شیریں مزاری کی پکڑ اور جلد رہائی


کل سے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھیڑ گئی۔ جب شیریں مزاری کو پکڑا پھر ایک گھنٹہ بعد رہا کیا تو لوگوں نے علی وزیر کے بارے میں بھی یہی خواہش ظاہر کی کہ کیوں وہ رہا نہیں ہوتے۔ تو کل رات ریمنڈیویس کی کتاب (کرایہ کا فوجی) دیکھ رہا تھا۔ تو آخر میں رہائی کے بارے میں لکھا تھا کے میں نے 49 دن جیل میں گزارے میرا رہائی بہت مشکل تھا شاہ محمود قریشی نے میری وجہ سے استعفیٰ دے دیا تو مجھے رہائی میں اور مشکلات ہو نے لگیں۔ تفصیل لمبی ہے لیکن آخر میں کہتا ہے کہ نواز شریف، اور زرداری نے ادارے سے بات کر کے اٹھارہ لواحقین کو کوٹ لکھپت جیل میں بند کر دیا اور ان کو دھمکی دی گئی کہ دیت قبول کرو ورنہ انجام برا ہو گا۔

صبح ایک لسٹ لایا گیا جس پر سب کے دستخط موجود تھے جس میں لکھا تھا کہ سب نے دیت قبول کیا ہے۔ جج نے کہا کہ اپ نے بخوشی دیت قبول کی کسی نے دباؤ تو نہیں ڈالا اس نے روتے ہوئے کہا کہ نہیں ہم نے بخوشی قبول کیا ہے۔ فی کس ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر دیے ٹوٹل تئیس لاکھ چالیس ہزار ڈالر بنتا ہے۔ پھر میں نے۔ اپنے پاس سوچا کہ یہاں عدالتیں مکڑی کا جالا ہے جہاں کمزور پھنس جاتے ہیں اور طاقتور جالا کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں رات 12 بجے عدالتیں لگ جاتے ہیں۔ جہاں سیاسی انتقام کے لیے ایک جیل سے رہا اور دوسرے کو اندر کیا جاتا ہے۔ جہاں آئین کے طالب گار کو غدار اور آئین کو پاؤں میں روندنے والے کو محب وطن کہا جاتا ہے۔

کل بی بی سی کا ایک رپورٹ دیکھا جس میں ایک بلوچ کی گم ہونے کی داستان تھا وہ لکھتا ہے کہ بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی خاتون بی بی فاطمہ کا، جن کے بھائی عبدالحفیظ زہری بیرون ملک سے رواں سال جنوری کے آخر میں حراست میں لیے جانے کے بعد سے لاپتہ تھے۔ چھوٹے بھائی کی جبری گمشدگی کے بعد لاش ملنے اور والد کے قتل کے بعد بڑے بھائی کا لاپتہ ہونا ہمارے خاندان کے لیے دکھ اور غم کا پہاڑ لے آیا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ مل گیا۔ ’

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کا ’بھائی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایک جیل میں ہے لیکن ہمارے لیے یہ بہت بڑی بات ہے کہ ان کا پتہ چل گیا اور ان کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔‘

جہاں پختون اور بلوچ سالوں اپنے لاپتہ افراد کے لیے انتظار کرتے ہیں کہ کب میرا لاڈلا واپس آئے گا وہاں شیریں مزاری ایک گھنٹہ میں رہا ہوتی ہے۔ جہاں علی وزیر صرف سخت بیان پر جیل میں قید ہے وہاں ریمنڈیویس 2 قتل کے باوجود رہا ہوتے ہیں۔ جہاں قاضی طاہر محسود کو ایک بیان پر عمر بھر قید کیا ہے وہاں 444 لوگوں کا قاتل راؤ انوار آزاد گھومتے پھرتے ہیں۔ جہاں حنیف پشتین اور اویس ابدال بے گناہ قید ہے وہاں پاکستان کے دشمن بمباری کرتے وقت پکڑنے والا ابی نندن کو رہا کر دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments