قحط زدہ نسلیں


میں پندرہ سال کی تھی جب پہلی دفعہ ایک سنڈے میگزین میں پانی کی کمی کے بارے میں ایک آرٹیکل پڑھا تھا۔ جس کی ہیڈ لائن کچھ اس طرح کی تھی کہ

مستقبل میں عالمی جنگیں پانی کے لئے ہوں گی۔

اس تحریر کا نہ مصنف یاد ہے نہ کوئی اور حوالہ۔ لیکن اتنا ضرور پتہ ہے کہ جنگ یا خبریں اخبار کا ہفتہ وار رسالہ تھا۔ قلم کار نے اس وقت اس بات پر زور دیا تھا کہ ہمیں اپنے ڈیم بنانے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھنا چاہیے ورنہ ہمارے پانی کے ذخائر بتدریج بہت ساری وجوہات کے کارن کم ہوتے جائیں گے۔ آج سے تیس سال پہلے جب میں نے یہ پڑھا تھا تو لگتا تھا پتہ نہیں یہ کس زمانے کی بات ہے۔ ہم تو شاید بوڑھے ہو جائیں گے جب ایسا کچھ ہو گا۔

اور شاید ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ غیر ضروری باتیں اور حد سے زیادہ محتاط اندازے۔ بھلے ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ پانی سوکھ جائے۔ کیوں کہ تب میں ایک چھوٹے سے ضلع کے ایک شہر میں رہنے والی کم عمر طالبہ تھی۔ جس کا فہم اس طرح کی تحقیقی باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ لیکن یہ تو وقت کا پہیہ ہے جو مجھے ریسرچ کے راستے پر لے آیا اور یہ حقیقت کھلی کہ ایک محقق تو آج کے ساتھ آنے والے دنوں کے خدشات، بدلتی ضروریات، دم توڑتی روایات، انوکھے رجحانات، مسائل، ان کے ممکنہ حل اور اقدامات کی بات کرتا ہے۔

خیر میں بڑی ہوتی گئی۔ شعور، عمر، مرتبے، تعلیمی درجے، تجربے سب کو ہی نمو ملا۔ انھی چکروں میں شہر شہر، قریہ قریہ رہنے کا موقع ملا۔ اس سیاح نوردی نے بڑے بھیانک انکشافات کرنے شروع کر دیے۔ لڑکپن کی خوش فہمیاں ان تتلیوں کی طرح بجھنے لگیں جن کے بیٹھنے کو کوئی پھول نہ بچا ہو۔ پچھلی دہائی میں اسلام آباد کچھ سال گزارے۔ پنجاب کے کھلے وسائل کے ساتھ رہتے ہوئے جب پہلے آٹھ سو کا اور پھر ہزار کا استعمال کرنے والے پانی کا ٹینکر ہفتے میں تین دفعہ بھروانا پڑتا تو بجٹ کی چیخیں نکل جاتیں۔

کسی زائد فرد کے آنے اور کسی مہمان کے بے دریغ کھلا پانی چلانے پر ذہنی آزار الگ ہوتا۔ بس یہی کسر رہ جاتی کہ ہاتھ سے پکڑ کر غسل خانے کا شاور بند کر دیں یا کچن میں چلتے نلکے کو۔ پینے کا پانی اس کے علاوہ خرچا مانگتا۔ ایسے میں گرمیوں میں مہمانداری کافی گراں گزرتی۔ بھلے خود کو کتنا سمجھاؤ کہ آنے والے اللہ کی رحمت ہیں۔ دل بھاری ہو ہی جاتا۔ کچھ سال اس حوالے سے آسیب زدہ رہے اور اس آسیب سے چھٹکارا واپس پنجاب شفٹ ہونے پر ملا۔

لگتا تو یونہی تھا لیکن ایک مہینہ پہلے ہیڈ اسلام (وہاڑی سے حاصل پور جاتے ہوئے ) سے گزر ہوا۔ ہم نے تو اپنی اب تک کی عمر میں اسے جب بھی دیکھا، پانی سے لبا لب بھرا دیکھا۔ کناروں تک اچھلتا پانی ایسے کہ جب پاس سے گزرو تو ہلکی پھوار محسوس ہو۔ تازہ مچھلی کا گڑھ۔ کشتی رانی کی عیاشی۔ پانی تو اپنے باسیوں کو خود اپنی طرف بلاتے ہیں۔ اسی لئے سمجھو کہ اردگرد کے بے چاروں اور امیروں کا تفریحی مقام۔ ہمیشہ یہاں رونق لگی رہتی تھی۔

لیکن اس دفعہ تو پانی بہت دور تک نظر ہی نہ آیا۔ اگرچہ ہیڈ پر کچھ تعمیری کام کی وجہ سے پانی کا راستہ محدود کیا ہوا تھا۔ لیکن پانی کی پل کو اوپر تک چھوتی اونچائی اور تا حد نظر وسعت کوئی خواب معلوم ہو رہی تھی۔ کٹی پھٹی دریا کے پاٹ کی خشک زمین۔ اردگرد دم توڑتے ہنگامے اور بجھے کاروبار۔ میرا تو مانیں دل ڈوب گیا۔

اسی طرح کراچی کی ایک لکھاری دو تین سال پہلے پنجاب آئیں۔ واپسی پر انھوں نے اپنے سفر کے مشاہدات و حالات پر ایک مختصر اظہار لکھا۔ کہتی ہیں کہ اس بات پر اتنی حیران ہوئیں کہ پانچ دریاؤں کی سرزمین پر پانی یوں بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ گھروں کے گیراج، کھلے صحن اور گاڑیاں یوں پانی سے سیراب کی جاتی ہیں کہ ایسی عیاشی تو انسانوں اور جانداروں کو روشنیوں کے شہر میں میسر نہیں۔ کجا کہ بے جان چیزوں کے لئے۔ مجھے یاد کہ اس شہر میں تو ائر بیس پر بھی پانی فراخی سے نہیں برتا جاتا ہے۔ میری ایک بہن کا خاندان وہاں کچھ سال تعینات رہا۔ جب بھی پنجاب سے کسی کے مہمان بننے کی خبر ان تک پہنچتی، ان کا فون آ جاتا کہ اتنے کپڑے ساتھ لائیں کہ آپ کو یہاں واشنگ نہ کرنی پڑے۔

اور لاہور جو میری مادر علمی ہے۔ جستجو کے راستے پر ڈالنے والی آماجگاہ ہے۔ اس کی کیا بات کروں۔ جب پڑھنے کے لئے آج سے بیس سال پہلے یہاں قدم رکھے تھے تو راوی سانس لیتا تھا لیکن اٹکی اور آلودہ۔ پانی کے نشان ملتے تھے بھلے مٹیالے اور کالے۔ بہاؤ موجود تھا۔ خواہ دوڑتا نہیں تھا پر رینگتا تھا۔ دریا، دریا لگتا تھا۔ پھر آناً فاناً وہ اتنا خشک ہو گیا کہ گائے، بکریاں وہاں بندھنے لگیں۔ سیلاب کے ڈر سے جو مکان کوسوں دور بنتے تھے، وہ دریا کے اندر گھس آئے۔

جب دریا مر رہا تھا، بلا رہا تھا، تب ارباب اختیار اور عوام سب سوئے رہے۔ لیکن جب پانی کا قطرہ بھی نایاب ہو گیا۔ بگلے ہجرت کر گئے۔ مچھلیاں، کچھوے ناپید ہو گئے تو حکومت وقت نے روڈا (راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کا نعرہ لگا دیا جو دریا کو مصنوعی طریقے سے بحال کر کے اور مزید ترقیاتی کام کرے گا۔ ویسے کافی شیخ چلی والا منصوبہ ہے۔ کیوں کہ جو لوگ قدرتی تحفوں کو نہ بچا سکے۔ وہ مزید کیا کرنے کی گنجائش اور صلاحیت رکھتے ہیں؟

یہ ہمارے شہروں کے حالات ہیں جہاں ہمارے ملک کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی رہتی ہے۔ جہاں ملکی خزانے کا پتہ نہیں کتنے فیصد ترقیاتی کاموں کے لئے مختص ہوتا ہے۔ جہاں شہری منصوبہ بندی، پانی، سیوریج، کوڑے اور بے شمار ایسے کاموں کے لئے ادارے اور اسٹاف مقرر ہوتا ہے۔ اگر ایسے حالات ان جگہوں کے ہیں جہاں آبادی کی گنجانی اپنی حد پر ہے۔ تو ان صحراؤں کی کیا کہیں۔ جہاں اکا دکا بستیاں، میلوں کے فاصلے پر بستی ہیں۔ جہاں کی تپتی زمین پر ریت اڑتی ہو۔

جہاں نہ کوئی حکومتی ادارہ ذمہ داری لے نہ کسی بجٹ میں ان کا ترجیحی حصہ ہو۔ جہاں ان ریگستانوں کا ذکر کورس کی کتابوں تک محدود ہو یا پھر جب حیات آنتوں سمیت منہ سے ابلے، تو میڈیا، رفاہی ادارے اور خود حکومت (اگر کبھی کوئی انسانی احساس جاگے تو) اپنی نیک نامی کے چرچوں کے لئے پہنچ جائے۔ پانی جو بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے، ان چولستانی لوگوں کو یہ حق، خیرات کی طرح ملے۔ جس کی فراہمی بھی مستقل بنیادوں پر نہ ہو۔

وہ اعداد و شمار جو کہیں میٹرک میں اس آرٹیکل میں پڑھے تھے اور ذہن میں رہ گئے۔ وہ ایک پر اذیت اور تلخ دن کی طرح میری جوانی میں ہی میرے سامنے آچکے ہیں۔ پانی روٹھ رہے ہیں۔ زرخیزی، بنجر پن میں بدل رہی ہے۔ زندگی، موت سے گلے ملنے لگی ہے۔ خوشبوئیں اس دیس سے منہ موڑنے لگی ہیں۔ دریاؤں کی چوڑائی مختصر ہوتے ہوتے معدوم ہونے لگی ہے۔ لیکن ان سب سے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ وہ جان کنی جیسا احساس، جو کسی بھی قوم کے انفرادی اور اجتماعی طرز زندگی سے منعکس ہونا چاہیے، وہ عنقا ہے۔

ہم ابھی بھی امپورٹڈ حکومت نامنظور کے ہیش ٹیگ میں مصروف ہیں۔
ہماری حکومتیں اور سربراہان ابھی بھی اقتدار کے حصول کے اوچھے ہتھکنڈوں پر اترے ہوئے ہیں۔
ہمارے مفکر، عالم اور محققین ابھی بھی غفلت اور بزدلی کی گہری نیند کے مزے لے رہے ہیں۔
ہماری جوان اور جذباتی نسل ابھی بھی لیڈروں کی اندھی تقلید میں اپنی توانائیاں خرچ کر رہی ہے۔
ہم اب بھی ریسرچ، اور اس کی فروغ کے لئے کوشاں نہیں۔
ہم ہر مسئلے کے پائیدار حل کی بجائے ریلیف کو ہی اپنا ان داتا مانتے ہیں۔
ہماری ترجیحات میں ابھی بھی عامر لیاقت جیسے مرچ مصالحے اور چٹخارے سر فہرست ہیں۔

حالانکہ چاہیں تو دوا سامنے پڑی ہے۔ پہلی خوراک ہلکی لیکن ثابت قدمی مانگتی ہے۔ تعلیم اور آگاہی۔ احساس، احساس اور صرف احساس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments