تخلیقی آزادی کیا ہے؟


زندگی بھی عجیب و غریب ہے۔ دکھ نہ ملے تو خوشی کی قدر نہیں ہوتی۔ شور نہ ہو تو خاموشی کی قدر نہیں ہوتی۔ اسی طرح کسی کا نہ ہونا اس کے ہونے کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔ تخلیقی آزادی کا مسئلہ بھی کچھ اے سا ہی ہے۔ اگر پابندیاں نہ ہوں تو آزادی کی قدر نہ ہو۔ مگر تخلیقی آزادی پر پابندیاں لگانا کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔ بقول شاعر:

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مے ری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

شاعر، ادیب، صحافی، قلمکار، فنکار اور ایکٹوسٹس اپنے معاشرے اور دنیا بھر میں ہونے والے واقعات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ جب اسپین میں جنرل فرانکو نے اپنی آمریت قائم کی تو ہیمنگوے سمیت بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے اس کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ انقلاب روس کے بعد جب اسٹالن نے سخت گیری کا مظاہرہ کیا تو شاعروں ادیبوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور ان میں سے بہت سوں کو سائبیریا جلاوطن کر دیا گیا۔ اسی طرح ایوب خان کی آمریت کا مقابلہ کرنے کے لئے حزب اختلاف کو ایک خاتون امیدوار ملی اور ان کے جلسوں کو ایک شاعر نے گرمایا۔ ضیا الحق کی آمریت کا مقابلہ پہلے صحافیوں نے ایک تحریک چلا کر اور پھر خواتین نے ایک محاذ بنا کر کیا۔

اگر میں کہوں کہ تھیٹر میں کام کرنے والے بھی فریڈم فائٹر ہوتے ہیں تو شاید آپ کو حیرت ہو مگر مقبوضہ فلسطین کے جینن ریفیوجی کیمپ میں 2006 سے فریڈم تھیٹر کام کر رہا ہے اور اس تھیٹر میں کام کرنے والے خود کو فریڈم فائٹر ہی کہتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ آرٹ ایک خواب ہے جس میں ہم اپنے مستقبل کو تصور کرتے ہیں۔ 11 مئی 2022 کو ایک اسرائیلی فوجی نے نامور فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو سر میں گولیاں مار کے ہلاک کر دیا اور دیگر صحافیوں کو اس کی مدد کے لئے پہنچنے نہیں دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں شیریں کے گھر پر چھاپے مارے، فلسطینی جھنڈے اپنے قبضے میں لے لئے اور ماتم گساروں کو فلسطینی گانے گانے سے بھی روک دیا۔ بقول حنان اشراوی ”ہمارے جھنڈے، ہمارے پوسٹرز، ہمارے نعرے ہماری ثقافت اور آرٹ کا حصہ ہیں“ ۔

آج سے کوئی آٹھ عشرے پہلے کا ذکر ہے۔ سینکڑوں چینی دانشور شنگھائی اور دیگر بڑے شہروں سے ینان (سمجھ لیجیے ہمارا دیہی سندھ) میں جمع ہوئے جو اس وقت کمیونسٹ پارٹی کا گڑھ بن چکا تھا۔ یہ دانشور چینی ثقافت کو درپیش چیلنجز اور جاگیردارانہ نظام کے مفلوج ہو جانے کے بارے میں بحث کر رہے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی انقلابی جنگ کے دوران آرٹ اور ثقافت کی صورت حال کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ یوں شہری دانشوروں کا رشتہ کسانوں کے ساتھ جڑ گیا کیونکہ وہ ان اہم تاریخی واقعات سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتے تھے۔ (وجے پرشاد)

تخلیقی آزادی یا آزادی اظہار کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے : ”حکومت کی سنسرشپ اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے دباؤ سے آزاد ہو کر سوچنے کی آزادی اور متنوع ثقافتی ایکسپریشنز کو پھیلانے کی آزادی“ ۔ عام طور پر تخلیقی آزادی کے حوالے سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ فنکاروں اور رائٹرز کو کس حد تک آرٹ تخلیق کرنے کی آزادی ہے لیکن تخلیقی آزادی ایک بنیادی انسانی حق ہے اور یہ تخلیق کرنے کے حق اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حق سے بڑھ کر ہے۔

تخلیقی آزادی کی اصطلاح کو بین الاقوامی طور پر سمجھا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کا ذکر اقوام متحدہ کے مختلف کنونشنوں میں ملتا ہے۔ فنکاروں، صحافیوں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور ایکٹوسٹس کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق قومی اور عوامی مفادات کے ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے مختلف مسائل پر آزادانہ نکتہ چینی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اگر ان میں سے کوئی تسلیم شدہ ڈھانچے سے باہر نکل جائے تو متاثرہ فریق کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس پر قومی مفادات کے خلاف سرگرمیوں، ناشائستگی، اور ہتک عزت جیسے الزامات کے تحت عام قوانین کے مطابق چارہ جوئی کرے لیکن کسی بھی فنکار، مصنف، صحافی یا ایکٹوسٹ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ جمہوری مملکت، جمہوری قوانین، اور جمہوری انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہو گا۔ مطلب یہ ہوا کہ ملزم پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ اسے اپنا دفاع کرنے کی مکمل آزادی ہو گی۔ اور اس پر جو الزامات لگائے گئے ہیں، ان کی تردید کرنے کی سہولت حاصل ہو گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ شہریوں بشمول صحافیوں کو باقاعدہ مقدمہ چلائے بغیر گرفتار یا نظر بند نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح کسی اخبار یا کتاب یا پریس یا ڈرامے پر اس وقت تک پابندی عائد نہیں کی جائے گی جب تک عدالت میں اس پر الزام ثابت نہ ہو جائیں۔

تخلیقی آزادی بنیادی جمہوری آزادیوں کا ایک مربوط حصہ ہے جس میں آزادی اظہار، آزادی تقریر، آزادی اجتماع اور انجمن سازی اور جماعت سازی کے حقوق شامل ہیں۔ یہ حقوق اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ عوام کو آزادانہ طور پر اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہو گی۔ چاہے وہ تقریر ہو یا چھپے ہوئے الفاظ کی شکل میں کوئی تحریر، اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عوام کو ہر قسم کے حالات اور واقعات سے باخبر رہنے اور جاننے کا حق حاصل ہو گا۔

بات صرف شاعروں ادیبوں اور فنکاروں کی نہیں، سائنسدانوں کی بھی ہے۔ جب گلیلیو نے کہا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور سورج ساکن ہے تو چرچ نے اسے سزا دی تھی۔ سقراط پر الزام تھا کہ وہ اپنی باتوں کے ذریعے نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ اس لئے اسے زہر کا پیالہ پلایا گیا۔ گو کہ تخلیقی آزادی کی بات قدیم یونان اور روم میں بھی ہوتی تھی لیکن سماجی، سیاسی اور قانونی تصور کے لحاظ سے اس کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے۔ انگلینڈ میں 1215 میں کنگ جان نے میگنا کارٹا پر دستخط کیے گو کہ اس میں آزادی اظہار اور فریڈم آف پریس کا ذکر نہیں ہے لیکن اسے انگلینڈ اور امریکہ میں ’آئینی آزادیوں‘ کی بنیاد تسلیم کیا گیا۔

اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو بقول توصیف احمد خان ’پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ ذرائع ابلاغ کو ریاستی بیانیے کی ترویج پر مجبور کرنے اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کی پاس داری اور مظلوم طبقات کے حقوق کے دفاع کے بیانیے کی اشاعت کو روکنے کی تاریخ ہے۔ حالیہ برسوں میں ذرائع ابلاغ پر نظر نہ آنے والی پابندیوں اور ذرائع ابلاغ کو معاشی طور پر مفلوج کرنے والی ریاستی پابندیوں نے میڈیا کے اداروں کے لئے ایک ایسا بحران پیدا کر دیا ہے جس کی برصغیر کی دو سو سالہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments