ساڈے پیر وی تسی تے ساڈے بُل ٹیریئر وی تسی


ایک بار پھر تبدیلی آ چکی ہے، عمران خان سابق وزیراعظم ہو گئے اور شہباز شریف نئے وزیراعظم بن چکے ہیں، نیا پاکستان کے وزیراعظم اور پرانا پاکستان کے وزیراعظم دونوں کو عوام کا غم اتنا ستاتا ہے کہ دونوں ایک پل بھی چین سے نہیں بیٹھتے، دونوں کی نیندیں حرام رہتی ہیں کہ عوام کو کس طرح ریلیف دیا جائے مگر عوام ہی بدقسمت ہیں، 74 برسوں میں عوام نامراد ہی رہے ہیں، ہر وزیراعظم ماہانہ اربوں روپے کی سبسڈی دیتے ہیں مگر عوام کی حالت ہی نہیں بدلتی

جب سیاسی شعور آیا ہے تب سے اب تک عوام کو پستے ہی دیکھا ہے، روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرہ سے لے کر نیا پاکستان کے دلفریب نعروں کے سوا کی حکمرانوں نے عوام کو کچھ نہیں دیا، پرکشش نعروں کے جھانسے میں آ کر عوام ہر لیڈر کی کال پر اندھا دھند لانگ مارچ، آزادی مارچ، مہنگائی مکاؤ مارچ، ابو بچاؤ مارچ، گوگی بچاؤ مارچ میں کود پڑتے ہیں اور ڈنڈے سوٹے کھا کر گھروں کو لوٹ آتے ہیں

عمران خان کے حالیہ آزادی مارچ میں کے اختتام پر ٹک ٹاک پر کسی دانشور نے خوب ویڈیو بنائی ہے جس میں دھرنے کے بارے میں پوچھنے پر جواب ملتا ہے، لال اے، لال اے، لال اے۔ (پشت لال اے)، پولیس اہلکاروں سمیت عام شہریوں نے بھی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے کہ شاید ہماری آنے والی نئی نسل کی قسمت بدل جائے، عوام کی قسمت تو شاید نہ بدلے مگر کئی بچے یتیم ہو گئے، کئی کے سہاگ اجڑ گئے، ماؤں کے سینوں کی ٹھنڈک ان کے بیٹے جدا ہو گئے، بہنوں کے بھائی اور باپ کے بڑھاپے کے سہارے چھن گئے

پاکستانی عوام جیسی عوام شاید دنیا کے کسی کے خطے میں نہ ملے، جب عام لوگوں سے بحث ہوتی ہے تو ان کی شکلیں دیکھتا ہوں کہ ان کی دلیلیں کیا ہیں اور ان کے زندگی کے بارے میں فلسفہ کیا ہے، تمام سیاستدانوں کے ”کارنامے“ آئے روز میڈیا میں آتے رہتے ہیں مگر عوام جس کے پیروکار ہیں ان کے خلاف کوئی بات ماننے کو تیار ہی نہیں

ہمارے عوام کی حالت ان مریدوں جیسی ہے کہ ایک گاؤں میں چوریاں بہت بڑھ گئیں، لوگوں کے مال، ڈنگر چوری ہونے لگے، گاؤں کے لوگ تنگ آ گئے، ایک روز گاؤں والوں کی پنچایت ہوئی سب نے فیصلہ کیا کہ پیر صاحب کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں ان سے دعا کراتے ہیں اور ان سے تعویذ بھی لیتے ہیں اور ان تعویذوں کا ڈنگروں کے گلے میں ڈال دیں گے جس سے مویشی چوری نہیں ہوں گے ، گاؤں کے لوگ پیر صاحب کی خدمت میں پیش ہوئے اور اپنا مدعا بیان کیا، تمام صورتحال سننے کے بعد پیر صاحب اپنے مریدوں کو ہدایت کی کہ وہ دعا ضرور کریں گے کہ اللہ آپ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے مگر آپ لوگ بھی احتیاطی تدابیر کریں اور اپنے گھروں میں بُل ٹیریئر (کتے) پالیں تاکہ جب چور آئیں تو کتے بھونکیں اور آپ لوگ جاگ جائیں اور چوروں کو پکڑ لیں

مریدوں نے پیر صاحب کا واعظ بہت دھیان سے سنا اور داد بھی دیتے رہے، پھر ان میں سے سب سے بزرگ اٹھا اور ہاتھ جوڑ کر پیر صاحب سے کہنے لگا کہ ”جناب ہم تو آپ کو ہی سب کچھ مانتے ہیں،“ ساڈے پیر وی تسی تے ساڈے بُل ٹیریئر وی تسی ”، یہی حالت ہمارے عوام کی ہے، عوام خود کچھ کرنے کو تیار نہیں اور اپنا سب کچھ اپنے رہنماؤں (سیاستدانوں) کو ہی سمجھتے ہیں، عوام نے مریدوں کی طرح کچھ نہیں سمجھنا اور اسی طرح ان کا سب کچھ چوری ہوتا رہنا ہے

نیا پاکستان کا وزیراعظم اور پرانا پاکستان کا وزیراعظم بلکہ تاریخ میں جتنے بھی وزیراعظم گزرے ہیں انہوں نے عوام کو سبسڈی پر لگا رکھا ہے، دو ہزار روپے، تین ہزار روپے، کبھی احساس پروگرام اور کبھی بینظیر پروگرام کے نام پر دیے جاتے ہیں اور دیے جا رہے ہیں، حکومتوں کا کام ہوتا ہے کہ عوام کو روزگار دے، اس کے لئے چھوٹی بڑی صنعتیں لگانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، گھریلو صنعتوں کا جال بچھا کر عوام کو بھیک لینے سے بچایا جاسکتا ہے مگر کوئی حکومت ایسا نہیں کرے گی تاکہ عوام ان کے محتاج رہیں

ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہماری انرجی ہے، بجلی اتنی زیادہ مہنگی ہو گئی ہے کہ اس وجہ سے ہر شعبہ کی پیداواری لاگت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ عام پہنچ سے دور ہو گئی ہے، ملک کا سب سے زیادہ پیسہ پٹرولیم مصنوعات اور کھانے کی تیل پر خرچ ہوتا ہے، اس وجہ سے ہماری معیشت مستحکم نہیں ہوتی، ہم اپنی ایکسپورٹس اس لئے نہیں بڑھا سکتے کہ ہماری ہر پراڈکٹ کی پیداواری لاگت اس قدر زیادہ ہوجاتی ہے کہ وہ عالمی منڈی میں بہت مہنگی پہنچتی ہے جس کی وجہ سے اس مال کو کوئی خریدنے کو تیار ہی نہیں ہوتا

کوئی حکومت ان مسائل پر توجہ نہیں دیتی، کسی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی کھپت کو کم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، اگر پٹرول، ڈیزل کی کھپت پر قابو پایا لیا جائے تو ملک کی معیشت سدھر سکتی ہے، حکومتی سیکٹر میں جس طرح پٹرول کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اس سے ہی ساری تباہی آتی ہے، وفاقی و صوبائی وزرائی، پارلیمانی سیکرٹریوں کے بعد سرکاری افسران جتنا پٹرول جلاتے ہیں، اتنے پٹرول سے پورا پاکستان چلایا جاسکتا ہے

موجودہ وفاقی حکومت کے انتہائی اہم وزیر 2013۔ 2018 ءکی حکومت میں پنجاب کے اہم وزیر تھے، اس وقت موصوف ماہانہ تین ہزار لٹر سے زائد پٹرول استعمال کرتے تھے، ایک افسر نے فہرست دکھائی تو حیران رہ گیا، پوچھا پیتا ہے یا بیچتا ہے، تو افسر نے بتایا کہ اس کے حلقے سے جو لوگ آتے ہیں ان کو پچاس یا سو لٹر کی پرچی دیدی جاتی ہے، اسی بزدار حکومت کے ترجمان شہباز گل جب پنجاب میں تھے تو ان کو 1300 سی سی ایک گاڑی اور ماہانہ دو سو لٹر پٹرول کی اجازت تھی مگر موصوف نے دو گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں اور ماہانہ پانچ سو سے لے کر سات سو لٹر تک پٹرول استعمال کرتے تھے

موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کیس میں عدالت پیشی کے موقع پر بتایا کہ وہ اپنی سرکاری گاڑی میں پٹرول اپنی جیب سے ڈلواتے ہیں، کیا مذاق ہے، اپنی گاڑی میں تو پٹرول جیب سے ڈلوا لیا مگر جو سکواڈ ان کے ساتھ چلتا ہے جس میں کم از کم بیس گاڑیاں ہوتی ہیں ان کا پٹرول کون دیتا ہے؟ کیا سرکاری ڈیوٹی دینے والا پروٹوکول سکواڈ بھی اپنی جیب سے پٹرول ڈلواتا ہے؟

دوسرا اہم معاملہ سرکاری گاڑیاں کا بے دریغ استعمال ہے، جو سرکاری افسر ایک ادارے کا سربراہ ہے اس نے کم ازکم تین اور زیادہ سے زیادہ آٹھ تک گاڑیاں اپنے ذاتی استعمال کے لئے رکھی ہوئی ہیں، بزدار حکومت میں ایوان وزیراعلی میں اہم پوسٹ پر تعینات ایک افسر نے ایوان وزیراعلی میں تعیناتی کے دوران اپنے دوسرے دفتر کا چارج نہیں چھوڑا تھا، اس نے پرانے دفتر کی چھ گاڑیاں اپنے ذاتی استعمال میں رکھی ہوئی تھیں، اسی طرح پنجاب میں ایک اہم سیٹ پر تعینات رہنے والی ایک خاتون افسر کو پنجاب بدر کر دیا گیا، اس افسر کی اب بلوچستان میں تعیناتی ہو چکی ہے مگر اس نے دو ماہ قبل تک پنجاب حکومت کی گاڑی واپس نہیں کی تھی

یہ چند ایک مثالیں ہیں، ان حالات میں ملک کیسے مستحکم ہو سکتا ہے، عوام کا درد لے کر حکومت بنانے والی تمام پارٹیاں خود بھی کبھی قربانیاں دیں گی یا ہمیشہ عوام کی ہی بھلی چڑھا کر اپنا دھندا چلاتے رہیں گے، مہنگائی کے اس ہولناک دور میں اب سیاستدانوں کی باری ہے کہ وہ عوام کے حال پر رحم کھائیں اور اپنے اللے تللے بند کر کے عوام کو سکون کا سانس لیں۔ ورنہ وہی پیر صاحب والی بات ہوگی، تسی ساڈے پیر تے تسی ساڈے بُل ٹیریئر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments