حبیبہ پیر: کراچی سے لاپتہ ہونے والی بلوچ شاعرہ کی رہائی، ’اہلکار میری والدہ کی لکھی ہوئی شاعری کی تلاش میں تھے‘

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


بلوچ لاپتہ افراد احتجاج
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے 19 مئی کو لاپتہ ہونے والی بلوچ شاعرہ حبیبہ پیر محمد ساکن کو رہا کر دیا گیا ہے۔ اس بات کی تصدیق حبیبہ کی بیٹی حنا اور ان کی رشتہ دار ماہ گنج نے کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حنا نے بتایا کہ حبیبہ کو تین دن پہلے سادہ لباس اہلکار پوچھ گچھ کے لیے نیول کالونی کے ساتھ واقع مزدوروں کی کالونی میں ان کے گھرسے لے کر گئے تھے۔

’سنیچر کی رات نو بجے میرے کزن کو فون آیا کہ گولیمار کے علاقے سے بلوچی گلوکار اشرف اور حبیبہ کو آ کر لے جاؤ اور پھر فون کٹ گیا۔ ہم اس نمبر پر دوبارہ فون لگاتے رہے لیکن فون نہیں ملا۔ تھوڑی دیر بعد پھر فون آیا اور پتہ بتایا گیا۔‘

حنا نے بتایا کہ ان کی والدہ اس وقت ’کمزوری کی حالت میں ہیں اس لیے بات نہیں کر سکتیں‘ لیکن حنا خوش ہیں کہ ان کی والدہ زندہ واپس لوٹی ہیں۔

واضح رہے کہ 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے جس کے بعد سے بلوچ طلبا اور مختلف شہروں میں مقیم افراد سے پوچھ گچھ اور کچھ کی جبری گمشدگی کے حوالے سے تیزی دیکھنے میں آئی تھی۔

اس حملے کی ذمہ داری بلوچ انتہا پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ تنظیم کی جانب سے خاتون خودکش حملہ آور کا استعمال کیا گیا۔‘

کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے والی خودکش حملہ آور خاتون شاری بلوچ عرف برمش تھیں۔

اس واقعے کے بعد بلوچ خواتین کو مختلف مقامات سے گرفتار کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں اور ان معاملات پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہونے کے علاوہ شدت پسندی بھی طول پکڑ سکتی ہے۔

اس سے پہلے بلوچستان کے علاقے ہوشاپ سے نور جہاں بلوچ نامی خاتون کو سی ٹی ڈی کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جس کے بعد ان پر انسدادِ دہشت گردی کے تحت مقدمہ بنایا گیا اور ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا کہ جس وقت انھیں گرفتار کیا گیا تب انھوں نے ’خودکش جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔‘

’مجھے کہا گیا کہ آپ کی والدہ کو آدھے گھنٹے تک واپس لے آئیں گے‘

حبیبہ کا تعلق بلوچستان کی تحصیل کیچ کے گاؤں نظرآباد سے ہے جہاں سے وہ سات سال قبل کراچی منتقل ہوئی تھیں۔ کراچی آنے کے پیچھے وجہ ان کے علاقے کے حالات تھے۔

حبیبہ کی 20 برس کی بیٹی حنا محمد حنیف نے بتایا کہ 19 مئی کو شام چار بجے ان کے گھر کے باہر گاڑیاں آ کر رکیں اور دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔

’میں نے کھڑکی سے دیکھا تو دو کالی ویگو، ایک پولیس کی موبائل اور کالے رنگ کی ایک وین کھڑی نظر آئی۔ ان گاڑیوں کے پاس چند اہلکار بھی کھڑے تھے، جن میں سے تین وردی میں اور باقی سادہ لباس میں تھے۔‘

’ان میں سے ایک نے کہا کہ گلی میں چور گھسے ہیں جن کو تلاش کرنے کے لیے آپ کے گھر کی چھت پر جانا ہے۔‘

حنا نے بتایا کہ اس وقت تک ان کی والدہ حبیبہ بھی دروازے پر آ گئیں اور انھوں نے اہلکار کی یہ بات سن کر دروازہ کھول دیا۔

’وہ لوگ دروازہ کھلتے ہی کمروں کی طرف چلے گئے۔ میری والدہ کو ایک اہلکلار کچن کی طرف لے کر گیا اور ان سے آہستہ آواز میں باتیں کرنے لگا۔ مجھے سنائی نہیں دیا کہ وہ کیا پوچھ رہے ہیں۔

’اتنی دیر میں باقی اہلکار ہمارے کمروں میں الماریاں کھول کر سب سامان باہر نکال رہے تھے۔ ہم سب کے موبائل چھین لیے۔ آئی پیڈ، لیپ ٹاپ بھی لے کر گئے۔‘

حنا نے بتایا کہ اتنی دیر میں جو اہلکار کچن میں حبیبہ سے بات کر رہے تھے وہ انھیں لے کر باہر جانے لگے۔

’انھوں نے مجھے کہا کہ تھوڑی بہت بات کرنی ہے۔ آپ کی والدہ کو آدھے گھنٹے تک واپس لے آئیں گے۔ میں نے انھیں کہا ہم بچے بھی ان کے ساتھ جائیں گے۔ انھوں نےانکار کیا تو میں نے اپنے 17 سال کے بھائی کو ساتھ بھیج دیا۔‘

حنا نے بتایا کہ باہر جا کر اہلکاروں نے حبیبہ کو ویگو میں سامنے جبکہ بھائی کو پیچھے والی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا۔

’لیکن تھوڑے ہی فاصلے پر انھوں نے میرے بھائی کو گاڑی سے اتار دیا تو میں نے اسے آواز دی کہ گاڑی کے پیچھے بھاگو۔ وہ لوگ بہت تیزی سے گاڑی بھگانے لگے اور میرے بھائی کو پاؤں میں چوٹ لگ گئی تو وہ زیادہ دیر پیچھے نہیں بھاگ سکا۔‘

بلوچستان

’اہلکار میری والدہ کی لکھی ہوئی شاعری کی تلاش میں تھے‘

حبیبہ کی بیٹی حنا نے بتایا کہ ان کی والدہ شاعری کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتی تھیں۔

’کچھ شاعری میری والدہ کی میرے والد سے شادی اور پھر میرے بابا کے نشے کی لت لگنے سے منسلک تھی۔ وہ بلوچستان کی سیاسی اور معاشی محرومیوں پر بھی لکھتی رہی ہیں۔‘

حنا نے بتایا کہ ان کے گھر آنے والے اہلکار ان کی والدہ کی لکھی ہوئی شاعری کی تلاش میں تھے اور وہ چند ڈائیریاں اپنے ساتھ بھی لے گئے۔

’بلوچ خواتین یہ احساس دلانا چاہتی ہیں کہ وہ بھی اس مزاحمت میں شریک ہیں‘

واشنگٹن میں رہائش پذیر تجزیہ کار ملک سراج اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ زیادہ تر بلوچ خواتین و سماجی کارکن سے بات کر کے انھیں اندازہ ہوا کہ وہ مستقل افسوس کی کیفیت میں رہتی ہیں۔

ملک سراج اکبر کے مطابق بلوچ خواتین کو افسوس اس بات پر ہے کہ ان کے بھایئوں نے اتنی قربانیاں دی ہیں اور وہ بطور خواتین ان کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی ہیں۔

’خواتین سماجی کارکنان کی یہ کیفیت شدت پسندی میں نئی جان ڈال رہی ہے۔ جہاں اب بلوچ خواتین انھیں یہ احساس دلانا چاہتی ہیں کہ وہ بھی اپنے بھایئوں کے ساتھ اس مزاحمت میں شریک ہیں اور ان کے شانہ بشانہ ہیں۔‘

ملک سراج اکبر نے کہا کہ زیادہ تر بلوچ شدت پسند گروہ سمّی دین اور دیگر جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد کے لواحقین کی مثال بھی پیش کرتے ہیں۔

’شدت پسند اس بات کو بلوچ عوام پر باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر اسلام آباد کا عدالتی نظام بھروسے کے لائق ہوتا تو آج ان افراد کے لواحقین کو انصاف مل چکا ہوتا۔‘

بلوچستان

ملک سراج نے کہا کہ ایسا باور کرانے سے شدت پسندوں کے لیے بات کو پلٹنا آسان ہو جاتا ہے کہ ’شدت پسندی ہی ناانصافی اور موجودہ امتیازی نظام کا بہتر جواب ہے۔‘

خواتین کی شدت پسند گروہ میں شمولیت کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’حالیہ دنوں میں ہونے والی شمولیت کی ڈور سنہ 2004 میں شروع ہونے والی جبری گمشدگیوں سے ملتی ہے کیونکہ احتجاج کرنے اور اپنی آواز بلند کرنے سے انھیں اپنے صوبے کی سیاست کے بارے میں پتا چلتا ہے اور نوجوان باآسانی جذبات میں بہہ جاتے ہیں۔‘

لیکن ملِک سراج کا ماننا ہے کہ ’خودکش بمباروں کے استعمال نے بلوچ معاشرے میں بھی دراڑ پیدا کر دی ہے کیونکہ کچھ لوگوں کے خیال میں ان خودکش حملوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ عوام کی پر امن جدوجہد کو نقصان پہنچے گا جبکہ کچھ افراد ان حملوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘

جہاں تک پڑھے لکھے نوجوانوں کا سوال ہے تو تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچ مسلح تحریک میں بلوچ نوجوانوں کا جانا اور پھرخودکش بمباری میں حصہ لینا کوئی نئی بات نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ریاست پاکستان کی کوششوں کے باوجود بلوچ نوجوان عسکریت پسندی کی جانب مائل کیوں ہو رہے ہیں؟

کراچی یونیورسٹی: حملہ آور کون تھیں اور پاکستان میں خواتین خودکش حملہ آوروں کی تاریخ کیا ہے؟

ہوشاپ سے غائب ہونے والی خاتون کی خودکش حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتاری

تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 1970 کی دہائی میں جاری چار سالہ تنازعے کے دوران بھی بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن (بی ایس او) کے نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

’اس دوران ایک ناکام خودکش حملہ مجید نامی سیاسی کارکن نے اس وقت ذوالفقار علی بھٹو پر کرنے کا ارادہ کیا تھا جب وہ کوئٹہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور ہاتھ میں گرینیڈ لیے وہ اُس تقریب میں پہنچ گیا جہاں بھٹو بھی موجود تھے۔ وہ بھٹو تک نہیں پہنچ سکا تو اس نے وہیں اپنے ہاتھ میں دستی بم کو پھٹنے دیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سنہ 1970 کی دہائی کے بعد ایک خودکش حملہ سنہ 2011 میں بی ایل اے کے مجید بریگیڈ گروپ نے شفیق مینگل کے گھر پر کیا تھا۔ پھر ان حملوں میں لمبے عرصے کے وقفے کے بعد دالبندین میں چینی انجینیئرز پر حملہ کیا گیا۔‘

رفیع اللہ کا ماننا ہے کہ ان واقعات میں کمی کا حل سیاست سے ہی جڑا ہے۔ رفیع اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ جبری طور پر گمشدہ افراد کو واپس لایا جائے، ان لواحقین کے سر پر سرکار ہاتھ رکھے جن کے لوگ بے گناہ ان واقعات میں مارے گئے اور ایف سی اور فوج کو شہروں سے نکالنے کا مرحلہ وار طریقہ شروع کریں۔

’ان علاقوں کی حفاظت سویلین فورسز جیسے لیویز اور پولیس کو دی جائے تاکہ لوگ اپنے علاقوں میں خود کو قید نہ سمجھیں۔ یہ سب کچھ کرنا اتنا آسان نہیں لیکن جو لوگ ناراض ہیں یا بددل ہیں، ان کو اپنی طرف لانے کا ایک طریقہ ضرور ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments