نیلے سمندروں کو صاف رکھیں


سمندروں کا عالمی دن

کرہ ارض پر صحت مندانہ زندگی بسر کرنے کی خاطر صاف و شفاف سمندروں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سمندروں کا صاف پانی حیاتیاتی تنوع اور ایکو سسٹم کو اصل حالت میں برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ دنیا بھر میں آٹھ جون کا دن عالمی یوم بحر کے طور پر منایا جاتا ہے یعنی سمندروں کا عالمی دن۔ اس دن کو منانے کا مقصد سمندروں کی اہمیت کو اجاگر کرنا، آبی جانداروں کو لاحق خطرات اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ سال 2008 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرار داد پیش کی گئی اور اس قرارداد کے نتیجے میں عالمی یوم بحر کو منظور کیا گیا۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے ایک سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں آباد ہے۔ اس مناسبت سے سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے۔ یہ ساحل ان افراد کے لیے خوراک کا ذریعہ اور رہائشی ٹھکانے بھی ہیں۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں سے کیمیاوی اور دوسرے مضر اجزاء کا سامنا ہے۔

جبکہ سمندروں میں ہونے والے حادثے بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ خیال کیے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ سمندر کو محفوظ بنانے کے بعد اسے توانائی کا متبادل ماخذ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ جبکہ سمندری علوم کے ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بھی ایک بے بہا خزانہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان کا ساحل سمندر 1050 کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں 700 کلو میٹر کا رقبہ بلوچستان کے ساتھ جبکہ 350 کلو میٹر کی حدود سندھ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان ہر سال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک فروخت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ 40 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ مگر اب اس میں تیزی سے کمی آ رہی ہے جس کی وجہ آبی آلودگی ہے۔ پاکستان کے سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور بغیر ٹریٹمنٹ کے فیکٹریوں سے آنے والا فضلہ، اور شہر کے کئی نالوں کا رخ سمندر کی طرف ہونا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع ہیں یعنی دریاؤں کی آلودگی، شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی وغیرہ ہے۔ جبکہ تیل کے ٹینکرز سے رسنے سے بھی سمندر آلودہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کی شکل میں دنیا کے تین حصوں پر مشتمل پانی کا ذخیرہ جو حیات انسانی کے لئے ضروری ہے، ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔

یقیناً یہ سمندر اس سیارے کی پچاس فیصد آکسیجن پیدا کرنے کا باعث ہیں۔ اس زمین پر حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے والے یہ سمندر دنیا بھر میں ایک بلین نفوس کو پروٹین مہیا کرنے کا بھی ایک انتہائی اہم ذریعہ ہیں۔ یہ سمندر اس زمین کا تحفظ یقینی بناتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اور دنیا کی تمام حکومتیں یقینی بنائیں کہ سمندر آلودہ نہ ہوں اور اس زمین کے نظام کو چلانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ نیلے پانیوں کو بچانے کی کوشش میں مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیر ہیں کہ ساحلی علاقوں میں پائے جانے والے مینگروز کے درخت، آبی نباتات اور سالٹ مارشز (موٹی گھاس سے بھرپور ساحلی علاقے ) عام جنگلات کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو چار گنا زائد حد تک جذب کر لیتے ہیں۔ اس عمل کو بلیو کاربن ایکو سسٹم کہا جاتا ہے۔ پیرس کلائمیٹ معاہدے کے تحت کاربن گیسوں میں کمی کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے یہ سمندری سسٹمز انتہائی ناگزیر ہیں۔

سمندری اقتصادیات کو مستحکم بنانا

سمندر اسی وقت اقتصادی ترقی کا ایک پائیدار ذریعہ رہیں گے جب ان کا استعمال پائیدار طریقے سے کیا جائے۔ ماہی گیری کے روایتی طریقے ساحلی علاقوں کی اقتصادیات میں بہتری میں اہم ہیں جبکہ اس سے حیاتیاتی تنوع اور مقامی کلچر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ ’بلیو اکانومی‘ کا مقصد یہ بھی ہے کہ متبادل توانائی کے ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کی صورت میں اس زمین کا لائف سپورٹ سسٹم متاثر نہ ہو۔

بہت زیادہ مچھلیاں پکڑنے کا عمل ترک کیا جائے

سمندروں کو پائیدار بنانے کی خاطر غیر قانونی ماہی گیری کو روکنا بھی ضروری ہے۔ اس وجہ سے جزائر گالا پاگوز میں حیاتیاتی تنوع سے بھرپور آبی زندگی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

پلاسٹک کا کچرا دان

گریٹ پیسفک گاربیج پیچ پلاسٹک اور مائیکرو (جو کہ نارتھ امریکہ سے جاپان تک ہے ) پلاسٹک کوڑے کا ایک بڑا جزیرہ معلوم ہوتا ہے، جو اب امریکی ریاست ٹیکساس سے دو گنا بڑا ہو چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک اعشاریہ آٹھ ٹریلین پلاسٹک کے ٹکڑے جمع ہو چکے ہیں، جو اسی ہزار ٹن کے کچرے کے وزن کے برابر ہے۔ پلاسٹک کو سمندر برد کرنے کی بھر پور حوصلہ شکنی کی جائے۔ یقیناً پاکستان میں بھی کچرے کے ساتھ بہت سارا پلاسٹک سمندر برد ہو رہا ہے

ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ تعالی کی اس نعمت کی قدر کریں۔ کیوں کہ صاف ستھرا سمندر صحت مند زندگی کی علامت ہے۔ ہماری اگلی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ ہم سمندروں کی حفاظت کے لیے ہر سطح پر آگاہی کر کے ان کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments