مدرسین اردو کے مسائل


ایک استاد کے لیے کمرۂ جماعت اس ملک کے نونہالوں کو ایک قد آور قوم بنانے کی تجربہ گاہ ہوتا ہے۔ اس تجربہ گاہ سے اساتذہ چاہیں تو ناقابل تسخیر اور غیرت مند قوم تیار کریں یا پھر ہجوم۔ اس تجربہ گاہ کو سیکھنے کے لیے کارآمد اور سازگار ماحول بنانے کے لیے نصاب، اسکول کی عمارت، ضروری وسائل، ماہرین تعلیم، حکومت کی سرپرستی، والدین کا ساتھ اور طلبہ کی دل چسپی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان سب میں کلیدی کردار اساتذہ کا ہی ہوتا ہے کہ وہ کس طرح طلبہ کو پڑھاتے ہوئے ان کی شخصیت کی مثبت تکمیل میں حصہ ڈالتے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام عناصر علیحدہ علیحدہ مقالات کے متقاضی ہیں تاہم! زیر نظر مضمون میں ہم صرف اردو پڑھانے والے اساتذہ کے مسائل اور اس ضمن میں چند تجاویز بھی پیش کریں گے۔

ضرب المثل ہے کہ ’گھر کی مرغی دال برابر‘ ۔ بالکل اسی ضرب المثل کے مصداق مملکت خدا داد میں قومی زبان ’اردو‘ اور تدریس اردو کی اہمیت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ کہنے کو تو ’اردو‘ لازمی مضمون ہے لیکن عملی طور پر اسے اتنا غیر اہم بنایا گیا ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کی اکثریت اس میں دل چسپی لینے سے کتراتی ہے۔ اس عدم دل چسپی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کی بے شمار وجوہات ہیں تاہم! یہاں چنیدہ نکات کو ہی صفحۂ قرطاس پر لایا جا رہا ہے۔

اردو اساتذہ اور طرز تدریس:

اردو پڑھانے والے زیادہ تر اساتذہ ایسے ہیں جو یا تو اردو کو بہ طور مضمون مخلصانہ انداز میں پڑھا نہیں ہے یا اردو پڑھانے کے حوالے سے ان کی تربیت نہیں ہوئی۔ کچھ اساتذہ کے معاملے میں ایسا بھی ہے کہ انھوں نے اردو میں اعلیٰ تعلیم تو حاصل کی ہے مگر فقط ڈگری لینے کی حد تک۔ لہٰذا ’اردو‘ مضمون میں ناپختگی ان اساتذہ کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ راقم کا مشاہدہ رہا ہے کہ بہت سے اردو پڑھانے والے اساتذہ اپنے مضمون میں انتہائی کمزور ہیں۔

اس کمزوری کی ایک وجہ جو میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ تعلیمی قابلیت کے برعکس، جس میں اساتذہ نے مختلف مضامین (سائنسز، ریاضی، انگریزی اور سوشل سائنسز) کو ایک ایک کر کے تختۂ مشق بنایا ہوتا ہے اور خاطر خواہ نتائج نہیں دے پاتے تو ان کو اردو پڑھانے کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ ان بے چارے اساتذہ کو جذباتی طور پر یوں بلیک میل کیا جاتا ہے : ”چوں کہ یہ ہماری قومی زبان ہے اور ہم روزمرہ زندگی میں اسے بولتے رہتے ہیں، لہٰذا یہ تو انتہائی آسان مضمون ہے اور اسے ہر کوئی پڑھا سکتا ہے۔“ اب یہ اندازہ لگانا آپ کے لیے مشکل نہیں ہو گا کہ اس ’اردو‘ مضمون کے ساتھ وہ کیسا برتاؤ کرتے ہوں گے۔

ذرا نظر دوڑائیں تو ایسے ان گنت اساتذہ سے واسطہ پڑے گا جنھیں ’اردو‘ مضمون کی تکنیکی باریکیوں کا بالکل اندازہ نہیں ہے۔ کئی اساتذہ ایسے ملیں گے جن کو ایک سادہ جملے کی درست ساخت کا بھی اندازہ نہیں ہو گا۔ نثر اور نظم کی اصناف کا پوچھیں گے تو الٹا آپ سے سوال کریں گے کہ: ”اصناف سے کیا مراد ہے۔“ ایسی صورت حال میں نثر یا نظم کی اصناف کے اجزا، خصوصیات یا اصطلاحات تو بہت دور کی بات ہیں۔

’اردو‘ کو لسانی مہارتوں یعنی سننے، بولنے، پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سکھانے کی بہ جائے انھیں تو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان اساتذہ کو بھی کبھی کسی نے اس انداز سے نہیں پڑھایا ہوتا حالانکہ ہمارا ہر نصاب اسی طرح کی تدریس کا تقاضا کرتا رہا ہے۔ نتیجتہً اساتذہ درسی کتاب کے اقتباسات کی بلند خوانی، اشعار کی تشریح، مشکل الفاظ کے معانی یا خلاصے رٹوانے وغیرہ اور ادبا و شعرا کی تاریخ پیدائش و وفات یاد کروانے سے آگے کا نہیں سوچتے۔

لہٰذا میٹرک تک پہنچتے پہنچتے زیادہ تر بچے مناسب طرز میں اردو کے دو چار جملے تک نہیں لکھ پاتے۔ بہ جائے مضمون، خط، درخواست، کہانی، روداد یا اصناف ادب کی ساخت سکھانے کے انھیں چند مضامین، خطوط اور درخواستیں اس تاکید کے ساتھ یاد کروائی جاتی ہیں کہ امتحان میں یہی آئے گا۔ ’میرا بہترین دوست‘ کے عنوان پر مضمون رٹ کے طلبہ امتحانی مرکز آ جاتے ہیں اور اگر ’میرے ابو جان‘ پر مضمون لکھنے کے لیے آ جائے تو طلبہ کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں یا اسے آؤٹ آف کورس سمجھتے ہوئے ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں۔

اردو اساتذہ کی جدید وسائل (اسمارٹ ٹیچنگ) سے نا واقفیت:

اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی عروج پر ہے۔ ایسے میں ایک استاد کی ٹیکنالوجی سے واقفیت لازمی ہونی چاہیے، مگر اردو کے اساتذہ (سوائے چند کے ) آج بھی انھی روایتی طریقوں پر عمل پیرا ہیں۔ اس وجہ سے کمپیوٹر، اسمارٹ بورڈ، ملٹی میڈیا اور دیگر جدید وسائل کے ہوتے ہوئے بھی ان سے استفادہ نہیں کر پاتے۔ اردو کے اساتذہ اپنی روایتی تدریس کے محدود حصار سے نکلنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے ان کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کی مہارت سیکھنی ہوگی (جس میں اردو ٹائپنگ اور اردو میں پاور پوائنٹ پریزینٹیشن شامل ہیں ) جو کہ ان کو مشکل کام لگتا ہے۔ لہٰذا وہ بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے مضامین کے اساتذہ اسمارٹ ٹیچنگ سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کر کے اپنی تدریس بہتر کر رہے ہیں اور طلبہ ان کی کلاس میں دل چسپی بھی لیتے ہیں جب کہ اردو کی روایتی تدریس کے ساتھ بچوں کی دل چسپی نسبتاً کم ہوتی جا رہی ہے۔

’اردو‘ تدریسی مواد کی کمی:

دیگر مضامین میں بہت سارا تدریسی مواد بازار اور انٹرنیٹ پر بہ آسانی میسر ہوتا ہے۔ مثلاً: انگریزی، ریاضی، معاشرتی علوم اور سائنسی مضامین کی کارآمد ورک شیٹس اور کتابیں بہ آسانی دست یاب ہوتی ہیں جن سے اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں کو مفید اور دل چسپ بناتے ہیں۔ لیکن اردو میں تدریسی مواد کا فقدان نظر آتا ہے۔ کتابی شکل میں تدریسی مواد بہت کم ہے۔ البتہ! کورونا وبا کے بعد سے انٹرنیٹ پر اردو کا کچھ تدریسی مواد آنے لگا ہے لیکن ایک تو اساتذہ اس سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا رہے اور دوسرا یہ کہ سارا مواد کتنا مستند ہے، اس کا کچھ اندازہ نہیں۔ لہٰذا معلمین اردو اپنی تدریس کو تخلیقی انداز میں دل چسپ نہیں بنا پا رہے اور اسی روایتی طریقۂ تدریس سے رشتہ مضبوط کیے ہوئے ہیں۔

’اردو‘ مضمون سے متعلق عمومی رویہ:

عام طور پر والدین اور طلبہ اردو کو وہ اہمیت نہیں دیتے جس کی وہ مستحق ہے۔ اردو کو بہ طور مضمون کوئی بھی سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ بہت سارے اردو کے اساتذہ نے راقم کو اپنا یہی دکھڑا سنایا ہے کہ بچے اردو میں دل چسپی نہیں لیتے اور شوق سے اردو نہیں پڑھتے۔ ایسے میں اکثر میرے ان سے یہ سوالات ہوتے ہیں کہ آپ خود ’اردو‘ میں کتنی دل چسپی لیتے ہیں؟ آپ اردو کی کتابیں خود کتنی دل چسپی سے پڑھتے ہیں؟

آپ کا پسندیدہ مصنف کون ہے اور اس کی کون سی تصنیف آپ کو اچھی لگتی ہے اور کیوں؟ پسندیدہ شاعر کون ہے اور اس کی کون سی غزل یا نظم آپ کو پسند ہے؟ تو اس پر زیادہ تر جوابات آئیں بائیں شائیں میں ملتے ہیں۔ ایسے میں ان اساتذہ کو مشورہ دیتا ہوں کہ پہلے خود اردو میں دل چسپی پیدا کریں، اچھے ادبا و شعرا کی تخلیقات کا مطالعہ کریں، پر اعتماد ہو کر کلاس میں جائیں اور بچوں کو سنائیں، وہ خود بہ خود دل چسپی لینا شروع کر دیں گے۔

لوگوں کو یہی کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ ”سب سے آسان مضمون ’اردو‘ ہے، اس پر محنت کرنے اور اسے سنجیدگی سے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔“ تو جناب! اردو اپنے اندر ایک مکمل تہذیب ہے اور اس کا ایک شان دار ماضی ہے۔ آپ اسے عزت دیں تو سہی۔ پاکستان کے ماہرین تعلیم نے ایسے ہی تو اسے لازمی مضمون قرار نہیں دیا۔ ’اردو‘ نہیں پڑھیں گے یا کم اہمیت دیں گے تو اسی حساب سے کم سیکھیں گے۔ اس کے ساتھ انصاف کریں گے تو یہ مضمون بھی اپنا فرض نبھاتے ہوئے آپ کے ساتھ بھرپور انصاف کرے گا۔

اسکول انتظامیہ کا رویہ:

اردو کے ساتھ اکثر اسکول انتظامیہ کا بھی سوتیلے ماں باپ کا سا رویہ رہا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ جیسے والدین کی تمام اولاد ان کے لیے برابر کا درجہ رکھتی ہے، اسی طرح تمام مضامین (بشمول اردو) اسکول انتظامیہ کی نظر میں اہم ہونے چاہئیں۔ اچھے کالج اور اچھی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کل نمبرات کام آئیں گے نہ کہ اردو کے بغیر نمبرات کا حساب ہو گا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سارے طلبہ سائنس دان، ڈاکٹر، انجنیئر، آرمی اور سول افسر، بینکر اور تاجر نہیں بنیں گے اور اگر تمام طلبہ مذکورہ شعبہ جات میں کھپ بھی جائیں، تب بھی اس پاک سرزمین میں اپنے مخاطبین کے ساتھ وہ عموماً اردو میں ہی بات چیت کریں گے۔ اگر ایسا ہے تو کم از کم اچھی اردو بولنے کے لیے ہی اسکول اور کالج کی سطح پر اس لازمی مضمون ’اردو‘ کو خاص اہمیت دینی ہوگی۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں ’اردو‘ مضمون کے اساتذہ کو نسبتاً کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ تنخواہ اساتذہ کے لیے ایک مثبت محرک اور حوصلہ افزائی کا درجہ رکھتی ہے۔ کم تنخواہ کے ساتھ ساتھ ان اساتذہ کو زیادہ کلاسز بھی دی جاتی ہیں اور اس پہ مستزاد یہ کہ اردو کی کلاسز اکثر دن کے آخر آخر میں رکھی جاتی ہیں۔ ان اختتامی کلاسز میں طلبہ خود بھی تھک چکے ہوتے ہیں اور نسبتاً زیادہ کام کے بوجھ تلے کم تنخواہ میں اسکول کے آخری گھنٹوں میں یہ بے چارے اساتذہ شوق، جستجو اور حوصلہ کہاں سے لائیں گے۔

تجاویز
1۔ مضمون پر عبور:

چوں کہ اردو آپ کے لیے ذریعۂ معاش بن چکی ہے، لہٰذا اپنی روزی کی بقا اور طلبہ کے بہتر مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں اپنی گرفت کو مضبوط کیجیے۔ اردو ادب سے دل چسپی پیدا کیجیے۔ نام ور ادبا و شعرا کی کتابوں نیز ان کے حالات زندگی کا مطالعہ کیجیے۔ اردو اساتذہ کے نیٹ ورک میں شامل ہو جائیے اور تبادلۂ خیال کے ساتھ ان سے راہ نمائی حاصل کیجیے۔

2۔ طریقۂ تدریس:

اردو کو بہ طور مضمون پڑھانے کے طریقے سیکھیے۔ نیز لسانی مہارتوں کی تدریس کی افادیت کے بارے میں پڑھیے اور ان مہارتوں کو پڑھانے کے مختلف طریقے سیکھیے۔ ان کے علاوہ کسی بھی زبان کی تدریس کے عمومی طریقے مثلاً: بلاواسطہ طریقۂ تدریس، قواعد کی تدریس، سمعی و بصری آلات کے ذریعے تدریس، ساختی طریقۂ تدریس اور سرگرمی پر مبنی تدریس کے بارے میں پڑھیے اور یہ طریقے سیکھیے تاکہ آپ کی تدریس میں نکھار آئے۔

3۔ طریقۂ تدریس کا اطلاق:

مذکورہ بالا دوسری تجویز پر عمل کرتے ہوئے سیکھے ہوئے طریقوں کا ایک ایک کر کے اطلاق کیجیے۔ مثلاً: سیکھنے کے مرحلے میں طلبہ کو مختلف سرگرمیوں (جیسے کہ مباحثے، تقاریر، بیت بازی، مضمون نویسی، اخباری تراشوں سے افعال، اسما اور حروف وغیرہ ڈھونڈنے ) میں شامل کیجیے۔ نیز پہلے سے ریکارڈ شدہ اقتباسات سنا کر بچوں سے چیدہ چیدہ نکات پر سوالات پوچھیے اور ان کے جوابات تحریر کروائیے۔ اس سرگرمی کے لیے اردو کے شاہ کار ڈرامے دکھا کر ان پہ مباحثہ کے ساتھ ساتھ سوالات کے جوابات لکھوائیے تاکہ طلبہ کی سننے، بولنے اور لکھنے کی مہارتیں بہتر ہوں۔

4۔ اسمارٹ ٹیچنگ اپنائیے :

اپنے آپ کو بدلتے وقت کے تقاضوں اور جدید آلات تدریس سے لیس کر کے اپنی تدریس کو دل چسپ بنائیے۔ اس ضمن میں آپ کو کمپیوٹر کی مہارت سیکھنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی سے متعلقہ دوسرے وسائل کا استعمال سیکھنا ہو گا تاکہ آپ اپنی تدریس میں جدت لا سکیں۔ جب آپ دوسرے اسکولوں کے اساتذہ کے ساتھ نیٹ ورک قائم کر لیں گے تو اپنی کلاس کو ان کی کلاسز کے ساتھ ملا کر ایک وقت میں ہی آن لائن تدریس کروا سکتے ہیں۔ نئے اساتذہ اور نیا انداز طلبہ کو اپنی طرف متوجہ کرے گا اور وہ سیکھنے کی طرف زیادہ راغب ہوں گے۔

5۔ اپنے کسی سینیئر ساتھی سے اپنی تدریسی سرگرمیوں کا مشاہدہ کروائیے :

اپنے اسکول کے پرنسپل، سیکشن ہیڈ، اکیڈیمک کوآرڈینیٹر یا کسی اور سینیئر معلم؍معلمہ سے اپنی تدریسی سرگرمیوں بشمول سبق کی منصوبہ بندی اور طلبہ کے جائزے کے تمام مراحل کا تجزیہ کروائیے تاکہ وہ آپ کو آپ کی کارکردگی کے بارے میں فیڈ بیک دے دیں۔ یہ فیڈ بیک آپ کی تدریس میں نکھار لانے اور آئندہ کا لائحہ عمل بہتر انداز میں ترتیب دینے میں مددگار ہو گا۔ علاوہ ازیں، وقتاً فوقتاً اپنے طلبہ سے بھی اپنی تدریس کے حوالے سے فیڈ بیک طلب کیجیے، کیوں کہ طلبہ کی رائے ایک صاف آئینے کی مانند ہوتی ہے۔

6۔ اپنا جائزہ خود لیجیے :

اپنی عادت بنا لیجیے کہ روزانہ جو کچھ پڑھایا ہے، اس پر غور کیجیے۔ دن بھر میں کی گئی اپنی تدریس کا جائزہ لیجیے کہ کہاں کمی رہ گئی ہے، کہاں بہت اچھے رہے اور کون کون سی کتب سے مزید استفادہ کرنا ہے، کون سا پہلو ایسا تھا جہاں طلبہ کی دل چسپی بہت زیادہ یا کم رہی وغیرہ وغیرہ۔ یاد رکھیے! اپنی تدریس کا جائزہ لینا اگرچہ ہمت کا کام ہے لیکن اس جائزے کے بعد جو صلاحیتیں مزید نکھر کر آتی ہیں وہ ایک استاد کو لائق استاد بنا دیتی ہیں۔

7۔ اسکول انتظامیہ سے توقعات:

اسکول انتظامیہ مدرسین اردو کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے مختلف ورک شاپس کا انعقاد کرے۔ اسکول ٹائم ٹیبل میں اردو کی کلاسز کو شروع کی کلاسز کا حصہ بنائے۔ اردو مضمون اور اس کے معلمین کے ساتھ دیگر مضامین اور اساتذہ کی مناسبت سے برابری کا سلوک روا رکھے، تاکہ ان اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہو، وہ اپنے آپ کو ’اردو‘ مضمون، اس کی تدریس اور تخلیقی صلاحیتوں سے خوب بہرہ ور کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments