انڈیا: سیکس ورکرز کی زندگی سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے سے کتنی بدلے گی

سوچتر موہنتی - بی بی سی ہندی


سیکس ورکر
انڈیا میں عدالت عظمیٰ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے جس کے سیکس ورکرز کی زندگی اور ان کی سماجی حیثیت پر بہتر اثرات مرتب ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے 19 مئی کو اپنے فیصلے میں پولیس کو احکامات جاری کیے کہ انھیں اپنی مرضی سے جنسی تعلق قایم کرنے والے سیکس ورکرز کے کام میں مداخلت کرنے یا ان کے خلاف قانونی کارروائی نہی کرنی چاہیئے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ سیکس ورکرز کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کرنے کے بجائے ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں۔

سپریم کورٹ کی اس بینچ کی صدارت جسٹس ایل ناگیشور راؤ کر رہے تھے۔

دراصل 2011 میں کولکاتا میں ایک سیکس ورکر کے بارے میں ایک شکایت درج ہوئی تھی۔ اس شکایت پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور اسی معاملے میں اب یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

اس معاملے میں دربار مہیلا سمنوے کمیٹی کی پیروی سینیئر وکیل آنند گروور کر رہے تھے۔ یہ کمیٹی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ عدالت عظمیٰ کا ایک زبردست فیصلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ سپریم کورٹ نے سیکس ورکرز کے بارے میں اتنا بڑا فیصلہ سنایا ہے۔

پولیس گرفتار نہیں کر سکتی

آنند گروور نے بتایا ’سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے سیکس ورکرز کی برادری کو ایک بہت اچھا پیغام دیا ہے۔ اب سیکس ورکرز کے ساتھ عزت سے پیش آیا جانا چاہیے نا کہ انکے ساتھ مجرموں جیسا یا ایسا سلوک ہو جیسے وہ اس ملک کے شہری نہیں۔ انھیں راشن کارڈ، شناختی کارڈ اور آدھار کارڈ جیسے حقوق دیے گئے ہیں۔‘

گروور نے یہ بھی کہا کہ اگر سیکر ورکرز اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے ہیں اور پولیس چھاپہ مارتی ہے تو ایسی صورت حال میں پولیس کسی بھی سیکس ورکر کو گرفتار نہیں کر سکتی ہے نہ ہی اس بنیاد پر ان کے خلاف کوئی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ وہ مجرم نہیں ہیں۔‘

گروور نے کہا ’سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں سیکس ورکرز کے پیشے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی، بلکہ یہ معاملہ پورے ملک میں سیکس ورکرز کی عزت اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی بات کرتا ہے۔‘

سیکس ورکر

'پولیس کو حساس ہونے کی ضرورت ہے'

انڈیا کی ایک اور مشہور قانون دان اور سپریم کورٹ کی سینیئر وکیل کامنی جایسوال نے بی بی سی سے کہا کہ ’ سیکس ورکرز کو ہر وقت مجرموں کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ بھی آخر کار انسان ہیں۔ سیکس ورکرز کو جینے کے لیے بنیادی عزت دی جانا ایک بڑی بات ہے۔ آخرکار ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے پاس روزی کمانے کے لیے کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ وہ یہ کام شوق سے نہیں کرتیں۔ انھیں اس پیشے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سیکس ورکرز کی سماجی حیثیت کو بہتر بناتا ہے۔‘

جایسوال کہتی ہیں کہ سرکار کو اب سیکس ورکرز کو اپنی زندگی آگے بڑھانے کے لیے ان کی حفاظت، کھانا اور شیلٹر جیسی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ اس پیشے میں رہنے کے لیے انھیں مجبور نہ کیا جا سکے۔ سیکس ورکرز کو کسی قسم کا سیکیورٹی نمبر بھی دیا جانا چاہیے۔

انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس بارے میں پولیس کو حساس اور جواب دہ بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی مردوں کو بھی اس معاملے میں حساس ہونے کی ضرورت ہے۔

خواتین کے حقوق کے معاملوں میں پیش پیش رہنے والی وکیل ورندا گروور کہتی ہیں کہ ’سپریل کورٹ کے اس فیصلے نے سیکس ورکرز کو دیگر شہریوں کی طرح قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اس فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ انھیں قانونی تحفظ فراہم ہونا چاہیے جو کہ سختی سے لاگو ہو۔‘

سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا

2011 میں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں از خود نوٹس لیا تھا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ 19 مئی 2022 کو کمیٹی کی سفارشات پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے یہ احکامات جاری کیے ہیں۔ اس پینل کی صدارت پردیپ گھوش کر رہے تھے۔

سیکس ورکر

کمیٹی نے سپریم کورٹ سے تین سفارشات کیں

  • ان کی سمگلنگ کی روک تھام
  • اس کام کو چھوڑنے کی خواہش رکھنے والوں کو سماجی ڈھانچے میں شامل ہونے میں مدد اور مواقع فراہم کرنا
  • اور وہ جو اس پیشے میں رہنا چاہیں انہیں عزت دی جائے

سپریم کورٹ نے ان سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ اپنی مرضی سے کام کرنے والی سیکس ورکرز کو پولیس اب گرفتار نہیں کر سکے گی۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم جاری کیا کہ وفاق اور ریاستوں کے قانون میں سدھار کے لیے سیکس ورکرز یا ان کے نمائندگان کو شامل کیا جانا چاہیے۔

عدالت نے کہا ’کسی سیکس ورکر کے بچے کو ماں سے صرف اس بنیاد پر جدا نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ جسم فروشی کرتی ہے۔ با عزت زندگی گزارنا ان کا ہی نہیں ان کے بچوں کا بھی حق ہے۔‘

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی نابالغ لڑکی سیکس ورکرز کے ساتھ رہتی ہے تو یہ تصور کر لینا ٹھیک نہیں ہے کہ اس کو سمگل کر کے یہاں لایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اپنے جیسوں کا مستقبل بچانے والی سابقہ سیکس ورکرز

کیا کوئی سیکس ورکر سے شادی کرے گا؟

نکاحِ متعہ:’کتنی بار شادی ہوئی صحیح تعداد یاد نہیں‘

کورونا:سیکس ورکر بازاروں سے غائب، آن لائن تک محدود

سیکس ورکر

سیکس ورکرز اور ان کے بچے

عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ اگر سیکس ورکر کا دعوی ہو کہ بچہ اس کا ہے، تو سچ معلوم کرنے کے لیے ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔ اگر سیکس ورکر کا دعوی صحیح ثابت ہوتا ہے تو نابالغ کو ماں سے جبری طور پر جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ اگر سیکس ورکر خاص طور پر کسی ایسے جرم کے بارے میں شکایت درج کرے جس کا تعلق جنسی زیادتی سے ہو، تو اس کے ساتھ تفریق نہیں کی جانی چاہیے۔ جنسی زیادتی کے متاثرین سیکس ورکرز کو فوری طبی امداد اور قانونی دیکھ بھال سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔

عدالت نے پولیس سے حساس ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ سیکس ورکرز کی جانب پولیس کا رویہ اکثر ظالمانہ اور پر تشدد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان کے حقوق کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ میڈیا کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ گرفتاری یا چھاپے کے دوران کسی سیکس ورکر کی شناخت واضح نا کریں۔ چاہے وہ ملزم ہو یا کوئی متاثرہ۔ ایسی کسی بھی تصویر کو بھی شائع نہ کیا جائے جس سے ان کی شناخت واضح ہوتی ہو۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ سیکس ورکرز اپنے تحفظ کے لیے کنڈوم استعمال کرتی ہیں، پولیس کو انہیں ثبوت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔

سیکس ورکر

بی بی سی نے اس معاملے میں کئی بار سپیشل سی پی کرائم برانچ رویندر یادو، سومن نلوا سمیت کئی سینیئر پولیس اہلکاروں سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

سیکس ورکرز کے آدھار کارڈ نہیں بن رہے

آنند گروور نے عدالت میں یہ بات بھی کی کہ سیکس ورکرز کے آدھار کارڈز نہیں بنائے جا رہے، کیوں کہ وہ اپنے مستقل پتے کا ثبوت پیش نہیں کر پا رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس نکتے کو نوٹ کیا۔

سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کر کے یو آئی ڈی اے آئی سے صلاح مانگی ہے کہ گھر کا مستقل پتہ نہ ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے، تاکہ ایسی صورتحال میں بھی کسی سیکس ورکر کو آدھار کارڈ جاری کیا جا سکے۔

یو آئی ڈی اے آئی نے اپنے حلف نامے میں تجویز پیش کی تھی کہ اگر کوئی سیکس ورکر نیشنل ایڈز کنٹرول ادارے کی فہرست میں ہے، اور وہ آدھار کارڈ کے لیے درخواست دے تو پتے کا ثبوت نہ ہونے کی صورت میں بھی انہیں آدھار کارڈ جاری کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر سیکس ورکر کا آدھار کارڈ بنایا جا رہا ہے تو ان کے آدھار کارڈ پر ایسی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے جس سے واضح ہوتا ہو کہ وہ سیکس ورکر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments