دائم اقبال دائم ایک درویش پنجابی شاعر (1)


دائم اقبال دائم ایک مستند پنجابی شاعر، قصہ گو، ادیب اور عملی زندگی میں ایک درویش صفت انسان تھے۔ بہت سے لوگ ان کے حلقہ ارادت میں شامل تھے اور ان سے روحانی عقیدت رکھتے تھے۔ وہ ایک عوامی آدمی تھے جن کے سخن میں اس کی جھلک نظر بھی آتی تھی۔ وہ ایک حساس دل رکھنے والے انسان تھے۔ جس طرح ان کی شاعری کا ایک مخصوص رنگ تھا اس طرح ان کی زندگی کے بھی کچھ مخصوص رنگ تھے۔ ان کا تعلق ایک محنت کش طبقے سے تھا جو نسل در نسل فن تعمیر کے شعبہ کو اپنائے ہوئے تھا۔

معماری ان کا فن تھا جس کو بروئے کار لا کر وہ خوبصورت اور دلآویز عمارتیں کھڑی کرنے کی مہارت میں ان کا خاندان یکتا تھا۔ ان کے آبا و اجداد مغل بادشاہوں کے ساتھ ہندوستان آئے اور پھر یہیں آباد ہو گئے۔ ان کے خاندان نے دہلی سے ہجرت کر کے منڈی بہاؤالدین کے قریبی گاؤں واسو میں ڈیرہ لگایا اور پھر یہاں پر آباد ہو گئے۔ انہوں نے اپنی خودنوشت ً میں جاناں میں کون ً میں لکھا ہے کہ ان کے پڑ دادا کا نام یار محمد تھا اسی لئے ان کے خاندان کو یارو کے نام سے علاقہ میں جانا جاتا تھا۔

یہاں آنے کے بعد ان کے خاندان نے اپنے قدیمی پیشہ معماری کے ساتھ ساتھ زمینداری بھی شروع کر دی۔ معماری میں ان کا خاندان لکڑی کے کام میں بہت مہارت رکھتا تھا۔ لکڑی کے کام میں لکڑی پر مصوری اور خوبصورت نقش و نگار بنانا ایک بہت ہی مہارت کا کام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد زمین میں پانی کی موجودگی بتانے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ وہ زمین کو سونگھ کر اس میں پانی کی موجودگی اور مقدار بتا کر وہاں کنواں کھودنے اور اس کی تعمیر کا کام بھی کرتے تھے۔ ان کا خاندان بہت محنتی اور جفاکش تھا، کام کر کے کھا نے کو وہ عبادت کا درجہ دیتے تھے۔ ان کا پورا خاندان صوم و صلوۃ کا پابند اور نیک تھا۔ ان کی والدہ ایک تہجد گزار اور حافظ قرآن خاتون تھیں جن سے گاؤں کی عورتیں اور بچے قرآن پڑھنے آتے تھے۔

آپ موضع واسو میں 1909 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام میاں غلام محمد تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری سکول میں منشی دیوان سنگھ سے حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لئے اسلامیہ ہائی سکول منڈی بہاؤالدین میں داخل ہوئے لیکن دسویں میں سکول چھوڑ دیا اور اپنے کام میں لگ گئے۔ آپ بچپن سے ہی بہت ذہین اور زرخیز ذہن کے مالک تھے۔ چوتھی یا پانچویں جماعت میں ہی آپ نے پیر فضل شاہ کی تصنیف کردہ ً سوہنی مہینوال ً چند دنوں میں ہی زبانی یاد کر لی تھی۔

سکول کی پڑھائی چھوڑ دینے کے باوجود آپ نے اساتذہ کی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھا۔ آپ نے مثنوی مولانا روم، شیخ سعدی کی گلستان و بوستان، عبدالرحمن جامی کی یوسف زلیخا، شیخ عطار کا سکندر نامہ، دیوان غالب، دیوان ذوق، دیوان ظفر، مسدس حالی اور علامہ اقبال کی بہت سی کتب کا مطالعہ کر لیا تھا۔ پنجابی کے استاد شعرا جن میں بابا فرید، ہاشم شاہ، وارث شاہ، میاں محمد بخش، کے علاوہ احمد یار، قادر یار، مولانا غلام رسول عالم پوری اور بہت سے دوسرے شعرا کا کلام بھی پڑھ لیا تھا۔ قرآن مجید کی تفسیر اور احادیث کی کتب تو باقاعدہ عالم اساتذہ سے پڑھ لی تھیں۔

ممتاز عارف اخبار سرگودھا ایکسپریس میں اپنے ایک مضمون ً پنجابی ادب کا معتبر حوالہ، دائم اقبال دائم ً میں لکھتے ہیں ً حضرت دائم اقبال دائم نے ساٹھ سال تک لگاتار ادب کی خدمت کی۔ انہوں نے اپنی پہلی تصنیف ً سوہنی مہینوال ً 1930 ء میں مکمل کی جو کہ تصوف اور عشق و سمندر کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ دائم علامہ اقبال کے عشق کی حد تک عقیدت مند تھے۔ انہوں نے 1932 ء میں جب یہ تصنیف علامہ اقبال کو پیش کی تو انہوں نے اس کی بہت تعریف کی اور انھیں مزید کتابیں لکھنے کی تاکید کی۔

دائم اقبال اس کے بعد جاوید منزل پر اکثر حاضری دیتے رہے۔ خود دائم فرماتے تھے کہ مولانا جلال الدین رومی اور علامہ اقبال ان کے روحانی مرشد ہیں۔ ان دونوں پاک بازوں کی تصویریں میری بیٹھک جہاں میں بیٹھتا ہوں، سامنے دیوار پر جلوہ افروز ہیں۔ میں ان کا ایک ادنی سا عقیدت مند ہوں، ان کا کلام جہاں بھر کے لئے مشعل راہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں

شر ر آتشیں مولوی روم دا ہاں
مقلد میں اقبال مرحوم دا ہاں

1930 ء سے 1984 ء تک انہوں نے 134 چھوٹی بڑی کتابیں تخلیق کیں جن میں پنجاب کے چند مشہور قصے بھی شامل ہیں۔ کمبل پوش، شاہ پری سیف ملوک، یتیم سسی، سوہنی مہینوال اور شاہنامہ کربلا آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ یوسف زلیخا، شاہی منزل، شاہ مراد اور نور اقبال 1939 ء میں تخلیق ہوئیں۔ شاہنامہ کربلا دائم اقبال دائم کا ایک ایسا جیتا جاگتا شہکار ہے جو رہتی دنیا تک ان کا نام رکھے گا۔ محرم کے علاوہ عام دنوں میں بھی گھر گھر شاہنامہ کربلا بڑے شوق و جذبے سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ ً

دائم اقبال کو فی البدیہہ اشعار کہنے میں ملکہ حاصل تھا۔ شعر کہنے کے وقت ان پر ایک جنونی کیفیت طاری ہو جاتی اور وہ ارد گرد سے مافہیا ہو کر شعر کہتے رہتے۔ لوگوں کی ارد گرد موجودگی اور بھیڑ بھاڑ کی صورت حال کا بھی ان پر کوئی اثر نہ ہوتا اور وہ شعر کہتے رہتے۔ دائم اقبال نے دو شادیاں کیں۔ ان کی پہلی شادی ان کی چچازاد رحمت بی بی سے ہوئی جس پر وہ رضامند نہیں تھے لیکن والدین کی مرضی سے وہ شادی ہو گئی۔ ان کی دوسری شادی اپنی ماموں زاد فاطمہ بی بی سے ہوئی جو ان کی بچپن کی پسند بھی تھی جن سے ان کی ازدواجی زندگی بہت اچھی گزری۔ انہیں فاطمہ بی بی سے انتہا درجے کی محبت تھی۔ اگر انہیں کہیں دور جانا ہوتا تو وہ انہیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ فاطمہ بی بی نے بھی پوری حیاتی ان کی بہت خدمت کی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر میری گھر والی میرے ساتھ تعاون نہ کرتی تو میں شاید اتنی کتابیں کبھی تخلیق نہ کر پاتا۔

دائم ایک عوامی شاعر تھے۔ ان کے پاس ان کے عقیدت مند، مرید اور ان کی شاعری کو چاہنے والے اکثر آ جاتے تھے۔ وہ ہر ملاقاتی سے بڑی محبت، پیار اور شفقت سے پیش آتے، انھیں اپنے پاس بٹھاتے اور ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ روزانہ چار پانچ مہمان ان کے دستر خوان پر موجود ہوتے۔ وہ ہر خاص و عام سے یکساں برتاؤ کرتے اور ان کی جی بھر کر خدمت کرتے۔ خود وہ بہت خوش خوراک تھے۔ جوانی میں شلوار قمیض اور سر پر کلے پر شملے والی پگڑی باندھتے تھے۔ مختلف رنگوں کی چھ سات پگڑیاں ہر وقت ان کے پاس موجود رہتیں۔ پہلی بیٹی کی پیدائش پر انہوں نے کلے پر پگ باندھنی چھوڑ دی اور عام تریزوں والا کرتا اور تہبند باندھنا شروع کر دیا۔ سر پر عام صافے کی پگڑی باندھتے۔ پاؤں میں ہمیشہ دیہاتی گرگابی پہنتے۔ چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں ساری عمر انہوں نے رکھیں۔

آزادی سے قبل انہوں نے مسلم لیگ کے بڑے بڑے جلسوں میں حصہ لیا۔ فیروز خان نون، سردار شوکت حیات اور چوہدری فضل الہی جیسے بڑے لیڈروں کے جلسوں میں انہوں نے آزادی کے متعلق اپنی نظمیں پڑھیں اور لوگوں میں پاکستان کی تحریک آزادی کے لئے جوش و ولولہ پیدا کرنے کا سبب بنے۔ ساری عمر انہوں نے مسلسل جد و جہد اور محنت کرتے گزاری۔ کڑا وقت بھی بڑے حوصلے اور ہمت سے کاٹا۔ بیماری میں بھی وہ کام کرنے سے گریز نہ کرتے۔ آخری وقت میں طبیعت خراب تھی لیکن کمبل پوش کے چند تبدیل شدہ اشعار کی کتابت کے لئے کاتب کو گھر بلا رکھا تھا۔

کتابت ہو جانے کے باوجود وہ بیماری کی وجہ سے وہ تبدیل شدہ اشعار کی کتابت نہ دیکھ سکے۔ اپنے پاس بیٹھی اپنی زوجہ فاطمہ بی بی سے کلمہ پڑھنے کو کہا اور اس کے ساتھ ہی ان روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ 13 اکتوبر 1984 ء ان کا یوم وفات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments