اسحاق سمیجو: اردو کے منفرد جدید شاعر


 

اسحاق سمیجو اس وقت جامعہ سندھ جامشورو میں سندھی ادب کے پروفیسر اور سندھی شعبے کے چیئر مین ہیں۔ اس سے پہلے ڈائریکٹر سندھیالوجی کے فرائض بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ کم عمر میں سمیجو نے جہد مسلسل اور وسیع مطالعہ کے ذریعے اپنی علمی قابلیت اور صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بہترین شاعر اور نقاد بھی ہیں۔ اس نے شاعری کے میدان میں بھی اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے عہد حاضر میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔

اسحاق سمیجو سندھی زبان کے بہت منفرد جدید شاعر اور نڈر نقاد ہیں۔ اس کی شاعری میں روانی کا موجزن دریا، منفرد انداز بیاں کی حسناکی، نفیس جذبوں کے اظہار میں سمندر جیسا تغیر اور زبان کے تخلیقی سطح پر استعمال کی خصوصیت کی وجہ سے اس کا سندھی زبان کے غیر روایتی جدید شعراء میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن اسحاق سمیجو سندھی زبان کے علاوہ جو اردو میں شاعری کی ہے وہ بھی منفرد اسلوب اور جدت سے سرشار ہے۔ اس نے اردو شاعری میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور شاعرانہ خوبیوں سے کام لیا ہے۔ اس کا دور حاضر کے غیر روایتی اور جدید اردو شعراء میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

کافی برس پہلے کی بات ہے۔ اسحاق سمیجو نے ممبئی ہندستان میں ندا فاضلی سے ملاقات کی تھی اور اسے اپنی اردو شاعری سنائی تو ندا فاضلی نے اسے آٹوگراف میں شاعر لکھ کر جیسے اسے اردو شاعر ہونے کا اعزاز عطا کیا تھا۔

اس سال 21 مارچ 2022 ء کو جامعہ سندھ جامشورو میں شاعری کے عالمی دن کے موقعہ پر مشاعرہ منعقد کیا کیا تھا۔ مشاعرے میں پاکستان کے معروف شاعر اور ڈراما نگار امجد اسلام امجد شریک ہوئے تھے۔ میری بھی امجد اسلام امجد سے ملاقات ہوئی تھی۔ امجد اسلام امجد نے اسحاق سمیجو کی اردو شاعری سنی تو بے ساختہ بولے اور کہا کہ ”آپ تو اردو کے بھی حسین شاعر ہیں۔ آپ کی اردو شاعری کی کتاب شایع ہونی چاہیے“ ۔

ہندستان کے ندا فاضلی (مرحوم) اور پاکستان کے امجد اسلام امجد جیسے منجھے ہوئے غیرمعمولی اور اعلی شعراء کی رائے اسحاق سمیجو کو خوش رکھنے کے لئے نہیں تھی مگر اس کی جدید اردو شاعری اور اعلی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔ جب کوئی اسحاق سمیجو کی اردو شاعری پڑھے گا تو اس میں پڑھنے والے کی سانسوں کو معطر بنانے والی تخیل کے موتیوں کے پھولوں کی مہک، نغمگی کی باکمال خوبی اور پیشکش کی ندرت بھی گواہی دے گی کہ اسحاق سمیجو اردو کے بھی باکمال شاعر ہیں۔

اسحاق سمیجو کی اردو غزلوں میں جدت، تغزل اور جمالیاتی حظ کی مقناطیسی کشش اور نظموں میں خیالات کی منفرد تغیانی اسے بلاشبہ اردو کے غیر روایتی جدید شعراء میں شمار کرتی ہیں۔ اس کی شاعری میں کسی بڑے شاعر کا اثر ہرگز نظر نہیں آئے گا۔ جو بھی شاعری کی ہے اس میں اس کے اپنے خیالات کی ندرت کی خوشبؤ ہے جو پڑھنے والے کے احساسات میں تحرک پیدا کرتی ہے۔

اسحاق کی اردو شاعری میں فنی پختگی بھی موجود ہے۔ اس کے شعر میں موسیقیت اور موزونیت کی خوبی بھی اپیل کرتی ہے کہ یہ بڑے پختہ شاعر ییں۔ اسحاق نے اپنی اردو شاعری میں علم عروض اور شاعری کے دوسرے فنی لوازمات کا استعمال بڑی مہارت سے کیا ہے۔ اس کا منفرد انداز بیاں الگ ہے اور اس کی شاعری میں استعارے اپنے اور تشبیہات بھی اپنی ہیں۔ اس کی نظموں، قطعات اور غزلوں میں زبان کا تخلیقی سطح پر استعمال بھی اسے منفرد جدید اردو شعراء میں شمار کرنے کے لئے ہے۔ مندرجہ زیل اس کی شاعری پڑھ کر بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسحاق سمیجو اردو کے بہت منفرد جدید شاعر ہیں۔

باتیں، یہ سب تیری باتیں!
جیسے اوس پڑے پھولوں پر
جوبن ٹوٹ پڑے جھولوں پر
جیسے صحرا پر برساتیں
باتیں، یہ سب تیری باتیں!
بھیگی پلکوں پر اک سپنا سوکھا ہے،
بارش میں بھی صحرا اپنا سوکھا ہے۔
ہجر کے پیڑ کی ڈالی ڈالی سوکھہ چکی،
کوئی رت ہو، پر من اپنا سوکھا ہے!
چاند پتھر ہے، کسی روح کو تسخیر کرو،
دل کی دنیا میں رہو، پیار کی تعمیر کرو۔
میں تیری نیند سے بھاگا ہوا اک سپنا ہوں،
اپنے سینے سے لگا کر مجھے تعبیر کرو۔
دنیا دھوپ کڑی، سر ننگا،
اپنے پیار کا آنچل دے دو۔
سوکھے سونے نین پڑے ہیں،
کاجل دے دو، یا جل دے دو۔
سانس میں سانس رہے، ہاتھ رہے ہاتھوں میں،
یہ کوئی خواب، جو سوتا نہیں برساتوں میں۔
فوٹو: اسحاق سمیجو، امجد اسلام امجد اور عزیز کنگرانی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments