مفاہمت یا احتساب؟


پاکستان میں جب جنرل مشرف نے آئین توڑ کر اقتدار سنبھالا تو اپنا سب سے بڑا بیانیہ ”احتساب“ اپنایا اور اس بیانیہ کے تحت ایک ادارہ جسے بعد میں نیب کا نام دیا گیا اور احتساب کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں مگر مصلحت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جنرل مشرف اپنے اس بیانیے سے پیچھے ہٹ گئے کیوں کہ جنرل مشرف کی جڑیں عوام میں نہیں تھیں اور 9 / 11 کے بعد دنیا اور بالخصوص پاکستان کے حالات بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہوچکے تھے نیز کارگل ایڈونچر کے بعد ہمارے امریکہ بہادر کے ساتھ تعلقات میں ایک نیا موڑ آ چکا تھا اس لیے جنرل مشرف اس احتساب کے عمل کو شفاف بنا نہیں سکے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے ایک بیانیہ ”مفاہمت“ مرتب کیا گیا جس کے مطابق ملک کے ایسے تمام افراد جن پر سیاسی بنیادوں پر مقدمات بنائے گئے تھے چاہے وہ درست ہوں یا غلط سب کو معاف کرنے کے بعد اور سیاسی مفاہمت پر مبنی ایک نئے سفر کا آغاز کیا جائے جس کے متبادل اس وقت چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ایک بیانیہ ”سچائی پر مبنی مفاہمت“ کا بیانیہ اپنایا جو کہ جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ کے پاس کردہ

truth and reconciliation comission سے مستعار شدہ تھا پیش کیا

جس کے مطابق ان کیسوں کا فیصلہ کیا جائے یا پھر سچائی قوم کو بتائی جائے کہ وہ کیسز سچے تھے یا جھوٹے اور پھر آگے بڑھا جائے۔ چوں کہ بے نظیر جیسی شخصیت کی موجودگی میں پیپلز پارٹی اس وقت ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت تھی اس لیے جنرل مشرف نے پیپلز پارٹی کے بیانیہ یعنی مفاہمت کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور این آر او یعنی قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کر دیا جس کے مطابق جس پر جو بھی کرپشن کے کیسز تھے وہ ختم ہو گئے جسے بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر ختم کر دیا گیا لیکن سرکار چوں کہ مدعی تھی اس لیے ان تمام کیسز پر کسی قسم کا عملی کام نہ ہوسکا جس کا خمیازہ اشرافیہ کی مزید کرپشن کی صورت میں عوام الناس کو بھگتنا پڑا اور حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ آج ہمارے بجٹ کا چالیس فیصد کے قریب حصہ بیرونی اداروں سے لیے گئے قرضوں یا ان کے سود کی مد میں واپسی پر صرف ہوجاتا ہے۔

اب صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ عوام الناس کے جیبوں پر پڑنے والے ڈاکے سے اشرافیہ کے اللے تللے برداشت کیے جا رہے ہیں اور بجائے سیاسی و غیر سیاسی اشرافیہ سے پیسے نکلوانے کے عوام کی چیخیں نکلوائی جا رہی ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا کر نان ایشوز کو ایشو بنا کر عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں اور پھر لفظی اقدامات کے ذریعے اپنے اپنے حصے کی واہ واہ سمیٹنے میں مگن ہیں جس سے عوام الناس کی اکثریت مسائل کو سمجھنے سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ ان کو ان مسائل سے نکلنے کا کوئی حل بھی نظر نہیں آ رہا۔

کرپشن نے ہمارے معاشرے کو نہ صرف معاشی طور پر تباہ کیا ہے بلکہ ہماری اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا ہے آج حالات یہ ہیں اربوں روپے کے ملزمان جن پر فرد جرم عائد ہونے کے قریب ہے سیاسی جماعتیں ایسے افراد کو اہم عہدوں کے لیے نامزد کرتی ہیں اور پوری کی پوری سیاسی جماعت میں سے کسی قسم کی کوئی مخالف آواز نہیں اٹھتی۔ کہنے کو تو پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے مگر اسلام کے بنیادی اصولوں پر نہ تو ہماری ریاست گامزن ہے اور نہ ہمارے عوام ان بنیادی اصولوں کو ماننے کو تیار ہیں۔

اگر ہم نے ملک اور عوام کو موجودہ دلدل سے نکالنا ہے تو ہمیں چند بڑے فیصلے لینے ہوں گے اور یہ بڑے فیصلے موجودہ کمزور سا سیٹ اپ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس کے لیے تازہ مینڈیٹ درکار ہے اور اس مینڈیٹ کے بعد بننے والی پارلیمنٹ ایک فارمولا طے کرے اور اس کے مطابق جس پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں یا تو وہ ان الزامات کا سامنا کریں اور جلدی کیسز کا فیصلہ کروائیں یا پھر الزامات کا 20 فیصد قومی خزانے میں جمع کروایا جائے اور ملک سے باہر موجود دولت کو پاکستان واپس لایا جائے ہر وہ شخص جس کے نام پر ملک سے باہر اثاثے موجود ہوں اس کے ملک میں سیاست کرنے پر پابندی لگائی جائے اور پھر ایک نیا مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا جائے اور کرپشن کے کیسز پر آئندہ کے لیے سخت سے سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔

پارلیمنٹ 15 سالہ متفقہ معاشی پالیسی دے اور شرح سود کو اگلے 15 سال کے لیے 6 فیصد پر فکس کردے اور سرمایہ داروں کو مختلف قسم کی مراعات دے کر ملک کو صنعتی انقلاب کی جانب گامزن کیا جائے۔ عوام الناس کو مزید نچوڑنا ان کو قتل کرنے کے مترادف ہو گا۔ بطور ریاست اور بطور قوم ہمارا سابقہ تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ ہم نے غلطیوں سے نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہے لیکن شاید ہم اس بار کچھ سیکھ سکیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا کرنے کے بجائے حقیقی مسائل کا ادراک کر کے ان مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں ورنہ مزید تباہی، مزید پستی ہمارا مقدر ہوگی۔ میری ریاست کے دانشمند طبقے اور ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ زمینی حقائق پر اپنی نظر مزید گہری کریں خطے اور دنیا کے حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں یہ نہ ہو پھر ہمارے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ بچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments