حیدر خان حیدر کی تصنیف: جمال فرش و فلک


علم و ادب کے درخشاں ستارے، ارض شمال کے مایہ ناز شاعر، معروف ادیب، محقق، ماہر تعلیم، خودنمائی سے بے نیاز انتہائی پارسا شخصیت اور سرپرست اعلیٰ گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول چھلت نگر استاد معظم جناب حیدر خان حیدر ؔ لگ بھگ چار دہائیوں سے ادبی منظر نامے پر جلوہ افروز ہیں۔ ان کی لازوال ادبی اور سماجی خدمات کا زمانہ معترف ہے۔ انھوں نے نونہالان قوم کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کی خدمت کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔

حال ہی میں ان کی پہلی شعری تصنیف ”جمال فرش و فلک“ زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ہے۔ گو کہ اس سے قبل بھی ان کے قلم سے متعدد ادبی نسخے تخلیق پائے ہیں ’مگر یہ اپنی نوعیت کی منفرد شعری گلدستہ ہے۔ اس کلام میں اکثر نظمیں فطرت اور ماحول سے متعلق ہیں اور شاعر کی فطرت پرستی پورے مجموعہ کلام میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ انھیں فطرت سے والہانہ لگاؤ رہا ہے۔ انھوں نے فطرت کا بغور مشاہدہ کیا اور اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔

اس کا سرورق نہایت دلکش، خوب صورت و معنی خیز ہے۔ سرورق پر راکا پوشی کا فلک بوس پہاڑ برف کی سفید چادر اوڑھ کر کھڑا ہے‘ جو قاری کی دلچسپی بڑھانے کے لیے کافی ہے۔ کتاب کا دیدہ زیب اور خوش رنگ سرورق قاری کو پہلی ہی نظر میں متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کا نام ہی اس کے اندر موجود تحریروں کا مکمل ترجمان اور عکاس ہے۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں۔

بقائے زندگی کا انحصار ماحول پر ہے
”جمال فرش و فلک“ کا مدار ماحول پر ہے
بنائی خالق ارض و سماء نے یہ دنیا
ہماری زیست کا دار و مدار ماحول پر ہے

اس مجموعہ کلام میں جہاں انسان اور ماحول کو موضوع بنایا گیا ہے ’وہیں بچوں کی دعائیں اور حب الوطنی سے لبریز ترانے بھی شامل ہیں۔ موضوعات کی کثرت اور قدرتی رعنائیوں کی بوقلمونی اس تصنیف کی پہچان ہے۔ اس میں غنائیت کا بھر پور عکس جھلکتا ہے۔ اسی لیے تو وجاہت حسین نگری نے ان کے کلام کو خوش الہانی کے زیور سے پیراستہ کر کے ہوا کے دوش پہ سوار کر دیا ہے۔ خود استاد محترم کی من موہنی اور کانوں میں رس گھولتی خوبصورت آواز ہے‘ جو ایک بار سنیں تو بار بار سننے کو دل کرتا ہے۔ انھوں نے مختلف تقاریب میں نظمیں گا کر شرکائے محفل سے داد تحسین سمیٹا ہے۔

223 صفحات پر مشتمل یہ کتاب سادگی، دیدہ زیبی اور نہایت سلیقے سے مرتب کی گئی ہے۔ اس کی تدوین و تالیف بڑی اہتمام و انہماک سے کیا گیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ پر مصنف کی عظمت پر نوید نگری ؔ کا لکھا گیا کلام ”معلم بے بدل“ نمایاں ہے جو تصنیف کی دلکشی کا باعث ہے۔ ساتھ ہی مصنف کا مختصر تعارف بھی شامل ہے ’جو بلاشبہ قاری اور مصنف کے درمیان ربط قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ شاعری مجموعی طور پر سادہ، عمیق اور اثر انگیز ہے جو قاری کے معیار پر اترنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اگرچہ بعض شعرا کی شاعری بڑی بلند ہوتی ہے‘ مگر وہ ثقالت کی وجہ سے اپنے قارئین کا دائرہ بہت محدود رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس استاد حیدر خان نے ثقیل اظہار بیان سے اجتناب کرتے ہوئے اشعار کو عام فہم بنانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے تاکہ اپنے قارئین کا دائرہ وسیع کر سکے۔

مصنف کی سلاست بیانی الفاظ کی روانی اور خیالات کی فراوانی ان کے حسن کلام کو نکھارتی ہے۔ اس گلدستے سے آنے والی مہک مشام جاں کو معطر رکھتی ہے۔ ان کے اشعار میں جمود نہیں بلکہ جدید انداز فکر نظر آتا ہے۔ اشعار میں زبان کی سادگی کے ساتھ شائستگی جابجا نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں حمد، نعت معرفت و عشق حقیقی کے نشان ملتے ہیں وہیں تصنع سے پاک عارفانہ و صوفیانہ رنگ بھی نمایاں ہے۔ سوقیانہ و عامیانہ پن سے پاک اخلاقیات پر مبنی یہ مجموعہ کلام اعلیٰ شعری تخلیق ہے۔

بلاشبہ یہ بے مثال شاعری اردو ادب میں ایک اضافہ اور اردو ادب کا بیش بہا خزانہ ہے۔ کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ادبی ذوق مطالعہ کے حامل افراد کے لیے یہ کتاب ایک بہترین انتخاب ثابت ہوئی ہے۔ اسے ہر صاحب علم اور اہم کتب خانوں میں ضرور ہونا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اس شعری گلدستے کی نظمیں قومی نصاب میں شامل کرے۔

”جمال فرش و فلک“ پانچ حصوں پر منقسم ہے۔ کتاب کا پہلا حصہ ”بچے جنت کے پھول“ کے عنوان سے ترتیب دیا گیا ہے ’جس میں سولہ نظمیں شامل ہیں اور یہ نونہالان قوم کے لیے مختص ہیں۔ بلاشبہ بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں اور گھر کی رونق انہی کے دم سے ہے۔ ان نظموں کی خصوصیت یہ ہے کہ جہاں بچوں سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار فرمایا ہے وہیں ناصحانہ انداز میں مختلف سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جیسے ایک بچے کا گھر سے فطری لگاؤ، ورزش کی اہمیت، صفائی ستھرائی کی ضرورت اور محنت کی عظمت قابل ذکر ہیں۔ ساتھ ہی پوتے اور پوتی کی پیدائش پر فرط مسرت سے سرشار پکار اٹھتے ہیں۔

شہر گلگت کی فضاؤں سے پکار آئی ہے
آج حیدر ؔ کے گلستاں میں بہار آئی ہے
حیدر ؔ تیری چودہویں پوتی
تجھ کو مبارک برکت لائی

دوسرا حصہ ”ماحول دوستی انسانیت کی نشانی“ کے نام سے ہے۔ یہ پارہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جو کہ کتاب کا نفس مضمون بھی ہے۔ ساری شاعری اسی حصے کے گرد گھومتی ہے۔ جس میں انسان اور ماحول کے باہمی مطابقت کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ آبادی میں بے تحاشا اضافے کے ساتھ قدرتی حسن بگڑتا جا رہا ہے۔ ان میں ”ماحولیات“ ”پانی اور ہوا“ ”کوہ و جبل“ ”مناظر برف باری“ ”پرندوں کی اہمیت“ ”جہاں بینی“ اسی طرح کے متعدد موضوعات ہیں جو انسان کو آنے والے خطرات سے آگاہ کرنے کے ساتھ اس کے ممکنہ حل کے لیے بہترین تجاویز بھی فراہم کرتے ہیں اور انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ایسی شاعری جو انسان کو فطرت کے قریب کرتی ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

ذرے ذرے، پتے پتے سے عیاں ہے سر بسر
ذات خالق ہی جہاں میں ہر طرف ہے جلوہ گر

تیسرا حصہ ”علمی و ادبی ماحول“ ہے جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے۔ جس میں مادر علمی چھلت کی تاریخی پس منظر اور اس سے جڑے اساتذہ کو مثنوی کی صورت میں خراج عقیدت پیش کیا ہے جو عرصہ دراز سے قوم کے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے بعد پیوند خاک ہو چکے ہیں تو بعض سبکدوش ہو کر اپنی بقیہ زندگی سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ راجہ صاحب خان، راجہ کریم خان، آخوند ابوالحسن اور ڈاکٹر سید حسین جعفر حلیم کا شمار مصنف کے اولین اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ان سے اپنی محبت کا اظہار یوں کرتے ہیں۔

خدا بخشے انھیں حیدر ؔ بڑا مخلص معلم تھے
بہت فیاض، لائق، خوش خصال تھے راجہ صاحب خان
تو نے حیدر ؔ جو بھی پایا اس میں ان کا ہاتھ تھا
تیری قسمت کے چمن کے باغباں تھے کریم خان
دین سے قائم رہا تیرا تعلق ان سے ہی
بھول مت حیدر ؔ انہیں، نادر تھے آخوند بوالحسن
ان کا ہوں ممنون احساں وہ مرے محسن ہیں خاص
ان کی شاگردی پہ ہو گا افتخار مجھ کو مدام

حال ہی میں استاد کی والدہ محترمہ سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں ہیں۔ اپنی ماں کو خراج عقیدت یوں عرض کرتے ہیں۔

تھی تمنا ماں کی دیکھے مجھ کو منبر پر کبھی
شکر ہے ان کی دعا سے مل گیا ہے یہ مقام
میری ماں کی تربیت سے میں بنا معمار قوم
فخر ہے مجھ کو اسی منصب پہ جس کو ہے دوام
ماں سے محبت کی اسی کیفیت کو علامہ اقبال ؔ یوں بیان کرتے ہیں۔
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا

محترم ذوالفقار علی صاحب درس و تدریس کے ساتھ کاروبار کے پیشے سے بھی وابستہ تھے۔ 14 فروری 2020 ء کو کاروبار کے سلسلے میں راول پنڈی چلے گئے اور شومئی قسمت عین جوانی کی اٹھتی بہار میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اپنے ہزاروں چاہنے والوں کو سوگوار کر کے سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی اور ان کے ہزاروں چاہنے والوں کا جم غفیر تھا۔ جس کی منظر کشی یوں کی ہے۔ دو اشعار ملاحظہ ہوں۔

جب سدھارے خلد کو منظر بیاں کیسے کروں
تھی قیامت کی گھڑی منظر عیاں کیسے کروں
دوست و احباب خاص و عام کا تھا اژدہام
ہر بشر تھا اشک بار حیدر ؔ نہاں کیسے کروں

باب چہارم ”حب الوطنی“ کے نام سے ہے ’جس میں وطن سے بے لوث محبت کی نظمیں اور مادر عملی چھلت کا ترانہ شامل ہے۔ شاعر مادر علمی کی سدا سلامتی کے لیے دعا گو ہیں۔

یہ دعا حیدر کی ہے یہ درس گاہ قائم رہے
علم و فن کا آشیاں ہے مادر علمی چھلت

یقیناً مادر علمی چھلت کو کامیابی کے سفر پر گامزن کرنے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ اس کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا لہو جلایا ہے۔ ان کی شبانہ روز کی انتھک کاوشوں کے سبب مادر علمی ایک تناور درخت کی مانند کھڑا ہے۔ اسی سلسلے میں وہ خود بھی فرماتے ہیں۔

اس کی تعمیر و ترقی پر کریں ہم جاں نثار
اس کے حسن خیر پر دیں ہم توجہ بار بار
علامہ اقبال کے تعاقب میں گویا ہیں۔
خدا کا ذکر حٙسن لا الہ الا اللہ
دل زمین و زمن لا الہ الا اللہ
جو دی تھی شاعر مشرق نے فکر ملک و وطن
چلی وہ مثل کرن لا الہ الا اللہ

حصہ پنجم میں بڑے بڑے نابغۂ روزگار شخصیات نے مقدمے، دیباچے اور فلیپ لکھ کر کلام کے معیاری ہونے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ اپنی تحاریر اور نگارشات میں انھوں نے مصنف کی کاوشوں کو خوب سراہا ہے اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ جن میں اکبر حسین نحوی، جمشید خان دکھی، سید یحییٰ، محترمہ تسنم جعفری شامل ہیں۔

اس شعری گلدستے کے کلی مطالعے سے یہ حقیقت طٙشت از بام ہونے لگتا ہے کہ یہ ادبی تخلیق نہ فقط شاعری بلکہ تاریخی لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ جس میں اسکول کی تاریخی پس منظر اور اس سے جڑے اساتذہ کی خدمات کو نہایت کمال مہارت سے شعری داستان میں محفوظ کیا ہے۔ یہ ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے ’جس کی تکمیل کے لیے خالق دو جہاں نے استاد معظم کا انتخاب کیا اور انھوں نے حق بھی ادا کیا ہے۔ ساتھ ہی اس مادہ پرست دور میں قوم کے ہر پیر و جواں کو قدرت کے شاہکار نظاروں سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دی ہے۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مصنف حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری سے کافی حد متاثر نظر آتے ہیں۔ علامہ اور مصنف کے نظریات، خیالات، اسلوب اور انداز فکر میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ”جمال فرش و فلک“ میں علامہ کی شاعری بالخصوص ”بانگ درا“ کا بھر پور جھلک دیکھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں مصنف کے انداز فکر کا اندازہ ہوتا کہ وہ روحانی، علمی اور ادبی بالخصوص فطرت شناسی کے لحاظ سے کس مرتبے پر فائز ہیں؟

یقیناً کتاب کی اشاعت ایک مشکل ترین امر ہے۔ جمع و ترتیب سے لے کر اشاعت تک کے مراحل ممکنہ حد تک صبر آزما ثابت ہوتے ہیں۔ یہ دنوں اور ہفتوں میں ہونے والا کام ہرگز نہیں۔ مختلف خیالات و تصورات کو الفاظ کی لڑی میں پرو کر قرطاس پر اتارنا اور قاری کے سامنے پیش کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ تخلیق کار کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بہرحال استاد محترم نے نہایت عرق ریزی اور جان فشانی سے کام کر کے کتاب کا حرف حرف موتیوں سے سجایا ہے۔ اسی حوالے سے ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

اک نئے کام کی تخلیق کوئی کھیل نہیں
یہ سمجھ لیجیے مٹی کو بشر کرنا ہے

یہ بات میرے لیے باعث افتخار ہے کہ استاد معظم نے اپنی تصنیف انتہائی خلوص اور محبت کے ساتھ بطور تحفہ پیش کیا ہے۔ چونکہ میرا شمار بھی استاد معظم حیدر خان کی زیر سایہ پروان چڑھنے والے خوش بخت طلبہ میں ہوتا ہے۔ جب میں 1997 ء میں گھر کے در و دیوار سے نکل کر حصول تعلیم کے لیے گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول چھلت میں داخل ہوا تو یہ میرے لیے بالکل نئی دنیا تھی۔ صبح اسکول کے گراؤنڈ میں اسمبلی ہوتی اور استاد معظم حیدر خان طلبہ سے خطاب فرماتے تھے ’مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی اور میں اگلی جماعت کے کسی بچے سے استفسار کرتا تھا کہ سر نے کیا کہا؟

وہ آئیں شائیں بائیں کہہ کر ٹال دیتا تھا۔ بہر حال دن گزرتے گئے۔ میری سکول کے ساتھ دلی وابستگی اور آشنائی بڑھتی گئی۔ اس دور میں اسکول میں ادبی محافل اور غیر نصابی سرگرمیوں کا جشن بہاراں ہوتا تھا۔ طلبہ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لے کر اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی سعی کرتے تھے۔ جب میں جماعت ہشتم تک پہنچا تو استاد حیدر خان حیدر ؔ کا تبادلہ ہوا۔ اب جبکہ میری اکثر ان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے‘ اسی دوران میرے لکھنے پڑھنے کی کاوش کو خوب سراہتے ہیں اور ہمارے بڑے قدر دان ہیں۔ جس کے لیے میں ان کا بے حد ممنون و مشکور ہوں۔

کتاب موصول ہونے کے اگلے دن جب استاد محترم نے کال کی اور کتاب پر مضمون لکھنے کا کام تفویض فرمایا تو مجھ پر ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی۔ گو کہ میں پچھلے چند سالوں سے پاکستان کے موقر اخبارات اور مختلف ویب سائٹس پر کالم لکھتا رہا ہوں۔ مگر صحافتی کالمز اور اخباری خبریں غیر ادبی تحریروں میں شمار ہوتے ہیں اور راقم شاعری کی اسرار و رموز اور باریک بینیوں سے ناآشنا ہوں۔ کلام کے معیاری ہونے کا فیصلہ تو علم عروض کے ماہرین نے پہلے ہی کی ہے۔

مگر راقم ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کی حیثیت سے کتاب پر کلی رائے زنی کرنے کی جسارت کی ہے۔ ان کے کلام کا ہر لفظ بڑی فضیلت اور اہمیت کا حامل ہے۔ ہر مصرع مفصل تشریح کا طالب ہے۔ مگر یہ مختصر مضمون ان کے تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میں اس بڑی ادبی کاوش پر استاد محترم جناب حیدر خان حیدر ؔ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔ امید رکھتا ہوں کہ ان کا ادبی و تخلیقی سفر جاری رہے گا۔ آئندہ بھی قلم قبیلے کا کمان انہی کے ہاتھ میں ہو گا۔ علم و آگہی اور شعور کی شمعیں روشن کرنے کے لیے پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ شاعری کا گلزار انہی کے دم سے مہکتا رہے گا۔ جس سے آئندہ نسلیں اکتساب علم کرتی رہیں گی۔ میں اپنی تحریر استاد محترم کے اسی شعر کے ساتھ سمیٹنا چاہوں گا۔

شاعری کرتے رہو تم حسن فطرت پر حیدر ؔ
کرنے تشریح کلام، مضمون نگار آنے کو ہے
استاد محترم کے لیے ڈھیروں دعائیں اور نیک تمنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments