بلوچستان، عدم اعتماد یا عدم برداشت: باپ سے باپ تک


بلوچستان میں عدم اعتماد کا کھیل اور لوکل سطح پر ہمارے ہاں ملاکھڑے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ملاکھڑے میں بھی عوام کی امیدوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے اور سیاست میں بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں سیاست میں مستقل مزاجی یا ایک دوسرے کی حمایت ہمیشہ نیزے کی نوک پر رہتی ہے۔ اس وقت ملک میں مرکزی سطح پر دیکھا جائے تو اتحاد عارضی ہی صحیح مگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان مراسم پر اور ماضی کی ان ہی جماعتوں کی جنگ پر نون لیگی سپورٹرز اور پیپلز پارٹی کے جیالے کارکنان آپس میں کس طرح پیش آتے ہوں گے ۔

کیوں کہ لیڈرز کی آڑ میں جتنی جھڑپیں ان دو جماعتوں کے کارکنان میں ہوئی ہوں گی ماضی میں شاید ہی کسی اور جماعت میں ہم کو دیکھنے کو ملی ہو۔ اسی طرح ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے موجودہ حکومتی تعلقات اور ماضی کے حالات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ عمران خان خود عقل سے پیدل صحیح مگر اس نے دو بدترین حریف جماعتوں کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں ابھی چند ماہ پہلے عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین نے اپوزیشن جماعتوں کے اعتماد پر عدم اعتماد تحریک چلائی جس کی کامیابی نمایاں تھی مگر سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال نے ٹویٹر پر جنگ لڑتے ہوئے ہر دوسرے دن ٹویٹ میں آگے پیچھے ہوتے ہوئے پھر بلا آخر تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کیا بعد ازاں ناراضگی کا اظہار پھر پارٹی کی بقاء کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔

پھر جیسے تیسے انتظار کرتے ہوئے اب دوبارہ سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کی قیادت میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور اتحادیوں نے بدھ کو وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی۔ مسئلہ یہاں عدم اعتماد کی تحریک کا نہیں وہ ہر جماعت کا ناراض اراکین کا بنیادی حق ہے مگر یہ حکومتی بجٹ کے پیش ہونے سے ایک ماہ پہلے کیوں پیش کی جاتی ہے خیر یہ اور حساس موضوع اس پر بات پھر کبھی صحیح۔ بلکہ عدم اعتماد کے حوالے سے نا تو جام کمال خان کے خلاف کوئی ٹھوس موقف تھا ماسوائے پارٹی چند اراکین کی ناراضگی کے نہ اس وقت موجودہ وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے خلاف پیش ہونے والی عدم اعتماد میں کوئی ٹھوس موقف اختیار کیا گیا ہے۔

اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان باپ گروپ کے پاس بظاہر 14 اراکین کا اعتماد موجود ہے بشمول پارٹی اراکین اسمبلی اور حامی ممبر اسمبلی کے۔ بتاتا چلوں دراصل عدم اعتماد کی تحریک قدوس بزنجو کے وزیراعلی بنے کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی مگر ظہور بلیدی جو خود امیدوار تھے وزیراعلی شپ کے جیسے تیسے دو تین ماہ برداشت کرنے کے بعد دوبارہ جام کمال خان صاحب کے کہنے پر واپس چل دیے تو اس عدم اعتماد پر کام شروع کیا گیا اور میدان میں سوشل میڈیا پر بالخصوص جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد تحریک میں ایک متحرک ارکان ہونے کے باوجود بھی ظہور بلیدی نے یہی راستہ جو واپسی کا تھا اس پر چلنا ضروری سمجھا۔

بہرحال جہاں غرض ہو اور ایک جیسا ہو سیاست میں وہاں بندے کو نہیں دیکھا جاتا اور نا ہی ماضی کے کرداروں کو بلکہ اختلافات کو پس پشت رکھنا ہی ضروری ہوتا ہے البتہ یار محمد رند کی کہانی بھی ظہور بلیدی سے ملتی جلتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس وقت بلوچستان اسمبلی کے ارکان اسمبلی ظہور بلیدی اور یار محمد رند کے قول و فعل میں مزے دار اور انتہائی کم دورانیہ کا تضاد دیکھنے کو ملا اور ان کے موقف کا تو کوئی معیار ہی نہیں رہا تو میری بات غلط ثابت نہیں ہوگی۔

اس وقت قدوس بزنجو کا کوئی خاص کارنامہ نہ صحیح مگر گڈ گورننس کی صورتحال جام کمال خان کے دور میں بھی انتہائی تباہ کن رہی تھی قدوس بزنجو اگر اس وقت اپوزیشن جماعتوں کو فنڈز دیتے ہیں تو جام کمال خان اپنے اقتدار میں ضمنی انتخابات میں ہارے ہوئے امیدواروں کو فنڈز دیتے رہے ہیں بس میرے خیال میں واضح فرق یہی ہے۔ البتہ جام کمال بنسبت قدوس بزنجو کے زیادہ متحرک وزیراعلی تھے ان کے اپنے حلقے انتخاب کی حالت زار پر رونا واجب صحیح مگر انہوں نے شاید بلوچستان کی ترقی کے لیے بہت کچھ سوچا ہوا تھا۔ دوسرا فرق یہی تھا کہ ایک بندہ سو کر بھی منظم اور متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ مفاہمت کو اہمیت دیتا ہے دوسرا جاگتے ہوئے بھی اور تمام کمالات کے باوجود ناپسندیدہ رہا اس کی وجہ رویے غرور انا بھی سمجھی جا سکتی ہے۔

سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان نے کنفیوژن والا موقف اختیار کیا ہے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے بعد اپنی پریس کانفرنس میں جہاں پر ان کا کہنا تھا سات ماہ میں کچھ سیاسی معاملات پر ہمارے تحفظات تھے، بلوچستان حکومت کی کارکردگی کو بہتر نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاملات بہتر ہوں، ہمیں شوق نہیں کہ حکومت بار بار بدلتی رہے۔ جبکہ ایک بیان میں انہوں نے پی ڈی ایم کی ساری جماعتوں نے ان کے موقف پر یقین دہانی کروائی ہے اظہار کیا۔

مشاورت سے فیصلہ کیا کہ پہلا قدم ہمیں اٹھانا ہو گا جبکہ دوسرے بیان میں کہا کہ ہرگز نہیں کہہ رہے کہ اپوزیشن کے اراکین بھی ہمارے ساتھ ہیں تو کوئی بتائے پی ڈی ایم کا حصہ بلوچستان کی دو اہم جماعتیں ہیں بی این پی اور جے یو آئی اور وہی بلوچستان میں اپوزیشن میں بھی ہیں تو پی ڈی ایم کی جماعتوں نے موقف کی یقین دہانی کروائی اور اور اپوزیشن اراکین ساتھ نہیں ہے یہ کیسے ممکن ہے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچستان کی دو مضبوط اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش ہونے والی عدم اعتماد سے اپنی جانب سے رابطے اور مشورے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

بلوچستان حکومت میں وزیراعلی بلوچستان قدوس بزنجو کے خلاف پیش ہونے والی عدم اعتماد میں امریکی سازش ہے یا جون میں پیش ہونے والے بجٹ کی سازش یہ فیصلہ وقت پر چھوڑتے ہیں اور بحث بھی مگر جو بلوچستان کے مفاد میں گزشتہ جام صاحب کی حکومت کے ساڑھے تین سال میں ہوا اس کو بھی ناکام کہہ کر عدم اعتماد لائی گئی اب قدوس بزنجو کے چند ماہ کے دور کو بھی برا تصور کیا جا رہا ہے اب باقی رہ جانے والے چند ماہ حکومت کے ہیں اس میں کون سی ایسی بہتری لائی جا سکتی ہے جو جام کمال خان کے دور کے ساڑھے تین سال اور قدوس بزنجو کے موجودہ دور سے بہتر ہوگی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments