قوموں کا سقوط


بابا جی سے کسی نے پوچھا کہ بابا جی قوموں کے سقوط کی سب سے بڑی وجہ کیا ہوتی ہے تو بابا نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے جواب دیا کہ بیٹا ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ ﷺ کا خلاق کیا ہے تو آپ ؓ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ قرآن ہی آپ ﷺکا اخلاق ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ گویا کہ قوموں کے بننے اور بگڑنے کا سب سے بڑا اور اعلی و ارفع سبب ان کا اخلاق ہوتا ہے۔

یاد رکھئے تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ جن قوموں نے اخلاق کے دامن سے جان چھڑائی دراصل اخلاق نے ان کا دامن چھوڑ دیا اور پھر تباہی و بربادی ان اقوام کا مقدر ٹھہری۔ میں نے مزید بابا جی کو کریدتے ہوئے پوچھا کہ کیسے پتہ چلے گا کہ کوئی قوم کس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہو چکی ہے تو بابا جی نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا ایک بات یاد رکھنا کہ اخلاقی عروج کے درجے ضرور ہوتے ہیں لیکن زوال کا کوئی درجہ نہیں ہوتا۔ ارفع اخلاق کو ماپنے اور جاننے کا پیمانہ تو ہے لیکن گراوٹ کے لئے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ فلاں شخص اخلاقی زوال کا شکار ہے۔ لوگ پیمانے خود ہی جان لیتے ہیں۔

اب آتے ہیں ملک پاکستان کی طرف کہ جس کے سیاستدانوں سے مجھے کوئی چالیس سال ہو گئے ہیں یہ بات سنتے ہوئے کہ فلاں حکومت نے اخلاقیات کا جنازہ نکلا دیا تھا، اب ہم آ گئے ہیں تو سب ٹھیک کر دیں گے۔ میں نے تو اپنی حیات میں اخلاقی اقدار کی پامالی میں اضافہ ہوتے ہی دیکھا ہے نہ کہ اخلاقیات کے اعلی معیاری اقدار کو بہتری کی طرف گامزن ہوتے دیکھا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ میں نے اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات سے جو سیکھا ہے یا جان سکا ہوں وہ درج ذیل نکات ہیں جن کے سبب میرا ملک اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنے کا سبب بنا۔ جیسا کہ

منتشر اقوام کو اتفاق کی راہ دکھانے کی کوئی اگر سبیل ہو سکتی ہے تو وہ اخلاقیات ہو سکتے ہیں۔ میرا ملک سات دہائیوں سے اخلاقی طور پر گراوٹ کا شکار رہا ہے۔ ان کے تعلیمی و حکومتی ادارے تربیت کے اس معیار سے ہمیشہ سے غافل دکھائی دیے ہیں۔ خیر اب تو سیاستدان کجا تعلیمی اداروں میں اس قدر ایسے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ خدا پناہ۔ اخلاقی معیار کے گرنے کی اس وجہ میں سب سے زیادہ کردار میڈیا کا ہے۔ کہ جو بچے ہاتھ اور بیگ میں کبھی کتابیں رکھتے تھے آج کتب کی جگہ قیمتی موبائل فونز اور ٹیبلٹس نے لے رکھی ہے۔

اعلی تعلیمی اداروں کا استاد اپنی عزت بچائے اور چھپائے اپنا وقت پاس کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موجودہ تعلیمی پالیسی میں استاد کا کردار صرف ایک گائیڈ کا رہ گیا ہے جس کا کام رٹے رٹائے فقرات مسافروں کے گوش گزار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اس لئے کہ ہمارے تعلیمی نظام کو جدیدیت کے فائل پیپر میں ایسے لپیٹ دیا گیا ہے کہ جہاں تعلیم ہی تعلیم رہ گئی ہے تربیت کا کہیں نام و نشان نہیں۔ اگرچہ یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کے لئے ایک الگ سے کالم لکھنے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن یاد رکھئے گا کہ جب تعلیم کو تربیت سے جدا کر دیا جائے گا تو پھر وہاں سے ایمو بچے تو پیدا ہوسکتے ہیں محمد بن قاسم و عمر ثانی جیسے نہیں۔

اخلاقیات ہو کہ معاشی و سماجی اقدار، معاشرتی اقدار میں تبھی تبدیل ہو سکتی ہیں جب ملک میں قانون کی حکمرانی صحیح معنوں میں دیکھنے کو ملے یعنی کی قانون کا عملی اطلاق۔ میرا نہیں خیال کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی قانون ہے جو امرا و اشرافیہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ بلکہ وہ مقولہ من و عن صادق آتا ہے کہ۔ ”قانون بنانے والے ہی ہمیشہ قانون توڑتے ہیں“ اور دوسرا سیاسیات کا سنہرا اصول کہ

”justice delayed، justice denied“ امرا و اشرافیہ کے فیصلے کرنے ہوں تو ہماری عدالتیں رات کے بارہ بجے بھی کھول دی جاتی ہیں یہ کہہ کر کہ عدالتوں کے اوقات کار چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں، اس لئے عدالت کسی وقت بھی لگائی جا سکتی ہے۔ میرا ان تمام ایسے افراد اور ذمہ داران سے ایک سوال ہے کہ اگر کسی ملک کی عدالتیں چوبیس گھنٹے کام کرتی ہوں تو کیا ان ممالک میں زیرالتوا فیصلوں کی تعداد لاکھوں میں ہو سکتی ہے۔ نہیں کبھی بھی نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امیر کی جورو سب کی باجی اور غریب کی جورو سب کی بھابھی۔ اگر عدالتوں کی کارروائیاں چوبیس گھنٹے لیا ایمانداری سے بارہ گھنٹے بھی ہوں تو آج میرا ملک بھی ان ممالک کی صف میں کھڑا ہوتا جن کی مثالیں آج قانون کی کتابوں میں ہمیں ملتی ہیں۔

کبھی کبھار تو مجھے لگتا ہے کہ میرا معاشرہ اخلاقیات سے نہیں بلکہ ہوس سے بھرپور معاشرہ ہے۔ سرمایہ دار سے صارفین تک سبھی اپنے اپنے اختیارات و فرائض میں کہیں نہ کہیں ہوس زر و اقتدار میں مبتلا ہیں۔ سرمایہ دار ملازمین پر استحصال کر کے جبکہ صارفین اپنے حق کے لئے صدائے احتجاج بلند نہ کر کے اپنے فرائض منصبی سے غفلت برت رہے ہیں۔ گویا مذکور سب اخلاقی استحصال و تنزلی کی ہی ایک شخص ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کہ

مانگنے والا تو گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج

اس لئے میرا کہنا نا مناسب نہیں کہ جس معاشرہ میں ظلم و بربریت کا بازار گرم ہو، غریب کا استحصال اور اشرافیہ کی قدر اس کے شر کے ڈر سے کی جاتی ہو، دکاندار سے کارخانہ دار ملاوٹ و بے ایمانی میں مبتلا ہوں، قانون امرا و اشرافیہ کے گھر کی لونڈی اور غریب کے لئے خود کی علامت ہو، عدلیہ رات بارہ بجے اس لئے عدالتیں قائم کریں کہ طاقتور کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف نہیں حق دوستی ادا کرنا ہے، ملک میں لا قانونیت انتہا کو پہنچ جائے تو سمجھ لیجیے کہ ملک میں اخلاقیات کا جنازہ ہی نہیں بلکہ سقوط اخلاقیات ہو چکا ہے۔

اور اس کے حل کی کوشش بے کار و بے سود ہی نہیں بلکہ اخلاقیات کا درس دینے والے بھی دیوانے قرار دے کر ان کے گرد زندگی کا دائرہ تنگ کر دیا جائے گا۔ جیسے کہ چور بھی کہے چور چور۔ لیکن یاد رکھئے اگر اقوام کے عروج کی وجہ اخلاقیات کا اعلیٰ معیار ہوتا ہے تو اخلاقیات کا زوال تباہی بربادی کا سبب بھی بن جایا کرتی ہے۔ اب ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اخلاقیات کی پستی کے جنازہ میں شریک ہونا ہے کہ تعلیم و تربیت سے اپنی نسل نو کو اخلاقیات کا عملی درس دینا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments