چینی استادوں کے پاکستان سے چلےجانے کے بعد کنفوشیس سینٹروں میں آن لائن کلاسز کا امکان


چینی استاد
’اس دھماکے نے صرف ہم سے ہمارے ٹیچرز نہیں بلکہ ہمارا مستقبل بھی چھین لیا۔ دھماکے کی وجہ سب سے زیادہ نقصاں ہم طلبہ کا ہوا کیونکہ تدریسی عمل روک دیا گیا۔‘

یہ کہنا ہے کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ میں زیر تعلیم روپا چانڈیو کا جو سنہ 2018 سے اس ادارے سے منسلک ہیں۔

روپا چانڈیو کا کہنا ہے کہ وہ لیول فائیو کی طالبہ ہیں اور ان کو چین کی سکالرشپ بھی ملی ہوئی ہے لیکن اب وہ اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ وہ اس سکالر شپ پر جا بھی پائیں گی یا نہیں کیونکہ چینی اساتذہ کی واپسی کے بعد سے یہاں اب ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں رہا۔

یاد رہے کہ 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں ہونے والے ایک خودکش دھماکے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی۔

کراچی میں 15 چینی اساتذہ موجود تھے، جن میں سے تین خودکش دھماکے میں ہلاک ہوئے جبکہ 12 اپنے وطن چین واپس چلے گئے ہیں۔ چینی اساتذہ کی اپنے وطن واپسی اور انسٹیٹیوٹ بند ہونے کی اطلاعات پر طلبہ اس ذہنی کشمکش کا شکار ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا اور کیا وہ اپنا کورس مکمل کر پائے گے۔

کراچی حملہ

روپا نے بتایا کہ ادارے کی جانب سے سٹوڈنٹس کو ابھی تک کوئی واضح احکامات نہیں دیے گئے۔ اب تک صرف یہ بتایا گیا ہے کہ مئی میں ہونے والے سالانہ امتحانات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

روپا کہتی ہیں کہ اس حوالے سے ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا کہ انسٹیٹیوٹ کب کھلے گا یا کھلے گا بھی کہ نہیں اور اس وجہ سے مزید غیر یقینی پھیل رہی ہے۔

دوسری جانب چینی اساتذہ کی وطن واپسی اور طلبا میں پھیلی بے چینی کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اگلے ہفتے سے آن لائن کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کنفیوشس انسٹیٹیوٹ میں کتنے طلبا زیر تعلیم ہیں؟

کراچی یونیورسٹی میں قائم کنفیوشس انسٹیٹیوٹ ہیڈ آفس کے طور پر کا م کر رہا تھا جہاں 300 سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں جبکہ اس کے علاوہ چھ دیگر سائٹ کیمپس بھی شہر کی مختلف یونیوسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں قائم ہیں۔ سب سے زیادہ طلبا نیشنل یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (این ای ڈی) یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، جہاں 2500 کے لگ بھگ سٹوڈنٹس ہیں۔

این ای ڈی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین کا رشتہ محبت کا رشتہ ہے جس کو اس طرح کے بزدلانہ حملوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ اپنے وطن واپس جانے والے اساتذہ شدید ذہنی تکلیف سے دوچار ہونے کے باعث روانہ ہوئے ہیں اور جلد ان کے نعم البدل کا انتظام کر لیا جائے گا۔

کراچی کے علاوہ اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد میں بھی چائینز لینگویج سینٹر قائم ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں طالبعلم چینی زبان کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ گوجرانوالہ میں قائم سینٹر کو جلد آپریشنل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔

کنفیوشس انسٹیٹیوٹ اور اس سے منسلک کیمپسوں میں ہر سیمسٹر میں چار سے پانچ ہزار طالبعلم زیر تعلیم ہوتے ہیں۔

لاہور میں صورتحال

پنجاب یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی افسر کرنل عبید نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ لاہور میں کنفوشیس انسٹیٹیوٹ کو بند نہیں کیا گیا ہے اور تب بھی بند نہیں کیا گیا تھا جب کراچی میں حملے کی اطلاع ملی تھی۔

نمائندہ بی بی سی سحر بلوچ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہاں خطرہ تھا اور اب بھی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ موجودہ ڈائریکٹروں کی حفاظت اور انسٹیٹیوٹ کے اطراف میں حفاظتی اقدامات بڑھا دیے گئے ہیں۔ ساتھ میں ہم طلبہ سے معمول کی پوچھ گچھ اور اپنی طرف سے تمام ایس او پیز پر عمل کر رہے ہیں۔‘

’بلوچستان میں کوئی چینی استاد ہے ہی نہیں‘

ایسی اطلاعات تھیں کہ کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ پر ہونے والے خود کش حملے کے بعد پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح یونیورسٹی آف بلوچستان میں بھی چینی زبان سکھانے کے مرکز کو تاحکم ثانی بند کیا گیا ہے۔

جب ان اطلاعات کی تصدیق کے لیے وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمان سے فون پر رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چینی زبان سکھانے کے مرکز کی بندش کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

انھوں یونیورسٹی میں چینی زبان سکھانے کے مرکز میں کوئی غیر ملکی نہیں اور اس میں تدریسی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف اس سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد کامران تاج اور دیگر تمام عملہ مقامی ہیں اور ان میں کوئی بھی غیر ملکی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مرکز میں چینی زبان کے چھوٹے چھوٹے کورس کرائے جاتے ہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی میں چینی زبان کے مرکز کے ڈائریکٹر محمد کامران تاج نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر اس مرکز کی بندش کے حوالے سے ایک فیک نیوز آئی تھی چونکہ یہ خبر فیک تھی جس کی وجہ سے ہم نے اس کو اہمیت نہیں دی۔

ڈاکٹر محمد کامران نے بتایا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں یہ مرکز سنہ 2019 میں قائم کیا گیا تھا اور اس میں اس وقت سو لوگ مختلف کورس کررہے ہیں جبکہ مجموعی طور پر اس سے اب تک 300 لوگ فارغ ہوچکے ہیں۔

’پاک چین تعلقات میں کوئی دراڑ نہیں آئی‘

جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر ڈاکڑنعیم احمد سمجھتے ہیں کہ جامعہ کراچی میں چینی اساتذہ پر حملے کے بعد پاکستان اور چین کے تعلقات پر کوئی دراڑ نہیں پڑی البتہ تدریسی عمل میں وقتی طور پر رکاوٹ ضرور آئی ہے، جس کے لیے پہلے مرحلے میں آن لائن کلاسز جیسے اقدامات کئے جارہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’جہاں تک چین کی حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی بات ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں موجود چینی باشندوں کی سکیورٹی بڑھا دی جائے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس دباؤ کے نتیجے میں پاکستان اور چین کے تعلقات خراب ہو گئے یا کوئی دراڑ پڑ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے قبل بھی پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ چین کا سفارتی عملہ تاحال پاکستان میں موجود ہے، اگر تعلقات میں دراڑ پیدا ہوتی تو چین اپنے سفارتکاروں کو یقیناً واپس بلا لیتا۔‘

واضح رہے کہ اس ضمن میں چینی قونصلیٹ سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کے باوجود رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔

کنفوشیس انسٹیٹیوٹ کیسے کام کرتے ہیں؟

کنفوشیس انسٹیٹیوٹس میں چینی زبان کو فروغ دینے کے علاوہ چینی کلچر کے بارے میں بھی پڑھایا جاتا ہے جس میں کیلیگرافی، کھانے پکانا اور تائی چی بھی شامل ہے۔ یہ انسٹیٹیوٹ ]طالبِ علموں کے تبادلے کے تعلیمی پروگرام بھی چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عوامٹی سطح پر لیکچرز کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

پہلا کنفوشیس انسٹیٹیوٹ سنہ 2004 میں جنوبی کوریا میں کھولا گیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے اختتام تک دنیا بھر میں تقریباً 548 کنفوشیس انسٹیٹیوٹ ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا بھر میں پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں ایک ہزار ایک سو ترانوے کنفوشیس کلاس روم ہیں۔

انڈیا میں مُمبئی یونیورسٹی کی ٹیچر شیخا پانڈے نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس ہر طرح کے پس منظر سے طالبِ علم آتے ہیں جن میں آئی ٹی، بزنس، کالج سٹوڈنٹس اور رٹائرڈ افراد شامل ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان افراد کا مقصد بالکل واضع ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اپنی پرففیشنل صلاحیت بڑھانے کے لیے چینی زبان سیکھی جائے۔

کنفوشیس انسٹیٹیوٹ کسی بھی مقامی یونیورسٹی یا سکول اور چین میں ان کی پارٹنر یونیورسٹی کے ساتھ اشتراک کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس اشتراک میں چین کی متنازع سمجھی جانے والی وزارتِ تعلیم کی ایجنسی ہین بین بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ ایجنسی ان انسٹیٹیوٹس کی نگرانی، کسی حد تک فنڈنگ، سٹاف اور کئی طرح سہولیات فراہم کرتی ہے۔

ان انسٹیٹیوٹس کو حکومت کی بڑی مالی مدد حاصل ہے۔ چین کا ہدف ہے کہ دنیا بھر میں چینی زبان سیکھنے کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچائی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments