کچھ چشم کشا حقائق


پاکستان کے لئے بہت سے محاذ کھلے ہوئے ہیں، جس کا مقابلہ کرنا مشکل تو ہے مگر ضروری بھی ہے، پاکستان پہلی نیوکلیئر پاور ہے، دشمن کو ہمارا مضبوط دفاع ایک آنکھ نہیں بہاتا جب ہی وہ مختلف طریقوں سے پاکستان کی سربلندی اور کامرانی کی جانب جانے والی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتا ہے، سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا صوبہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جب ہی مختلف قوتیں وہاں ترقیاتی کاموں میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں، یہ عناصر مختلف طریقوں سے بلوچ نوجوانوں کو ریاست اور افواج پاکستان سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر اللہ کے فضل سے ان کی گھناونی سازش کامیاب نہیں ہو پاتی ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے لاپتہ افراد کے حوالے سے پروپیگنڈا مہم چلائی گئی ہے، منظم پروپیگنڈا مہم میں طلبہ تنظیموں اور انسانی حقوق کے ادارے کو استعمال کر کے دشمن ملک انٹیلی جنس اور قوم پرست عناصر کا گٹھ جوڑ کرایا گیا.

پاک افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو لاپتہ افراد کے معاملے میں ذیلی قوم پرستوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور منحرف عناصر کی طرف سے بدنام کیا جا رہا ہے۔ جس کا آغاز ہندوستان نے کیا، اس مہم کو ففتھ جنریشن وار فیئر کا بنیادی نکتہ کہا جاتا ہے، جو سوشل میڈیا کے ذریعے شروع ہوئی، اس کا مقصد عوام میں مایوسی اور اداروں پر سے یقین اٹھانا ہے، مخالف عناصر مسلسل خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی نوجواں آبادی کی لاپتہ افراد کے لیبل سے ذہن سازی کر رہے ہیں تاکہ حالات مزید خراب ہو۔

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 ضمانت دیتا ہے کہ کسی کو اس کی شخصی آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے، قانون مینٹیننس آف پبلک آرڈر کے تحت امن عامہ میں خلل ڈالنے والے کو نوے دن کے لیے سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی اجازت دیتا ہے، حکومت پاکستان نے یکم مارچ 2011 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر وزارت داخلہ کے ذریعے قائم کردہ ”کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈسپیئرنس کو باضابطہ طور پر تشکیل دیا، جس کی سربراہی جسٹس جاوید اقبال نے کی، جس میں لاپتہ افراد کے معاملے کو بغور دیکھا گیا۔ اس میں ہر ایک فرد کا ڈیٹا اپ ڈیٹ کیا گیا۔ اس سلسلے میں

فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2021 کا نیا سیکشن ( 52 B) بھی متعارف کرایا ہے جو 8 نومبر 2021 کو نیشنل اسمبلی میں منظور ہوا تھا، جس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطالبے کی روشنی میں پاکستان میں ”جبری گمشدگی“ کو جرم قرار دیا گیا تھا، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے 30 اپریل 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2011 سے لاپتہ افراد کے کل 8539 ( 70 % سے زیادہ) کیسز میں سے 6408 کو نمٹا دیا گیا ہے جن میں سے 4631 ( 50 % سے زیادہ) کیسز ہیں جو اپنے اہلخانے پاس واپس آ گئے ہیں

بلوچ مسنگ پرسنز کی تحریک کو بی ایس او کی طرف سے اجاگر کیا جا رہا ہے جو دشمن ایجنسیوں اور بی آر اے کے ہاتھوں میں کام کر رہی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انڈین کرانیکلز پر یورپی یونین ڈس انفو لیب کے انکشافات میں، بی ایس او کا نام بھی شامل ہے، جو جعلی اور مشکوک مہم کی تصدیق کر تا ہے

بی ایس او کے موجودہ چیئرمین کا نام ابرام بلوچ ہے۔

ابرام بلوچ بلوچستان کے نوجوانوں کو گمراہ کن پروپیگنڈے، جعلی خبروں، بائیں بازو کے عقائد اور دہشت گردی سے جوڑ کر بنیاد پرست بنا رہا ہے۔

اس پروپیگنڈا مہم کے تحت طلباء تنظیموں کو نوجوانوں اور سیکورٹی فورسز/ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے درمیان خلا پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جبری گمشدگیوں کے افسانے کا پردہ فاش اس حقیقت سے ہوا ہے کہ زیادہ تر ’نام نہاد لاپتہ افراد‘ پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو سچ کرنے کے لیے روپوش یا دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو گئے۔ ان عناصر

افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی، القاعدہ، آئی ایس آئی ایس، آئی ایس کے پی اور شام میں فاطمیوں / زینبیوں میں شمولیت اختیار کی، کچھ شرپسندوں نے افغانستان یا یورپ میں بھی پناہ لے رکھی ہے۔ دراصل اس قسم کا شور بین الاقوامی شہریت اور پناہ حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ لاپتہ افراد

کئی مواقع پر، دہشتگردانہ حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں، مثال کے طور پر پی سی ہوٹل گوادر پر بی ایل اے کا حملہ اور کراچی میں چینی قونصلیٹ اور اسٹاک ایکسچینج پر دہشتگردانہ کارروائی بھی مسنگ پرسن کا شاخسانہ ثابت ہوئی ہے

وطن عزیز میں خواتین کو مقدم سمجھا اور ماننا جاتا ہے، ماما قدیر نے اپنے بیانیے کو ہمدردی کا رنگ دینے کے لئے فرزانہ مجید کو استعمال کیا۔ وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے ماما قدیر کی تحریک میں کردار ادا کیا بعد ازاں ماما قدیر نے مزید بلوچ خواتین کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا، تاکہ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ حاصل کی جا سکے۔

بی ایل اے اپنی خواتین کو خود کش بمبار بنانے میں بھی خوب دہشت گرد مہارت رکھتی ہے، جس کی کراچی یونیورسٹی میں حالیہ حملے ہے، جس میں شاری بلوچ کو استعمال کیا گیا۔

ایک اور خاتون کریمہ بلوچ بھی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں، یہاں تک کہ ان کا نام EU Disinfo Lab کے کرانیکلز میں آیا، وہ پاکستان اور ریاستی تنظیموں کے خلاف غلط معلومات پھیلانے کے لیے را کے ساتھ کام کرتی رہی ہیں۔

صوبہ بلوچستان کے علاقے تربت میں سولہ مئی کو سی ٹی ڈی نے انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا اور نور جہاں نامی خاتون کو گرفتار کیا۔ اس واقعے کو لبرل اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے جبری گمشدگی کے مبینہ کیس کے طور پر اجاگر کیا۔ انہوں نے #SaveBalochWomen کے ہیش ٹیگ مہم چلائی اور تربت ہوشاب شاہراہ پر احتجاج بھی کیا۔ بعد ازاں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ تربت سے گرفتار ہونے والی خاتون بلوچ دہشت گرد تنظیم کے لیے خودکش بمباروں کی ہینڈلر تھیں۔

مارچ 2011 سے بلوچستان میں کل 1790 کیسز میں سے 1448 ( 78 % سے زائد) نمٹائے جا چکے ہیں، جن میں سے 1213 افراد گھر واپس جا چکے ہیں اور 186 کیسز کو حذف کر دیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد کو لیفٹسٹ اور لبرلز نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ دراصل اس قسم کی پروپیگنڈا مہم سی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف اور سی پیک میں خلل ڈالنے کے لئے چلائی جاتی ہیں۔

ایف سی کی جراتمندانہ کوششوں اور قربانیوں سے صوبہ بلوچستان میں سماجی و اقتصادی ترقی ممکن ہوئی ہے، عسکریت پسندی/لاقانونیت میں کمی کی وجہ سے خوشحال بلوچستان کے پروگرام کو تقویت ملی ہے۔

پاکستان کے ایک اور صوبے خیبر پختون خواہ میں لاپتہ افراد کے معاملے کو منظور پشتین اور علی وزیر جیسے ذیلی قوم پرست رہنماؤں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ ان کا یہ دعوی جھوٹا ہے کہ فاٹا سے تقریباً 32,000 پشتون لاپتہ ہو چکے ہیں

30 اپریل 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق؛ مارچ 2011 سے کے پی کے میں 3260 کیسز میں سے 1412 کیسز ( 45 فیصد سے زائد) نمٹائے گئے جن میں سے 549 گھروں کو واپس آچکے ہیں اور 332 کیسز ڈیلیٹ کیے گئے ہیں۔

اگر صورتحال اتنی ہی خراب ہوتی جتنی بین الاقوامی میڈیا/پی ٹی ایم/بی ایس اینز (بلوچ ذیلی قوم پرست) کی طرف سے پیش کی جاتی ہے، تو کمیشن کو رپورٹ کیے گئے کیسز کی تعداد زیادہ ہوتی۔ واضح ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملے کو نام نہاد لبرل طبقے نے اپنے غیر ملکی آقاؤں سے فنڈنگ ​​حاصل کرنے کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔

غیر صحت مند ذہن فوج مخالف بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے نسلی کارڈ کھیلتے ہیں، آئیں آپ کو لاپتہ افراد کے کچھ جعلی کیسز کی حقیقت بتاتے ہیں.
ہیومن رائٹس کی کارکن، آمنہ مسعود نے رضاکارانہ طور پر اسامہ خالد ولد خالد حیدر کا مقدمہ درج کرایا، ان کی اہلیہ کے مطابق ایجنسیوں نے 25 ستمبر 2019 کو چمن بارڈر سے ان کے شوہر کو گرفتار کیا، وہ افغانستان سے واپس آرہے تھے۔ یہ کیس تقریباً 10 ماہ زیر تفتیش رہا۔ 7 ستمبر 21 کو اسامہ خالد کی اہلیہ نے بتایا کہ خالد حیدر نے افغانستان سے ان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ وہ بگرام جیل میں امریکی فوج کی حراست میں ہیں۔ بعد ازاں افغان طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد انہیں رہا کیا۔

نور احمد خان ولد امیر خاں کا مقدمہ ان کے والد نے درج کروایا تھا، انہوں نے الزام لگایا تھا کہ نور احمد کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ 27 جولائی 2016 کو ترار کھل سے آزاد جموں کشمیر کا سفر کر رہے تھے
پانچ سال یہ کیس زیر تفتیش رہا. دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ نور احمد 2011 میں خاندانی مسائل کے باعث افغانستان چلا گیا تھا، اس کی افغانستان میں سرکاری ملازمت تھی، وہ 2016 کے اوائل میں واپس آیا۔ 24 اپریل 21 کو لاپتہ شخص کے والد نے بیان دیا کہ اس نے 21 جنوری 2021 کو افغانستان میں نور احمد سے رابطہ قائم کیا۔

قیصر اسلم کے والد محمد اسلم نے الزام لگایا کہ قیصر اسلم کو دو گاڑیوں میں سوار نامعلوم افراد نے چکسواری، آزاد جموں و کشمیر سے اکیس ستمبر 2017 کو پکڑا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس کا بیٹا 800,000 /۔ روپے لے کر چلا گیا تھا۔ اور واپس نہیں آیا۔ انٹیلی جنس انٹیلی جنس اداروں کی جانچ پڑتال انکشاف ہوا کہ لاپتہ شخص 22 ستمبر 2017 کو سیالکوٹ ائرپورٹ سے جمیکا کے لیے روانہ ہوا

عبدالستار نے 8 فروری 2020 کو اپنے بیٹے اشفاق احمد کے خلاف مقدمہ درج کرایا جس میں الزام لگایا گیا کہ اشفاق احمد کو 7 مارچ 2018 کو لنک، ٹاؤن شپ سے نامعلوم افراد نے پکڑا تھا، یہ کیس تقریباً 18 ماہ تک زیر تفتیش رہا۔

جے آئی ٹی کے دوران لاپتہ شخص کے والد نے بتایا کہ اشفاق احمد ذہنی طور پر پریشان ہے اور وہ ادویات لے رہے ہیں۔ 11 اکتوبر 21 کو، لاپتہ شخص کے والد نے بتایا کہ ان کا بیٹا بیرون ملک گیا ہے (ممکنہ طور پر مسقط سے یونان گیا ہے)۔ لاپتہ شخص کے والد کو بیان حلفی جمع کرانے کا کہا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس کی کارکن آمنہ مسعود نے مقدمہ درج کرایا جس میں آفتاب احمد کی جبری گمشدگی کا حوالہ دیا گیا۔ یہ مقدمہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے 7 اپریل 2015 کو درج کیا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ 31 مارچ 2014 کو آفتاب احمد کو چوک اعظم لیہ میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا یہ کیس تقریباً 18 ماہ تک زیر تفتیش رہا۔ تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ آفتاب احمد سمیت ان کے دوستوں رشید احمد اور علی رضا کے نبیلہ نامی خاتون سے ناجائز تعلقات تھے، نبیلہ کو اس کے دوستوں نے اغوا کیا تھا۔ نبیلہ کو پولیس نے بازیاب کروایا، اس نے انکشاف کیا کہ آفتاب احمد کو اس کے دوستوں رشید اور علی رضا نے 25 اکتوبر 2014 کو اس سے جھگڑے کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ اس کے دونوں دوستوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا اور پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے قتل کا اعتراف کر لیا۔

جبری گمشدگی کا ایک اور کیس ساجد مسیح کا کیس تھا۔ ساجد مسیح ولد گلزار مسیح کا مقدمہ اس کے بھائی نے 6 جولائی 2021 کو درج کیا تھا جس میں اس نے الزام لگایا تھا کہ اس کے بھائی کو لاہور سے سولہ جولائی 2019 کو اغوا کیا گیا ہے. یہ کیس تقریباً چار ماہ زیر تفتیش رہا. کیس کی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا تھا، وہ ملازمت کے سلسلے میں اپنے دوست بابر مسیح کے ساتھ رہے رہا تھا، تاہم اس کا دوست اسے اگست 2021 میں گھر واپس چلا گیا، ساجد مسیح کے بھائی نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا تھا۔ ساجد مسیح کے خلاف صدر قصور کے تھانے میں لڑکی کو اغوا کرنے کی ایف آئی آر بھی درج تھی، اس وقت وہ ڈسٹرکٹ جیل قصور میں نظر بند ہے۔

مندرجہ بالا کیسز ماما قدیر جیسے ذیلی قوم پرستوں اور آمنہ مسعود جنجوعہ جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان پھوٹ پیدا کرنے کے لئے کیے جاتے ہیں تاکہ پاکستان کے نوجوانوں کو گمراہ کر کے ملک کو بدنام کیا جا سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments