بولٹن مارکیٹ دھماکہ: ’وہ میرا بازو اور ساتھی تھی‘

محمد زبیر خان - صحافی


'میری دنیا لٹ چکی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے ثنیا کو قبر میں لٹایا ہے۔ وہ میرا بازو اور ساتھی تھی جس نے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھے تھے۔'

کراچی کی بولٹن مارکیٹ میں پیر کو بم دھماکے میں ہلاک ہونے والی خاتون ثنیہ خالد کے خاوند محمد خالد نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ‘میرا اور میری اہلیہ کا کیا قصور تھا؟ ہم تو صرف اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے محنت اور کام کر رہے تھے۔’

ثنیہ اور محمد خالد کے چار کم عمر بچے ہیں اور محمد خالد کے مطابق گھر کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے ان کی اہلیہ نے کچھ عرصے قبل کپڑوں اور دوپٹوں کا کام شروع کیا تھا۔ وہ ہر کچھ دنوں کے بعد بولٹن مارکیٹ جاتی تھی جہاں پر تیار کام دوکان داروں کو دے کر نیا کام لے کر آتی تھی۔

‘پیر کو بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ مجھے دھماکے کی اطلاع ملی اور پھر مارکیٹ کے تاجروں نے فون کر کے مجھے بتایا کہ کیا ہوا ہے۔’

محمد خالد کہتے ہیں کہ انھوں نے اس واقعے کی دلخراش وڈیو بھی دیکھی ہے۔ ‘پتا نہیں میرا بیٹا کبھی زندگی میں اس غم کو بھلا پائے گا کہ نہیں۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔’

ثنیہ خالد کے والد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی بیٹی کپڑا لینے بازار گئی تھیں اور بیٹا رکشہ روک کر ماں کا انتظار کر رہا تھا کہ دھماکہ ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گلی میں رکشہ روکنے کی وجہ سے ٹریفک جام ہوگیا تھا اور پولیس موبائل والے پیچھے سے ہارن دے رہے تھے۔ ‘اگر رکشہ نہ رکتا تو موبائل کو نقصان ہوتا۔ میری بیٹی کو سینے کے قریب زخم لگا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔’

مقتولہ کی نماز جنازہ ادا کردی گئی ہے۔

بولٹن مارکیٹ میں موقع پر موجود تاجر کے مطابق دھماکے کے بعد جب دھوان چھٹا اور وہ موقع پر پہنچے تو خاتون کی لاش گری پڑی تھی۔

‘ کچھ تاجر خاتون کو جانتے تھے یہ ان کے لیے سلائی کڑھائی کا کام کرتی تھیں۔ ابھی میں صورتحال سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ ایک نوعمر لڑکا جو کہ زخمی تھا دوڑتا ہوا آیا اور وہ مسلسل ماں ماں ماں کہہ رہا تھا۔’

وہ لڑکا اپنی ماں کے قریب پہنچ کر لپٹ اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگا ماں اٹھو، ماں اٹھو، ماں اٹھو۔

تاجر کے مطابق یہ منظر اتنا زیادہ دلخراش تھا کہ میں اس سے زیادہ نہیں دیکھ سکا اور موقع پر موجود کئی لوگ دھاڑیں مار کر رونے لگے۔

ایک اور تاجر کا کہنا تھا کہ بہت لوگ وہاں پر وڈیو بنا رہے تھے۔ مجھے یہ نہیں پتا چلا کہ بچہ کہاں سے آیا میں نے بس اس کے رونے اور چلانے کی آوازیں سنی ہیں جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ ماں اٹھو، ماں اٹھو، ماں اٹھو۔

مگر اس کی ماں اس دنیا میں نہیں تھی۔ خاتون ہونے کی بنا پر موقع پر موجود لوگ بھی خاتون کو ہاتھ لگانے سے گریز کر رہے تھے۔ مگر پھر کچھ لوگوں نے ہمت کر کے خاتون کو دیکھا اور بتایا کہ وہ ہلاک ہو چکی ہیں۔ جس کے بعد ایدھی اور چھپیا کی ایمبولینس پہنچ گئیں۔

یہ بھی پڑھیے:

کراچی: کھارادر میں بم دھماکے سے خاتون ہلاک، نو زخمی

کراچی کے علاقے صدر میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم سندھ ریولوشنری آرمی کون ہے؟

کراچی یونیورسٹی دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے والا مجید بریگیڈ کون ہے؟

ایک اور وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر لگانے والے تاجر کا کہنا تھا کہ بیٹے کا ماں کے لیے پیار کا منظر اتنا تکلیف دہ تھا کہ وہ سولہ سیکنڈ سے زیادہ اپنے موبائیل پر وڈیو نہیں بنا سکے۔ ‘بیٹا اپنی ماں سے چمٹ گیا تھا۔ اس کی ماں کو ایمبولینس میں ڈالنے کے لیے بمشکل الگ کیا گیا۔

واقعہ کے ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ حملے کا ٹارگٹ پولیس موبائل تھی لیکن درمیاں میں خاتون کا رکشہ آ گیا تھا جس وجہ سے وہ نشانہ بن گئیں۔

ایک اور تاجر کا کہنا تھا کہ پولیس موبائل سامنے سے آ رہی تھی کہ اچانک یہ رکشہ سامنے آ گیا اور دھماکہ ہوا۔

موقع پر موجود ایک پولیس اہلکار کے مطابق دھماکہ ہوا تو ایسے لگا کہ شاید ٹارگٹ پولیس موبائل تھی مگر رکشہ ٹارگٹ بن گیا۔

‘دھواں کم ہوا تو ہم لوگ فوراً نیچے اترے تو خاتون کی لاش پڑی ہوئی تھی جبکہ قریب ہی اس کا بیٹا زخمی تھا۔ بیٹا ماں کو دیکھ کر دوڑتا ہوا آیا تھا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments