملے نے رات کو اس وقت شوٹنگ کی جب ٹرینیں نہیں چلتی تھیں اور اس کی وجہ سے فرش نہیں ہلتے تھے۔

چونکہ آواز ریکارڈ کرنے کے لیے اس وقت بوم مائیک نہیں تھے، اس لیے مائیکروفون اداکاروں کے ارد گرد ’ناقابل یقین جگہوں‘ میں رکھے گئے تھے۔ یہ اداکار اردو اور ہندی میں بات کرتے تھے اور وہ مائیک ایسی جگہ رکھے ہوتے کہ وہ کیمرے میں نظر نہ آئيں۔ گیتوں میں موسیقی کے لیے موسیقار درختوں پر چڑھ جاتے یا چھپ کر اپنے آلات بجاتے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس فلم میں وزیر محمد خان نے ایک عمر رسیدہ بھکاری کا کردار ادا کیا تھا اور فلم میں انھوں نے ہی پہلا ہندوستانی فلمی گانا گایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ستیہ جیت رے: انڈیا کا وہ فنکار جس کے پاس ’تیسری آنکھ‘ تھی

برصغیر میں دکھائی جانے والی پہلی فلم جسے دیکھ کر ’خواتین غش کھا گئیں، مرد دوڑ پڑے‘

سہراب مودی: برصغیر کے وہ ہدایتکار جن کی فلموں کے شائقین نابینا افراد بھی تھے

اردشیر ایرانی نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ انھوں نے آواز کی ریکارڈنگ کی بنیادی باتیں ’ایک غیر ملکی ماہر مسٹر ڈیمنگ سے حاصل کی ہیں، جو ہمارے لیے مشین اسمبل کرنے کے لیے بمبئی (اب ممبئی) آئے تھے۔‘

مسٹر ڈیمنگ نے اس کے عوض پروڈیوسرز سے یومیہ 100 روپے وصول کیے۔ انھوں نے کہا کہ ’ان دنوں یہ ایک بڑی رقم ہوتی تھی جسے ہم برداشت نہیں کر سکتے تھے، اس لیے میں نے دوسروں کی مدد سے فلم کی ریکارڈنگ کا کام خود سنبھال لیا۔‘

یہ فلم 14 مارچ سنہ 1931 کو ریلیز ہوئی۔ پولیس کو تھیٹروں کے باہر پرجوش ہجوم کو کنٹرول کرنا پڑا۔ ایک فلم ناقد نے کہا کہ ’غیر اہم پلاٹ نے گیتوں اور رقص کے بے شمار مناظر کو ایک ساتھ رکھنے سے زیادہ کام نہیں کیا۔‘ فلم کی ہیروئن زبیدہ لوگوں کی کشش کا مرکز تھیں جنھوں نے ‘معصومیت اور شہوت انگیزی’ کا مرکب پیش کیا تھا۔

ستارہ دیوی ایک مشہور ہندوستانی رقاصہ ہیں۔ انھوں نے یہ فلم دیکھی تھی۔ انھوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ‘بہت سنسنی خیز’ فلم تھی۔ ستارہ دیوی نے ڈنگرپور کو بتایا کہ ‘لوگ ٹائٹل کارڈ پڑھ کر خاموش فلمیں دیکھنے کے عادی تھے۔ اب کردار بول رہے تھے۔ لوگ تھیٹر میں کہہ رہے تھے کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟’

بہر حال آج فلم ‘عالم آرا’ کی جو باقیات ہیں ان میں چند تصویریں، پوسٹرز اور ایک پروموشنل کتابچہ شامل ہے۔ شاہد حسین منصوری ممبئی میں فلمی سامان فروخت کرنے والی دکان کے مالک ہیں اور ان کے پاس اس فلم کا کتابچہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ ہمارے ساتھ تقریباً 60 برسوں سے زیادہ عرصے سے ہے۔ میں نے سنا ہے کہ یہ واحد دستیاب کتابچہ ہے۔ آج کوئی بھی ان چیزوں کی اصلی قدرو قیمت نہیں جانتا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments