جوٹھیے


کالم کی چند سطور ان کی علمی شخصیت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں، اس کے لئے پوری ایک سوانح مطلوب ہے۔ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں۔ تین کتابوں اور درجن بھر تحقیقی و علمی مقالوں کے مصنف ہیں۔ کتابیں کھاتے ہیں اور کتابیں ہی پیتے ہیں کیوں کہ ہم آج تک جب بھی ان سے ملنے گئے عمران خان کی طرح، نہ کچھ کھانے کو پوچھا اور نہ ہی کبھی چائے پلائی، البتہ رخصت کے وقت کبھی خالی ہاتھ لوٹنے نہ دیا، کوئی نہ کوئی کتاب ہدیہ ضرور کی۔

پرانے مریدین کو داغ مفارقت دیے عرصہ دراز ہوا۔ اب نئے مریدین کے درمیان خوش باش، امریکی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب سے رخصت ہوئے ہیں خال خال ہی واپسی کا چکر لگاتے ہے۔ جاڑے کے موسموں میں اگر کبھی چند دنوں کے لئے لوٹ آئیں تو شرف ملاقات ضرور بخشتے ہیں۔

شاہ جی کے ساتھ محفلوں میں تقابل ادیان، ادب، تاریخ اور فلسفہ کے علاوہ دیگر متفرق موضوعات بھی زیر بحث رہتے ہیں۔ اس بار کی نشست میں، میں نے شاہ جی سے اپنی اک ذہنی الجھن کا اظہار کیا تو شاہ جی نے جو اباً جیسے دریا کوزے میں بند کر دیا ہو، جو کہ ہمیشہ سے ان کے کلام کا خاصہ رہا ہے۔ ایسا تشفی بخش حل تجویز کیا کہ سائل کے چہرے پہ بشاشت دیدنی تھی۔ راقم چاہے گا کہ اسے ضرور اپنے قارئین کرام کی نذر کرے، مگر اس سے پہلے اس الجھن کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔

ایک (حقیقی) پٹواری صاحب سے ہماری پرانی خاندانی راہ و رسم ہے۔ آج کل، ریٹائرمنٹ کے بعد عفو و توبہ کی زندگی گزار رہے ہیں اور سارا دن ملکی زبوں حالی اور سیاست میں اخلاقی گراوٹ پہ کڑھتے رہتے ہیں۔ کافی مال دار آسامی ہیں اور ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے محکمہ میں ”گرو پٹواری“ کے نام سے شہرت رکھتے تھے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ کی بابت تو ہمیں کچھ معلوم نہیں، مگر بیشتر اوقات حضرت نیکی و پارسائی کا درس دیتے ہی سنائی دیتے ہیں۔

سلام دعا کرنے کے بعد ، میں ابھی ہاتھ بھی پوری طرح نا چھڑوا پایا تھا کہ کہنے لگے : یار آج کل جو کچھ سیاست میں ہو رہا ہے وہ تو پریشان کن ہے ہی، مگر ایک بات جس سے مجھے خاص چڑ ہے وہ نون لیگیوں کو ”پٹواری“ کہہ کر مخاطب کرنا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ اس میں آپ کے لئے کیا نقطۂ اعتراض ہے۔ کہنے لگے بھئی اللہ کی پناہ! پٹواری ایک سرکاری عہدہ ہے جو ایک خاص سطح کی باقاعدہ رسمی تعلیم کے بعد مقابلہ جاتی امتحانات اور مختلف اقسام کی جانچ پڑتال کے عمل سے گزرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ پٹواری گورنمنٹ کی مشینری کا ایک اہم فنکشنری ہوتا ہے۔ اور آج کے دور میں پٹواری لگنا تو با قاعدہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور یہاں کسی کو بھی ’پٹواری‘ کہہ دیا جاتا ہے۔

میرے چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں دیکھ کر وضاحتی انداز میں بولے، دیکھو! پٹوار خانے کا نظام مغلیہ عہد میں شروع کیا گیا تھا۔ اس وقت ایک پٹواری کے پاس سو، یا اس سے بھی زیادہ گاؤں کی ساری زمینوں کی گرداوری، جمع بندیاں اور تمام محصولات کا ریکارڈ ہوتا تھا۔ انگریز دور میں پٹواری کو گاؤں کا اکاؤنٹنٹ بھی کہا جاتا تھا۔ کسی بھی زمین کی ملکیت کا کوئی تنازعہ اٹھتا تو پٹواری کی حیثیت حتمی ثالث کی ہوتی تھی۔ آج سرکاری ملازمین کی درجہ بندیوں میں گو کہ پٹواری کو محض نویں سکیل پر رکھا گیا ہے مگر اس کی طاقت و اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اگر پٹواری کی منشاء شامل حال نہ ہو تو پشتوں سے چلی آ رہی باپ دادا کی وراثتی جائیداد، بوقت اشد ضرورت بھی بندہ فروخت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔

گفتگو کے دوران فرط جذبات سے ان کی سانس پھول چکی تھی اور منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ سانس بحال کرتے ہوئے دوبارہ مخاطب ہوئے اور بڑے کرب سے بولے، اب تم ہی بتاؤ ایک ایسے شخص کو پٹواری کے ساتھ تشبیہ دینا جو جھپٹ کر بریانی کا ایک ڈبہ لوٹتا ہو، جو محض ایک ہزار کے عوض لاہور سے اسلام آباد تک دھکے کھاتے ہوئے مریم کے جلسے میں شریک ہوتا ہو، جو گوالمنڈی کی بیٹھکوں میں بیٹھ کر ”حمزہ حمزہ“ کا شخصی ورد دہراتا رہتا ہو۔ جو ایک پیالی چائے کی خاطر ڈنڈا ہاتھوں میں لئے گاڑیوں کے شیشے پاش کرتا پھرتا ہو۔ جو اپنے لیڈر سے ہاتھ ملانے کی پاداش میں اسی کے گارڈز سے ”کھنے سینکوا“ کے کہتا ہو یہ ”لتر تو نہیں، پھول ہیں“ ۔ ایسے کوتاہ نظروں اور ناعاقبت اندیشوں کو پٹواریوں کے ساتھ تشبیہ دینا سرا سر نا انصافی ہے۔ اصلی پٹواری تو اس حد تک غیرت مند ہوتا ہے کہ ہلکی کرپشن کو تووہ اپنی عزت نفس کے منافی سمجھتا ہے جبکہ یہ نام نہاد پٹواری ایک نان اور 20 روپوں کے چھولوں کے عوض اپنے ووٹ کا سودا کر لیتے ہیں۔ میرے پاس ان کے دلائل سے متفق ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

گرو پٹواری صاحب اپنی دھواں دھار مگر پر مغز تقریر کے بعد خاموش ہوئے تو میرے دماغ نے، نہاں خانوں میں، بن پوچھے ہی ”جیالوں“ کی اخلاقی حیثیت کو تختہ مشق بنانا شروع کر دیا۔ سوالات در سوالات جنم لینے لگے۔ بھٹو نے ایوبی آمریت کے ستائے ہوئے عوام کو جب سوشلزم کے نعروں سے ورغلایا تو بھوک ننگ سے نڈھال، روٹی، کپڑا اور مکان کے متلاشی عوام، بھٹو کے جیالے بن بیٹھے۔ جیالے جذباتیت کی اس حد پہ تھے کہ بھٹو کے عشق میں خود سوزیوں سے بھی باز نہ آئے۔

مگر ان کے اس انتہائی قدم کو بھی عقل کی کسوٹی پہ رکھ کے پرکھا جا سکتا ہے۔ ان کے سامنے کوئی آدمی تو تھا جو مادری لہجے میں مادری زبان بولتا تھا۔ جو اپنی تقریر سے پانی میں آگ لگا دیتا تھا۔ جو جھوٹ بھی اس دھج سے بولتا تھا کہ سچ کا گماں ہونے لگتا تھا۔ سٹیج پہ آتا تو عوام کو یقین کی اس سطح پہ لے آتا جہاں انہیں لگتا تھا یہی وہ ”زیوس کا دیوتا“ ہے جو اولمپیا کی پہاڑیوں سے ان کے لئے بجلی کے کوندے لپکائے گا۔ آخر میں ملک و ملت کو دو لخت اور صنعتیں برباد کر کے شہید عظیم کے درجہ پہ فائز ہو گیا۔

کاروبار حکومت میں خطابت کے اگر نمبر ہوتے تو وہ سارے نمبر بھٹو کے ہی ہوتے۔ بھٹو کے عشق میں جیالا ہونا پھر بھی جسٹیفائی کیا جا سکتا ہے مگر آج کے جو جیالے ”کانپیں ٹانگ رہی ہیں“ جیسے لیڈروں کے سامنے دھمالیں ڈال رہے ہیں یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان جیالوں کو بھٹو کے جیالوں سے تشبیہ دینا، انہیں گالی دینے کے مترادف ہے۔ شاعر ایسے جیالیوں کو دیکھ کر سراپا احتجاج بنا بیٹھا ہے ”حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو “ اور التجائیہ لہجہ میں فریاد کرتا ہے

میں ہوں پروانہ مگر ، شمع تو ہو رات تو ہو
جان دینے کو ہوں موجود، کوئی بات تو ہو
میں بھی موجود ہوں اظہار عقیدت کے لیٔے
کسی جانب سے کچھ، اظہار کرامات تو ہو

شاہ جی سے میرا سوال یہ تھا کہ اگر نقلی پٹواریوں کو ”پٹواری“ اور نقلی جیالوں کو ”جیالا“ نہ کہا جائے تو پھر کیا مناسب نام تجویز ہو؟

”جوٹھیے“

شاہ جی نے اس برجستہ جواب کے ساتھ ہی اپنا ایک واقعہ گوش گزار کیا کہتے ہیں کہ سکھ کمیونٹی کی اک لڑکی ترن جیت کور، جو کہ امریکہ میں ڈینٹسٹری پڑھ رہی تھی کسی کام کے سلسلے میں مجھ سے ملنے آئی۔ چائے کے برتن سامنے ٹیبل پہ رکھے تھے۔ میں ایک کپ ہاتھ میں تھامے، اس کے لئے چائے بنانے کے لیے اٹھا تو وہ عجلت میں مجھے مخاطب کر کے بولی: بھائی! جوٹھ کنگھال لینا۔ یہ لفظ تو میرے لئے جانا پہچانا سا تھا مگر مجھے اس کا موقع محل ذرا اجنبی سا لگا۔ میں نے ازراہ دلچسپی دریافت کیا کہ یہ جوٹھ کیا ہوتا ہے؟ وہ مسکراتے ہوئے بولی کہ اک کثیف سا محلول جو باریک پتی کی آمیزش کی وجہ سے پیالی کے پیندے میں بیٹھ جاتا ہے اور چائے کا بڑے سے بڑا رسیا بھی اسے پینا پسند نہیں کرتا اور پھینک دیتا ہے، ہم اسے ”جوٹھ“ کہتے ہیں۔

شاہ جی بولے کسی زمانے میں ان پارٹیوں کے ورکرز خوش ذائقہ، خوشبو دار چائے کی مانند، بڑی اہمیت کے حامل ہوتے تھے مگر اب محض جوٹھ کے سوا کچھ نہیں جو انٹرنیٹ اور میڈیا کے اس دور میں دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں بھی اندھے، گونگے اور بہرے ہیں۔ موجودہ حالات میں سیاسی فکر کے اعتبار سے یہاں صرف دو ہی گروہ پائے جاتے ہیں۔ اگر عمران خان کے سپورٹران کو ”یوتھیے“ کہا جاتا ہے تو آج کے ”پٹواری“ اور ”جیالے“ مستند ”جوٹھیے“ ہیں۔ انہیں اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments