سلیم ہوٹل کی لابی میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ ایک پل کے لیے بھی اس کی نگاہیں مرکزی دروازے سے نہیں ہٹی تھیں۔ سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہا تھا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا نا امیدی بڑھتی جا رہی تھی۔

یہ ہوٹل بھی کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ لوگ آ کر تھوڑی دیر اردگرد موجود صوفوں پر بیٹھتے اور پھر چلے جاتے۔ بہت سے لوگ جو کسی کا انتظار کرتے، مل جاتا تو اس کے ساتھ چل پڑتے۔ وہ ہر آنے والی عورت کے سر کو دیکھتا پھر خود ہی شرمندہ ہو کر گردن جھکا لیتا۔ سال ہا سال گزر چکے تھے، وہ کتنی تبدیل ہو گئی ہوگی؟ موٹی ہو چکی ہوگی۔ اب تو شاید موٹاپے نے اسے بھدا کر دیا ہو۔

اس کے چہرے کے خط و خال دلفریب نہیں تھے لیکن آج بھی وہ اس کے جسم کے خطوط، قوسوں اور دائروں کو یاد کر کے گم سم ہو جاتا تھا۔ ا‬س کی مانگ کا تل اس حسن کو دو آتشہ بنا دیتا تھا۔ موٹا تل جو زلفوں کے بیلے میں کھینچی گئی سیدھی راہ پر رانجھے کی طرح پہرا دے رہا تھا۔ وہ اسی تل کی تلاش میں تھا۔ اسی لیے ہر آنے والی عورت کی مانگ دیکھتا اور منہ موڑ لیتا۔

اسے وہ دن بہت یاد آتے تھے جب دونوں کھلی فضاؤں میں کھیلا کرتے تھے۔ عشق و محبت کی باتوں کا اسے علم ہی نہیں تھا۔ گاؤں کی گلیاں، کھیت اور نہر کا کنارہ۔ کئی مرتبہ کرن آدھی رات کو اسے ملنے چلی آتی۔ وہ عمر میں اس سے بڑی تھی اور بھرپور جوان۔ کھیل کھیل میں اسے عجیب و غریب طریقوں سے چھوتی تو سلیم پریشان ہو کر بھاگ اٹھتا۔ ذرا بڑے ہوئے تو گاؤں کی بھوک اور بیروزگاری سے تنگ آ کر کرن نے مشورہ دیا کہ چلو شہر چلیں۔

اس وقت وہ سولہ سال کا ہو چکا تھا لیکن اب بھی اس سے شرماتا تھا۔ شہر آ کر اس نے پڑھائی جاری رکھی اور کام بھی شروع کر دیا۔ کرن کو ایک گارمنٹس کی فیکٹری میں ملازمت مل گئی تھی۔ ملاقاتیں جاری رہیں۔ انہی ملاقاتوں میں اگر کبھی وہ اس کے ساتھ چمٹ جاتی تو وہی گھبراہٹ اس پر پھر طاری ہو جاتی۔

کچھ دنوں کے بعد ہی وہ اسے بن بتائے غائب ہو گیا۔

سالہا سال کے بعد واپس آیا تو پتا چلا کہ وہ فیکٹری چھوڑ کر جا چکی ہے۔ فیکٹری سے اس کا فون نمبر مل گیا۔

تصویر انتظار بنا دروازے کی طرف ہی دیکھ رہا تھا کہ وہ اندر داخل ہوئی۔ ادھر ادھر دیکھا اور سیدھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ دلفریبی کم ہو چکی تھی لیکن اس کا اعتماد، ڈریس اور میک اپ کمال کا تھا۔ سلیم حیرانی سے اس کی طرف دیکھتا رہ گیا۔

اس نے ہی بات شروع کی
”تم بہت بدل گئے ہو۔“
”تم نے مجھے فوراً پہچان لیا۔“
”میں تمہیں کیسے بھول سکتی ہوں؟“
کرن نے اس کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ کر بات جاری رکھی۔

”مجھ اکیلی کو جانوروں کے اس جنگل میں چھوڑ کر تم کہاں غائب ہو گئے تھے؟ اتنے عرصہ میں تم نے یہ نہ سوچا کہ مجھ پر کیا گزری ہوگی؟ لیکن شکر ہے کہ تم میں کچھ غم خواری اور ہمدردی موجود ہے جو واپس چلے آئے ہو۔“

”میں بہتر مستقبل کی تلاش میں نکل گیا اور تمہیں کھو دیا۔“
”گرچہ تمہیں گئے نو سال سات ماہ ہوئے ہیں لیکن مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہمیں بچھڑے صدیاں بیت گئی ہیں۔“

یہ سن کر سلیم چونک اٹھا۔ وہ ایک ایک دن گن رہی تھی اور اسے یہ بھی پتا نہیں کہ آخری ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ دریا کنارے، اسٹیشن پر یا کسی بازار میں؟

اس نے کرن کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ دل چاہا کہ اسے باہوں میں جکڑ لے، چھاتی سے بھینچ لے۔ کرن کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی۔ وہ بھی شاید ایسے جذبات میں جل رہی تھی۔

اس نے خود کو سنبھالا اور بولا ”آؤ! اوپر کمرے میں جا کر بیٹھتے ہیں۔ ویسے بھی مجھے یہ ہوٹل عجیب سا لگ رہا ہے۔ تم اس ہوٹل کو کیسے جانتی ہو؟“

”میں اکثر یہاں آتی رہتی ہوں۔ یہ بہت مناسب ہوٹل ہے۔“
وہ حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر دونوں ساتھ ہی اٹھے اور کمرے کی طرف چل پڑے۔
چائے بنا کر اس کے سامنے رکھی۔
”تم اس عرصہ میں کیا کرتی رہی ہو؟ زندگی کیسے گزر رہی ہے؟“

”تمہارے لیے فکرمند اور تمہاری جدائی میں افسردہ۔ اب کچھ دل بہل گیا تھا تو تمہارا فون آ گیا۔ سوچ میں پڑ گئی کہ اب مل کر کیا کرنا ہے؟ تم انجان راہوں کے مسافر اور میں بھی اپنا راستہ کھوٹا کر چکی ہوں۔“

وہ اس کو غور سے دیکھ رہا تھا۔

تمہارے اعضا کتنے متناسب تھے اب تم نے خود کو کتنا بے ڈھنگا اور بد وضع کر لیا ہے۔ ہاں ہونا بھی چاہیے کیوں کہ اب تم گھر گرہستی والی ماں بن چکی ہوگی۔

میں نے تو شادی ہی نہیں کی۔ میری عمر ابھی پینتس سال سے کم ہے اور میں اتنی بھی بے ڈھنگی نہیں۔ اب بھی تمہارے جیسے کئی مجھ پر مرتے ہیں۔

”وہ فیکٹری کا سپر وائزر جو تمہارا دیوانا بنا پھرتا تھا اس کا کیا حال ہے؟“
”وہ لفنگا، اس کی وجہ سے ہی تو مجھے وہ فیکٹری چھوڑنی پڑی۔
میں آج بھی تمہیں چاہتی ہوں۔ ”

”میں جانتا ہوں میں ساری دنیا پھر چکا ہوں۔ طرح طرح کی عورتوں سے پالا پڑا لیکن جو بات تم میں تھی کہیں نہیں ملی۔“

”واہ! میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتی ہوں مجھے پتا ہے کہ میرا محبوب کتنا بہادر ہے۔ براہ کرم اپنی مردانگی کا دعویٰ میرے سامنے تو نہ کرو۔“

ایک بات بتاؤ کیا اب بھی کوئی عورت تمہارے پاس آئے تو تم کانپنا شروع کر دیتے ہو؟ ”

”اب میں وہ بھولا بھالا لڑکا نہیں۔ میں مختلف رنگ و نسل کی کئی عورتوں سے جسمانی تعلقات قائم کر چکا ہوں۔“

کچھ دیر خاموش رہا اور پھر کہنے لگا،
”مجھے بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب ہم دریا کنارے بیٹھے تھے۔

تم میرے قریب آ گئی تھیں۔ اور پھر اپنا سر میرے کندھے پر ٹکا دیا۔ شام ڈھل رہی تھی سردیوں کی خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔ ٹھنڈی زمیں پر بیٹھے صرف ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔ گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔ ہوائیں ہمیں چھو کر گنگنا رہی تھیں۔ تم نے کہا ”مجھے اپنا سر رکھنے دو ۔“

”کہاں؟“
”اپنی چھاتی پر ۔“

تم نے دھکا دے کر مجھے زمیں پر لٹا دیا۔ میرے قمیض کے بٹن کھولے اور ننگے سینے پر اپنا سر رکھ دیا۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں

”تمہارا سینہ تو بہت مضبوط، سخت اور کھردرا ہے۔“ تم نے اپنا نرم ہاتھ میرے پیٹ اور سینے پر پھیرنا شروع کر دیا۔ ”اوہ تمہارے سینے پر تو بال ہیں۔ کتنے خوبصورت ہیں یہ کھردرے بال۔ میرے سینے پر تو کوئی بال نہیں۔“

یہ کہہ کر تم نے اپنا سینہ بھی کھول دیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر اس پر رکھ دیا۔ میری آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں اور سانس جو کہ پہلے تیز تیز چل رہا تھا ایک دم اکھڑ گیا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔ اس وقت تو یوں لگا تھا کہ میرے پورے جسم میں کوئی جوالہ مکھی بھڑک اٹھا ہے۔ میرا دل گھبرا گیا تھا۔ تمہیں چھوڑ کر جانے کے بعد بہت سی لڑکیوں سے محبت کی لیکن وہ آگ پھر کبھی نہ بھڑکی۔

ہاں یہ بتاؤ تمہاری دائیں چھاتی کے نیچے ایک چھوٹا سا تل تھا کیا وہ اب بھی ہے؟ مانگ کا تل تو بھاری ہو گیا ہے وہ بھی اب بڑا ہو گیا ہو گا۔

پھر وہ خاموش ہو کر اس کا جائزہ لینے لگا۔ کرن ذرا بھی نہ شرمائی بلکہ ترچھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرانے لگی۔

”اس وقت مجھے ان باتوں کا پتا نہیں تھا۔ میں گیلی مٹی کہ مہک سے پریشان ہو جاتا تھا اب موسلادھار بارشیں بھی مجھے نہیں بھگوتیں۔ میں اب تک پیاسا ہوں۔

میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ تم میرا جنوں ہو۔ اس پاگل پن نے میری کئی راتوں کو برباد کیا۔ میں جس کہانی کو ادھورا چھوڑ گیا تھا اسے مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے بازووں میں بھینچ کر اس جسم کے ہر اس نقش کو اپنی دل میں محفوظ کر لینا چاہتا ہوں جس نے میری زندگی کی کسی بھی تصویر کو مکمل نہیں ہونے دیا۔ میں ہمیشہ سطحی لذتوں میں کھویا رہا اب میں اس بدن کے خمار آشنا لمس سے محظوظ ہو کر لذتوں کے عمق میں اتر جانا چاہتا ہوں۔ میں تمہارے پاس لوٹ آیا ہوں۔ مجھے اپنی آغوش میں لے لو۔ میں بہت سی لڑکیوں سے لطف اندوز ہوا ہوں، سب کی محبت غریب کی زندگی کی طرح بے کیف و بے رنگ و بو ہے۔ سب کا تعلق بازاری ہے، سب جسم کے سودے کرتی ہیں۔ تم میری محبت ہو، میرے دل کی خواہش ہے، میری روح کا پرتو ہو۔ ”

وہ بولتا جا رہا تھا اور کرن خاموشی سے اس کی باتوں کو سن رہی تھی۔ جوں جوں اس کی آواز ملاپ کی خواہش میں بھاری ہو رہی تھی کرن کے چہرے کے تاثرات بدلتے جا رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں محبت کی بجائے مغائرت سے بھری تیرگی امڈ آئی تھی۔ بیگانگی کا بوجھ پلکوں اور پپوٹوں پر بڑھ گیا تو وہ بند ہو گئیں۔ کرن کا یہ انداز استغنا ستم ڈھا رہا تھا۔

وہ خاموش ہوا تو کرن نے اس کی طرف پھر بھی دھیان نہ دیا۔ اس کی شدید محبت اس پر ذرا بھی اثرانداز نہیں ہوئی تھی۔ کرن نے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا تو وہ ڈھیر ہو گیا۔

مردہ سی آواز میں کہنے لگا۔
”تم میری اس تمنا، کو اس خواہش کو جنسی بھوک کہہ لو یا ہوس لیکن یہ میری یہ خواہش میرے دل کی آواز ہے۔

میں پوری دنیا کی خاک چھان کر ، گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر اور رنگ برنگی مغرور جوانیوں سے کھیل کر اپنے ملک واپس آیا ہوں۔ مجھے کہیں چین نہیں ملا۔ دل کا سکون ڈھونڈتے دس سال گزر گئے ہیں۔ میری بہت بڑی غلطی تھی تمہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ میں صرف تمہارے لیے آیا ہوں۔ تم میری محبت ہو۔ اس میں ذرا بھی کھوٹ نہیں، خدا قسم یہ سچی محبت ہے۔ اسے مکمل کردو۔ میں جب بھی عورت کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے سامنے صرف ایک ہی عورت آتی ہے اور وہ تم ہو۔ ”

اس کی شدید محبت اس پر ذرا بھی اثر انداز نہیں ہو رہی تھی۔ وہ اس کی طرف دھیان ہی نہیں دے رہی تھی۔ وہ اٹھا اور اسے اپنی باہوں میں جکڑ لیا۔

کرن نے اسے پیچھے دھکیل دیا۔

وہ بولی تو اس کا لہجہ بھی عامیانہ تھا۔

”اب یہ ممکن نہیں۔ خود کو سنبھالو۔ اگر تم اتنی عورتوں سے تعلقات رکھ کر بھی مجھے ہی تلاش کر رہے ہو تو سن لو۔“

وہ چپ ہو گئی۔ ادھر ادھر دیکھتی رہی پھر بولنا شروع کیا

”میں نے تمہیں بہت ڈھونڈا۔ پھر اسی سپروائزر کے ہتھے چڑھ گئی انجام تمہارے سامنے ہے۔ ایک یہ ہوٹل ہی نہیں روزانہ رات نئے سے نئے ہوٹل۔ شادی کا تم پو چھ رہے تھے، روزانہ رات ایک نیا شوہر۔“

اب وہ ساری بات سمجھ چکا تھا۔ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر اٹھا اور اسے جکڑ لیا۔
”تم مجھے اس حالت میں بھی قبول ہو۔“

”لیکن اب تم مجھے قبول نہیں۔ چھوڑو مجھے۔ تمہارے کھردرے ہاتھ میری باہوں کر زخمی کر دیں گے پھر کل رات کوئی ان زخموں کی سرخی کو چاٹ چاٹ کر اپنی جاں گنوا بیٹھے گا۔“

وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی جبیں عرق آلود ہو گئی۔ بائیں ہاتھ کی پشت سے ماتھے کا پسینہ صاف کر کے کھسیانی مسکراہٹ بکھیرتے کہنے لگا ”خدارا! مجھے کوئی راہ دکھاؤ۔“

”تم مجھے بد وضع اور بے ڈھنگی کہہ رہے تھے۔ اس حسن کی تابانی سے اب بھی ان گنت عشاق اپنی آنکھیں خیرہ کرتے ہیں۔ میں ہر رات دلہن بنتی ہوں اور منہ دکھلائی وصول کر کے سیج پر اپنا حسن بکھیر دیتی ہوں۔ وہ حسن جس کے جلوے تمہاری قسمت میں نہیں۔ کیونکہ طوائف کسی سے محبت نہیں کرتی۔“

”قیمت مانگ رہی ہو۔ تو اب تم عاشقی کو دولت میں تولو گی۔ اب میں جان گیا تم واقعی رنڈی بن چکی ہو۔“

”ہاں تم صحیح کہہ رہے ہو۔ لیکن جس طرح صرف ایک عورت ہی تمہاری خواہشات پوری کر سکتی ہے ایسے ہی میرے دل میں بھی ایک دیوتا سمایا ہوا تھا۔ وہ دیوتا جو بے داغ ہے۔ اس کا سینہ۔“

کرن نے ایک ٹھنڈی آہ بھری

”اس کا سینہ مضبوط اور وسیع تھا گرچہ میں اس میں نہ سما سکی، ادھر ادھر پھسلتی رہی کیونکہ وہ میرے چھوتے ہی لاجونتی کے بوٹے کی طرح کملا جاتا تھا۔

عاشقی بگھارنے والے، تو میرے طوفان آسا جذبہ عشق کو نہیں پہچان سکا۔ تو میرے جمال کے عریاں جلووں کے لیے بیتاب ہے۔ تیرے جیسے چاک چاک سینے والے کی خواہش پوری کر کے میں اپنے دیوتا کو کھونا نہیں چاہتی۔ ”