ڈاکٹر اسلم انصاری اور سید فخرالدین بلے: داستان رفاقت


پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کا 30 اپریل 2022 کو ماشا اللہ 83واں یوم ولادت منایا گیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری عصر حاضر کے ایک ممتاز محقق اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے اور ڈاکٹر اسلم انصاری کی تعلق داری دوستانہ روابط اور مراسم بلکہ رفاقت کا سلسلہ کب اور کیسے شروع ہوا اس حوالے سے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ پورے وثوق سے ضرور کہہ سکتے ہیں کہ آنکھ کھولنے کے بعد سے ہم پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کو گھر کے ایک بڑے اور ایک فرد اور اپنے والد گرامی کے مقرب برادر اور دوست کے طور پر دیکھتے آرہے ہیں۔

جب ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب محکمہ اطلاعات و نشریات تعلقات عامہ ثقافت و سیاحت ملتان اور بعد ازاں ملتان اور بہاولپور کے بیک وقت ڈویژنل ہیڈ تھے۔ اس وقت انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز ملتان کا دفتر حسن پروانہ روڈ ملتان پر واقع تھا۔ (یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا) عمارت کا فرنٹ پورشن دفتر اور بیک پورشن اقامت گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔

گو کہ ہماری عمر بہت کم تھی ابھی ٹھیک سے بولنا اور چلنا پھرنا بھی نہیں آتا تھا لیکن دھندلا دھندلا یاد ہے مسعود اشعر۔ حاجی کھوکھر۔ اقبال ساغر صدیقی۔ ڈاکٹر مقصود زاہدی۔ جناب اسلم انصاری صاحب اور دیگر بہت سے اصحاب اکثر ہمارے والد گرامی کے پاس آیا کرتے تھے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ عمارت کے فرنٹ پورشن میں مین گیٹ سے متصل حصے کو صاف ستھرا اور پینٹ کروایا گیا۔ ایک طرح سے بٹوارہ سا ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا لیکن بنا کسی دیوار کیے۔ پھر عمارت کے اس سنوارے جانے والے حصے پر ملتان آرٹس کونسل کا بورڈ نصب ہو گیا۔ اور جب ہم نے دفتر کے اندر جاکر دیکھا تو جناب اسلم انصاری صاحب ڈویژنل سربراہ آرٹس کونسل کی کرسی پر براجمان تھے۔ اور پھر انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا اور اپنی ایگزیکٹو کی نشست پر ہمیں اٹھا کر بٹھا دیا۔

ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی ڈاکٹر سید مقصود زاہدی صاحب اور ڈاکٹر ہلال جعفری صاحب اور پروفیسر عرش صدیقی اور مسعود اشعر صاحب والد گرامی کے پاس آئے بیٹھے تھے کہ اچانک بڑے بھیا سید انجم معین بلے صاحب وارد ہوئے اور فرمایا کہ فیض انکل (فیض احمد فیض صاحب) تشریف لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی تمام اصحاب کے چہرے کھل اٹھے اور سب کے سب فیض صاحب کا استقبال کرنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یقیناً پروفیسر عاصی کر نالی صاحب کو بھی مطلع کیا گیا ہو گا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بادشاہ سلامت کی تشریف آوری ہو رہی ہے۔ اس طرح کی چہل پہل اور گہما گہمی آئے دن کا معمول تھا۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں کہ جنہیں ہمارے بچپن کے یادگار واقعات کا نام دیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کی محبتوں قربتوں شفقتوں اور قرابت داری میں بچپن سے لے کر اب تک کا عرصہ بلکہ اب کی تمام تر عمر کو ہماری زندگی کا حسین ترین وقت گردانا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کو ہم اکثر والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے محو گفتگو دیکھا کرتے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کے تحقیقی اور تنقیدی مقالات بھی اکثر و بیشتر سننے کا اعزاز حاصل ہوتا تھا۔ سات صدیوں بعد ۔ رنگ۔ سید فخرالدین بلے کا تخلیقی معجزہ بھی میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کی اسی عہد کی یادگار تحریروں میں سے ایک ہے۔

جب بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے ملتان آرٹس میں سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد جشن تمثیل انیس سو بیاسی کا دھماکہ کیا تو تھیٹر کی دنیا اور تاریخ میں اس پچیس روزہ جشن تمثیل کو بھی ایک تاریخی انوکھا اور فقید المثال کارنامہ قرار دیا گیا۔ پچیس روزہ جشن تمثیل انیس بیاسی میں بھی بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی ڈھارس بندھانے اور حوصلہ افزائی کرنے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب پیش پیش تھے۔

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
٭٭٭
عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے
٭٭٭
میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج مجھے دیا لکھنا

٭٭٭

جیسے چونکا دینے والے لہجے کے اشعار کے خالق بڑے بھیا جناب آنس معین کی المناک جواں مرگی پر ہم نے تمام ہی قرابت داروں کو اپنے اور سید فخرالدین بلے فیملی کی طرح دکھی اور غمگین دیکھا ان حد درجہ افسردہ اور غمگین لوگوں میں پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب بھی شامل تھے۔ گزشتہ دنوں پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کا مقالہ۔ آنس معین ایک لافانی اور صاحب طرز شاعر آنس معین ایک عبقری ایک شعلہ ٔ تخلیق۔ ایک مدت کے بعد پڑھنے کا اتفاق ہوا تو ہم دیر تک اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکے۔

ہم نے اپنے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے ساتھ خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی۔ لیکن والد گرامی کے حلقہ ٔ احباب میں شامل تمام تر احباب سے تمام تر محبان اور رفقا ٔ سے ہمارا رابطہ مسلسل برقرار رہا۔ ملتان سے ہم لوگ والد گرامی کی ملازمت کے باعث ایک مرتبہ پھر لاہور منتقل ہو گئے۔ لاہور میں بھی والد گرامی کی ادبی تنظیم کا قافلہ رواں دواں رہا اور قافلے کے پڑاؤ بھی مسلسل ہوتے رہے۔

اور قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے ادبی رسالہ ہفت روزہ آواز جرس۔ لاہور کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آواز جرس کو پہلے شمارے سے ہی جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کا بھی قلمی تعاون حاصل رہا تھا۔ اور آواز جرس میں دنیائے شعر و ادب کی تمام ہی نامور شخصیات کی تخلیقات مسلسل اشاعت پذیر ہوا کرتی تھیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کی تخلیقات بھی نہایت اہتمام کے ساتھ شامل اشاعت کی جاتی رہیں۔

جب حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کے پچھتر سالہ جشن کا اہتمام کیا گیا تو ملک بھر سے سے بلکہ بیرون ممالک سے بھی متعدد اور نامور شخصیات نے شرکت کی۔ ہمارے محترم مشتاق احمد یوسفی صاحب کراچی سے اور ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب بھی ملتان سے تشریف لائے تھے۔ اواری ہوٹل کا ہال مہمانان گرامی سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب ہماری ساتھ والی نشست پر براجمان تھے۔ ہم نے ان سے گزارش کی کہ آپ ہمارے ساتھ ہی بلے ہاؤس چلیے اور وہیں پر آپ کا قیام بھی رہے گا۔

جناب اسلم انصاری صاحب کو ہم  نے بتایا کہ والد گرامی اس تقریب میں طبیعت کی خرابی کے باعث شرکت نہ فرما سکے۔ قصہ مختصر ہم  نے اسلم انصاری صاحب کے ساتھ آئے ہوئے صاحب شاید ان کا اسم شریف پروفیسر آفتاب تھا سے ان کے گھر کا مکمل پتہ اور فون نمبر دریافت کیا اور نوٹ کیا۔ تقریب کا اختتام ہوا۔ سب اپنے اپنے گھروں کی اور روانہ ہو گئے۔ ہم جب اپنے گھر پہنچے اور والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو تقریب کے احوال سے آگاہ کیا اور اسلم انصاری صاحب کی بابت بھی مطلع کیا۔ تو انہوں نے لمحہ بھر کی تاخیر بنا ہمیں حکم دیا کہ میری ان سے فون پر بات کروا دیجے اور بس پھر کیا ہوا یہ نہ پوچھیں۔ ہم اس فون کال کے ختم ہوتے ہی اسلم انصاری صاحب کو لینے کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد وہ جتنے بھی دن رہے ان کا قیام بلے ہاؤس میں ہی رہا۔ ہم ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انہوں قبلہ والد گرامی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی محبت اور خواہش کا احترام فرمایا اور ہمیں میزبانی کا شرف عطا کیا۔

مجھے یاد ہے کہ اگلے روز ہمارے والد گرامی سید فخرالدین بلے صاحب اور ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کے بہت سے مشترکہ دوستوں میں سے ایک ہمارے نہایت شفیق بزرگ ممتاز اسکالر اور بلا کے قادر الکلام شاعر اور بے مثل محقق اور ایک منفرد نقاد اور نہایت عمدہ اور نفیس اور عظیم انسان حضرت ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ خوب بیٹھک جمی دھواں دھار گفتگو اور شعر و شاعری کے دور چلے۔ ہماری معلومات کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر آفتاب۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی۔ پروفیسر انور مسعود صاحب اور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کی مثالی دوستی اور تعلق داری کو بھی ساٹھ برس کا عرصہ ہو چکا ہے۔

اب ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہیں پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کے چند شعری مجموعوں اور چند دیگر تحقیقی اور تنقیدی تصانیف پر مشتمل اس فہرست پر کہ جس کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

خواب و آگہی (شاعری)
نقش عہد وصال کا (کلام)
شب عشق کا ستارہ (کلام)
ارمغان پاک (جدوجہد آزادی کی منظوم داستان)
فیضان اقبال (منظوم اقبالیات)
اقبال عہد آفرین
مطالعات اقبال
شعر و فکر اقبال
اردو شاعری میں المیہ تصورات
ادبیات عالم میں سیر افلاک کی روایت
تکلمات
زندگی کا فکری اور فنی مطالعہ
بیڑی وچ دریا (ناول)
نگار خاطر
چراغ لالہ
جسے میر کہتے ہیں صاحبو
غالب کا جہان معنی
مکالمات
فکرو انتقاد

پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب نے ملتان کے علاقے بیرون پاک گیٹ میں تیس۔ اپریل انیس سو انتالیس کو آنکھ کھولی اور پھر کم وبیش پچاس برس اسی جگہ اور اسی محلے میں گزارے ماسوائے اس عرصے کے جو کہ جو انہوں نے حصول علم کے لیے لاہور میں گزارا۔ یا بسلسلہ ملازمت / تدریسی خدمات ملتان سے باہر رہے۔ ہمیں ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کا بیرون پاک گیٹ والا گھر بھی بخوبی یاد ہے اور اس سے کچھ ہی فاصلے پر ان کے قریبی عزیز قبلہ علامہ طارق صاحب کی اقامت گاہ بھی۔ پھر وہ وقت بھی کہ جب موجودہ گھر (بوسن روڈ۔ خیابان جناح) کی تعمیر کا کام جاری تھا۔ اور اس کے بعد تو بس ہم نے گھر دیکھ ہی رکھا تھا۔

دنیا کے قدیم ترین اور تاریخی شہر ملتان کو تہذیب و تمدن اور شعر و ادب کا بے مثل گہوارہ بلکہ منبع اور علم و عرفان اور تصوف کی جنم بھومی کہا جائے تو بہتر رہے گا اور ان تمام تر اوصاف کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی زندہ مثال آپ کو پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کے پیکر میں نظر آئے گی۔ ہم فخریہ طور پر خود کو پاکستانی کہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر کرنا چاہیے۔ بالکل درست سر تسلیم خم لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو دنیائے شعر و ادب میں جو مقام اور درجہ اور پہچان اور شناخت پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کے علم و عرفان اور اعلی ترین معیار کی تخلیقات اور تحقیق اور تنقید کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے کے باعث ملی اس کے جواب میں پاکستان نے کیا کیا اور پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟

کیا اس سوال کا جواب ارباب اختیار و اقتدار کے پاس ہے؟ ایک تمغہ امتیاز اور تمغہ  حسن کارکردگی دے کر اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے قرض ادا کر دیا یا فرض نبھا دیا تو یہ بھول ہوگی یا غلط فہمی اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں تک تمغہ امتیاز اور تمغہ  حسن کارکردگی کا تعلق ہے تو ان اعزازات کی پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب جیسی قد آور اور عظیم المرتبت شخصیت کے سامنے نہ تو کچھ حیثیت ہے اور نہ ہی وقعت۔ البتہ ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کو یہ اعزازات پیش کر کے ان اعزازات اور میڈلز کی توقیر ان کی حیثیت اور وقعت میں بے شک اضافہ کیا گیا ہے۔

اور ہمیں ہمارے سوالات کے جوابات پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کی ہی اس رباعی میں مل گئے۔

تاریخ کے دھارے پہ بہے گی دنیا
جو کہتی ہے وہ کہتی رہے گی دنیا
تم لاکھ جتن اس کے بدلنے کے کرو
جیسی ہے اسی طرح رہے گی دنیا

پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب استاذالاساتذہ ہیں۔ ہمیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ایمرسن کالج ملتان میں پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب صاحب اور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب ہمارے استاد رہے ہیں۔ اسے محض حسن اتفاق بھی کہا جاسکتا ہے اور وہ یہ ایمرسن کالج ملتان سے متصل سائنس کالج میں پروفیسر انعام الہی فاروقی صاحب ہمارے اردو کے استاد رہے ہیں اور بعد جب ہم نے ایمرسن کالج میں داخلہ لیا تو پروفیسر انعام الہی فاروقی صاحب کے استاتدہ جناب پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب صاحب اور جناب پروفیسر اسلم انصاری کی شاگردی کا شرف اور اعزاز ہمیں حاصل ہوا۔ برسوں بعد لاہور میں ایک روز جب سیدی محسن نقوی بہت فخریہ انداز میں فرما رہے تھے کہ محسن نقوی عام انسان اور شاعر نہیں بلکہ پروفیسر اسلم انصاری اور ڈاکٹر پروفیسر اسد اریب کے ہونہار اور با ادب شاگردوں میں سے ہے۔ میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور عرض کہ یا سیدی محسن نقوی صاحب آپ اس وقت جس شخصیت سے مخاطب ہیں اس کا نام ظفر معین بلے جعفری الصادقی العابدی ہے اور حسن اتفاق یہ کہ وہ بھی پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب اور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب اور جناب فرخ درانی صاحب کے شاگردوں میں سے ہے۔

ایک مرتبہ ملتان میں قومی سطح کا ایک شاندار مشاعرہ منعقد ہوا منتظمین مشاعرہ نے بہت سے شعرا ٔ کے بعد لیکن سیدی محسن نقوی سے پہلے پروفیسر اسلم انصاری صاحب زحمت کلام دی۔ محسن نقوی صاحب تو بپھر گئے اور منتظمین سے کہا کہ میں اب آپ کے مشاعرے سے اٹھ کر جا رہا ہوں کیونکہ آپ نے مجھ سے پہلے استاد محترم پروفیسر اسلم انصاری صاحب کو مدعو کر لیا ہے میری معذرت قبول ہو۔ منتظمین بوکھلا گئے اور کہا محسن نقوی شاہ جی یہاں ہماری مجبوری تھی ہم نے پروفیسر اسلم انصاری صاحب کو بے شک آپ سے پہلے پڑھوایا ہے لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم پہلے مقامی شعرا ٔ کو سننا اور سنوانا چاہ رہے تھے تاکہ بعد ازاں مہمان شعرا سے ان کا کلام سنا جا سکے۔

معاملہ حد سے زیادہ بڑھ گیا سیدی محسن نقوی اور سادات کا جلال ایک ساتھ۔ منتظمین میں سے کچھ نے سیدی محسن نقوی کے پیر پکڑ لیے اور اپنی کوتاہی اور غلطی کی معذرت کرتے ہوئے معاملے کو یہیں ختم کرنے کے لیے منت سماجت کی۔ ہم لوگ ان دنوں لاہور میں مقیم تھے۔ اچانک سے سیدی محسن نقوی کا فون آیا تو ہم نے دریافت کیا یا سیدی کہاں ہیں آپ گزشتہ رات کی غیر حاضری کی معقول وجہ سے مطلع فرما سکتے ہیں۔ سیدی محسن نقوی نے فرمایا کہ جانی ڈی۔جی۔ خان اور ملتان گیا ہوا تھا ابھی ابھی لاہور پہنچا ہوں اور سیدھا آپ کے پاس ہی آ رہا ہوں۔ خیر کچھ ہی دیر میں سیدی محسن نقوی والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اقامت گاہ پر پہنچ گئے اور آتے ہی کہا کہ میں اس وقت بہت بڑی ذہنی اذیت کا شکار ہوں۔ مولا مشکل کشا ٔ کے ماننے والوں کے در پر آیا ہوں۔ مجھے اس ذہنی اذیت سے اسی در سے نجات ملے گی۔ ہم نے سیدی محسن نقوی کو حوصلہ دیا اور کہا کہ کیا ہو گیا ایسا کہ سیدی پریشان ہیں تو سیدی نے تمام ماجرا سنا ڈالا اور کہا کہ مجھ میں تو ہمت ہی نہیں تھی پروفیسر اسلم انصاری صاحب کا سامنا کرنے کی میں نظریں چرا کر ملتان سے آ گیا لیکن میری طرف سے اگر آپ پروفیسر اسلم انصاری صاحب سے دست بستہ معذرت کر لیں تو میں اس ذہنی کوفت سے آزاد ہو سکتا ہوں۔

ہم نے انہیں تسلی دی اور بتایا کہ ہم تو دو ایک روز میں ملتان جا رہے ہیں جاتے ہی سرکار قبلہ پروفیسر اسلم انصاری کی خدمت میں حاضری دیں گے اور ہمیں قوی امید ہے کہ پروفیسر اسلم انصاری صاحب بہت اعلی ظرف انسان ہیں وہ ہماری گزارش بلکہ معذرت کو قبول کر لیں گے۔ پھر ہوا بھی بالکل ایسا ہم ملتان پہنچ کر پروفیسر اسلم انصاری صاحب کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور انہیں تمام تر داستان سنا کر ان سے دست بستہ معذرت کی جسے انہوں نے مسکراتے ہوئے قبول کر لیا اور فرمایا کہ محسن نقوی اعلی ظرف ہیں کہ انہوں نے اس بات کو محسوس کیا اور اس پر پشیمانی کا اظہار کیا۔ دیکھا جائے تو اس میں قصور منتظمین کا ہے لیکن آپ تسلی رکھیں اور محسن نقوی صاحب کو بھی مطمئن۔ فرما دیں کہ ہم نے ان کی اور آپ کی معذرت قبول کرلی ہے

2017 کا قصہ ہے کہ ”خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران ملتان میں معروف دانشور اور شاعر ڈاکٹر اسلم انصاری کی فارسی زبان میں تصنیف“ دیوان کامل ”کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا، تقریب میں خصوصی طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے پاکستانی میں تعینات کلچر قونصلر آغا شہاب الدین درائی نے شرکت کی، تقریب میں معروف دانشور اور ادیب ڈاکٹر اسد اریب، شاکر حسین شاکر، علامہ سید مجاہد عباس گردیزی اور دیگر نے شرکت کی، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اسد اریب کا کہنا تھا کہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے بعد ڈاکٹر اسلم انصاری پاک و ہند کی وہ دوسری شخصیت ہیں جن کے فارسی ادب سے اہالیان فارس مستفید ہوئے اور ان کے نام سے ایران کی یونیورسٹی میں ایک چیئر مخصوص ہے، تقریب سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کلچر قونصلر شہاب الدین درائی نے کہا کہ ڈاکٹر اسلم انصاری دنیائے فارسی ادب کا درخشاں ستارہ ہیں، اہالیان ملتان صرف بہاؤالدین زکریا اور شاہ شمس سبزواری پر فخر نہ کریں بلکہ گمنام زندگی بسر کرنے والے ڈاکٹر اسلم انصاری جیسی شخصیت پر بھی فخر کریں، جن کا فلسفہ، تقابل ادیان اور فارسی ادب پر بڑا کام ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کو بالعموم اور اہالیان ملتان کو بالخصوص ان کا احترام کرنا چاہیے، ان کے علم سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، ان جیسے عظیم افراد کے وجود کو غنیمت اور باعث رحمت سمجھنا چاہیے۔ بعد ازاں ڈاکٹر اسلم انصاری نے کلچر کونسلر شہاب الدین درائی کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی توجہ اور خانہ فرہنگ ایران ملتان کی ناظمہ خانم زاہدہ بخاری کی کاوشوں سے بالآخر کتاب کی اشاعت کا کام انجام پذیر ہوا۔“

2020ء کو ڈاکٹر اسلم انصاری کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ اور ماہ اپریل 2022 میں پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب صاحب اور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کے گھروں کے باہر ملتان کی انتظامیہ یعنی کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے اپنی ٹیم اور مقامی شعرا ٔ اور ادبا ٔ اور صحافیوں کے ہمراہ حکومت پنجاب کی جانب سے عصر حاضر کے مقتدر اسکالر محقق اور شاعر کے نام کا پتھر نصب کیا کہ جس پر پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب اور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کے اسمائے مبارک تاریخ ولادت اور خدمات کا ذکر کندہ کیا گیا ہے۔

گویا کہ ڈپٹی کمشنر ملتان جناب عامر کریم خان صاحب نے محسنین ملک و ملت اور شعر و ادب کی برگزیدہ اور مقتدر ہستیوں کی خدمات کا برملا اعلان کر کے دراصل ان کے کمال فن کا اعتراف کیا ہے اور یہ حد درجہ احسن اقدام ہے اس کو سراہے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں المیہ ہی یہ ہے کہ تنقید اور بے جا تنقید کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جبکہ احسن اقدامات کی تشہیر سے گریزاں رہتے ہیں۔

بین الاقوامی شہرت اور مقبولیت کی حامل پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب اور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب جیسی عظیم المرتبت شخصیات اور ان کی خدمات اور کارناموں پر ہم نازاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments