آنکھوں کے دام اور خواب


عرصہ تین چار سال سے سیاسی کشمکش ایسے جاری ہے جیسے دو متحارب ممالک کے درمیان سرحد پر کبھی جھڑپیں شروع ہو جاتی ہیں تو کبھی ان کے بڑے ہمارے نیوٹرلز کی طرح بیچ بچاؤ کروا کے عارضی فائر بندی کروا دیتے ہیں۔ ماضی میں، 126 دن کے دھرنے سے لے کر اب تک سیاست کا لاڈلا جب بھی کھیلنے کو چاند مانگتا، اس کی گود میں سورج، چاند، ستارے ڈال دیے جاتے تھے۔ تمام سیاسی پیر، پنڈت اور بابے اس کے در پر ہاتھ جوڑے کھڑے رہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاست کے پرانے اور منجھے ہوئے کھلاڑی بھی اپنے اپنے داؤ پیچ آزماتے رہے۔

کرونا کے نام پر لاک ڈاؤن سے لے کر ڈالر کو بے لگام چھوڑنے اور ملکی معیشت کو تباہی کے دھانے پر پہنچانے والا اپنی گدڑی سنبھالے رخصت ہوا تو مجھ جیسے کئی کم فہم لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور امید کی جانے لگی کہ اب تو خادم اعلیٰ تشریف لا چکے ہیں اس لئے ہر طرف ہریالی ہی ہریالی اور ہر چیز کی فراوانی ہو گی لیکن ہماری عوام کی اکثریت کی آنکھوں کے خواب دن بدن ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنے لگے اور کل تو اس وقت اخیر ہو گئی جب خبر بریک ہوئی کہ پٹرولیم مصنوعات 30 روپے فی لٹر مہنگی کر دی گئی ہیں۔

اس طوفان بدتمیزی میں نون لیگ کے حامی پشیمان پشیمان اپنی بغلیں بجانے میں مصروف ہیں، تحریک انصاف کے نظریاتی حامی انتہائی خوش ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنے سیاسی مخالفین کو تلاش کر کے کوسنے اور طعنے دینے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کسی بھی سیاسی انتہا پسند کو غریب عوام کی بے بسی اور لاچاری نظر نہیں آ رہی۔ آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی اب آسمان سے ہی غریب کے سر پر بم گرانے میں مصروف ہے۔ ہمارے سیاسی پنڈت اس وقت بھی پاکستان کی جنم کنڈلی کھولے اپنے حساب کتاب میں مصروف نظر آ رہے ہیں ان کو چیختی اور بلبلاتی عوام کی کرب ناک چیخیں سنائی ہی نہیں دے رہیں۔

نیوٹرلز اور بیورو کریسی بھی بگلا بھگت بنے سیاست دانوں کی کہہ مکرنیوں کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مہرے، ہاتھی، توپیں، وزیر اور پیادے مروانے میں مصروف ہیں۔ ملک کا ہر فرد بے یقینی اور یاسیت بھری نظروں سے کسی مسیحا کا منتظر ہے۔ جہاں تک میرا ذاتی مشاہدہ ہے عوام کی ایک بھاری اکثریت اب دن رات آمریت کی آمد کے لئے دعا گو ہے کہ اس بدترین اور جھوٹ و مکر و فریب کی جمہوریت سے آمریت ہی بھلی، دیکھا جائے تو گزشتہ چار کے عرصے کے دوران سیاسی گدھ ہماری قریب المرگ جمہوریت کی لاش پہ صرف اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب ہماری باری آئے گی، کوئی کسی پہ بھاری تو کوئی کسی پہ بھاری، صرف ایک عوام ہی ہے جو اس آگ کا ایندھن بننے کو ہمہ وقت تیار تھی، ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک کہ اس کو کوئی جمہوریت کی حقیقی روح یعنی ووٹ کی طاقت سے آگاہ نہیں کرتا۔

تحریک انصاف کی حکومت کی آمد کے ساتھ ہی مجھ جیسے کئی کم فہم افراد کو یہ امید ہو چلی تھی کہ احتساب کی چکی اب اپنے پاٹوں کے بیچوں بیچ سب کو پیس کر رکھ دے گی، پھر پورے ملک میں خوش حالی او ر امن کا دور دورہ ہو گا۔ ہر عام آدمی کو ریاست مدینہ میں انصاف ملنے کے ساتھ ساتھ دو وقت کی روٹی بھی دستیاب ہو گی۔ لیکن جب 50 روپے کے اسٹام پیپر پر ایک مبینہ چور کو بیرون ملک بھیج دیا گیا تو میرا وطن عزیز کی سیاست سے اعتبار ہی اٹھ گیا کہ کتی تو کب سے چوروں کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور ہم ماجھے ڈکیت کو سزا ملنے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔

سیاست کے مداریوں نے اس کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی آنچ پر اپنے دھرنے اور سیاسی بیانات بھی جاری رکھے اور اپنے کارکنان کو یہی بتلاتے رہے کہ ہم عمرانی حکومت کے خلاف ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا قدم یہی اٹھایا جاتا رہا کہ عوام کو جذباتی نعروں کے ذریعے جلسے جلوسوں میں لانے کی ناکام کوشش کرتے رہے لیکن میرے فاضل قارئین اس امر سے بخوبی واقف ہوں گے کہ مریم نواز کی گرفتاری ہو یا نواز شریف کی بیرون ملک سے آمد، زرداری کو جیل بھیجنے کا معاملہ ہو چاہے شہباز شریف کی نیب کے سامنے پیشی، عوام نے اب تمام سیاسی مداریوں کا ساتھ دینے کا سلسلہ عرصہ چار سال سے بند کر دیا ہے لیکن جب عمران خان کی حکومت کو مکس اچار کی مدد سے تخت سے اتارا گیا تو ترپ کی ایک چال سیاسی دانش وروں نے یوں پھینکی کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ عمران خان اقتدار میں رہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ غلامی کا جوا اتار پھینکے یا پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی سپرمیسی کو بھی للکار کر خود پاکستان کو سپر پاور بنا دے اور مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ اس سحر سامری کا سب سے بڑا شکار ہمارے جید لکھاری اور تعلیم یافتہ طبقہ ہوا، میرے خیال میں یہ عمران خان کو مقبول کرنے کی ایک گھسی پٹی چال تھی تاکہ عوامی ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں۔

اس کے علاوہ عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے والوں کو اس امر کا بخوبی علم تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ساتھ ساتھ منہ چڑاتے خالی خزانے کو بھرنا اب عمران خان کی حکومت کے بس کا روگ نہیں اس لئے انہوں نے عوام کے سامنے ایک مظلوم عمران خان کو لا کھڑا کیا ہے جس کو غربت کی چکی میں پستی عوام کے درد میں ساری ساری رات نیند نہیں آتی۔ ادھر آصف علی زرداری نے اپنے پتے کھیلتے ہوئے دونوں باپ بیٹوں یعنی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو لا کھڑا کیا ہے، مجھے عدم اعتماد والے دن موجودہ وزیر اعظم کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے ہی اندازہ ہو چکا تھا کہ اندرون خانہ کوئی اور حلوہ پک چکا ہے جس کو کھانے کے لئے ہر سیاسی باوا ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ شنید یہ ہے کہ کچھ سیاسی پنڈت نئے سیٹ اپ کے ساتھ نئے الیکشن میں سامنے آنے کی تیاریاں بھی کر رہے ہیں، اس مقصد کے لئے عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے پلیٹ فارم بھی تیار کیا جا چکا ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران غربت کی شرح 35 فیصد سے بڑھ کر 39.2 فیصد کے قریب ہو چکی ہے لیکن سیاست دانوں کے دلدادے اپنے کپتان کی قمیض میں موریاں ایسے تلاش کر رہے ہیں جیسے ہم بچپن میں چاند پر چرخہ کاتنے والی بڑھیا کو تلاش کرتے تھے۔ مہنگائی کی شرح میں میرے اندازے کے مطابق 60 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ گھی، چینی، پٹرول کے ساتھ ساتھ اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔

مزدور اور کسان بے چین ہے۔ سفید پوش طبقہ مہنگائی کے ہاتھوں اپنی اولاد اور گھر والوں کی ضروریات پوری نہ کرنے کی وجہ سے منہ چھپائے پھر رہا ہے۔ صرف ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ایک سفید پوش فرد کو جب پٹرول 182 لٹر ملے گا تو وہ اپنی باقی ضروریات زندگی کیسے پوری کرے گا، اوپر سے بجلی کے روز افزوں بڑھتی ہوئی قیمت نے ہمارا وہ سکھ کا سانس بھی چھین لیا ہے جو ہم شدید گرمیوں میں لیتے تھے، وہ بھی چھین لیا گیا ہے۔ غریب کا کفن 2000 سے 3000 اور اب 5000 کا ہو چکا ہے۔

کیا ہمارے بیوروکریٹ، افسر شاہی، اسٹیبلشمنٹ اور سیاست کے کرتا دھرتا افراد نے سوچا ہے کہ جب ایک غریب کے گھر میں کوئی مرگ ہوتی ہے تو اس کے پس ماندگان کا سب سے بڑا مسئلہ کفن کی خریداری اور شہروں میں تو قبر اور دفن کی تیاری ہے۔ ہم میں سے کتنے سیاست دان ایسے ہیں جو کبھی اپنے قریبی ہمسائے کو پرسہ دینے گئے ہوں تو اس کو کفن دفن کے اخراجات چپکے سے اس کی جیب میں ڈال کر اپس آئے ہوں لیکن مجھے تو ہمیشہ یہ چور کے بھائی گرہ کٹ ہی لگتے ہیں جن کا سب سے بڑا مقصد غریب اور سفید پوش طبقے کا خون چوسنا ہے۔

اور ہم بھی ان کی دہلیز پر اپنا خون پیش کونے کو ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں۔ کسی نے غریب کی آنکھوں میں جھانک کر نہیں دیکھا، کسی نے کسان کی مجبوریوں کو سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کی، کسی نے بھی کم تنخواہ والے کارکن سے یہ نہیں پوچھا کہ اس قلیل تنخواہ میں 500 روپے کلو والا چکن کا گوشت اور گھی کیسے خریدو گے؟ کیا کوئی ارباب اختیار یہ سوچے گا کہ اگر مہنگائی 60 فیصد سے بھی اوپر بڑھی ہے تو مزدور، کسان اور سفید پوش طبقے کی آمدنی بھی اسی حساب سے بڑھا دی جائے۔ ابھی ایک خبر نظر سے گزری کہ حکومت نے یوریا کی قیمت کم کر دی ہے لیکن ساتھ ہی ایک من چلے نے سوال داغ دیا کہ یہ کم قیمت کھاد ملے گی کہاں سے؟ کیا حکومت ایسے اقدامات کرے گی کی اس دی گئی سبسڈی کا فائدہ عوام کو بھی مل سکے؟ اس سلسلے میں، مجھے تو بس یہ کہنا ہے کہ

میری آنکھوں کے دام پورے دو
میں نے خوابوں سمیت بیچی ہیں
٭٭٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments